بیٹیوں کو آداب زندگی سکھائیں

بیٹیوں کی تربیت

بیٹیوں کو آدابِ زندگی سکھائیں

* ام میلاد عطاریہ

ماہنامہ فیضان مدینہ مئی 2024ء

مشہور مُفَسِّرِ قراٰن حضرت علّامہ احمد بن محمد قُرطُبی رحمۃُ اللہِ علیہ نَقل فرماتے ہیں:ہم پرفرض ہے کہ اپنی اَولاد اور اپنے اہلِ خانہ  کو دِین کی تعلیم دیں، اچّھی باتیں سکھائیں اور ضروری ادب و آداب کی تعلیم دیں۔(تفسیر قرطبی، پ29، التحریم، تحت الآیۃ:6، 9 / 148)

یوں تو اولاد بیٹا ہو یا بیٹی اس کی پرورش اور تربیت نہایت اہم کام ہے۔لیکن کہا جاتا ہے کہ بیٹی کی اچھی تعلیم و تربیت کامطلب ہے ایک خاندان کی تعلیم و تربیت۔ آج کی بیٹی کل بیوی، بہو، ماں اور پھر ساس کی صورت میں ہوگی۔ لہٰذا آج اس بیٹی کی تربیت پر بھرپور توجہ دینا ضَروری ہے تا کہ کل جب یہ خود کسی کی ماں بنے تو اپنی اولاد کی بہترین تربیت سے غفلت کی مرتکب نہ ہوکیونکہ آگے چل کر ایک بیٹی نے ہی نئی نسل کو نہ صرف جنم دینا ہے بلکہ اس کی پہلی تربیت گاہ بھی اسی کی گود ہوگی۔جو اس کی عادات   ہوں گی وہ اس کے بچوں میں بھی منتقل ہوں گی۔ لہذا بیٹیوں کی پرورش میں بہت زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

انہیں اچھی تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت، آداب ِ زندگی، سلیقہ مندی، صبر  اور برداشت جیسے تمام امور بچپن ہی سے سکھائے جائیں کیونکہ جو بات بچپن میں سکھائی جاتی ہے جڑ پکڑ لیتی ہے۔

اگر اسلامی تعلیمات کا مطالعہ کیا جائے تو بیٹی کی پرورش کے حوالے سے کئی طرح کے آدابِ زندگی بیان کئے گئے ہیں۔ نہ صرف اپنی ذات سے متعلق آدابِ زندگی سکھانا ضروری ہیں بلکہ خاندان اور معاشرے سے متعلق آدابِ زندگی بھی تربیت کا حصہ ہونے چاہئیں۔

صفائی ستھرائی کے آداب:

ذات سے متعلق آدا ب میں پاکیزگی و طہارت کو ایک مسلمان کی زِنْدَگی میں جو اہمیت حاصِل ہے اس سے انکار ممکن نہیں۔ جیسا کہ اللہ پاک کا فرمان ہے:

(وَاللّٰهُ یُحِبُّ الْمُطَّهِّرِیْنَ(۱۰۸))

ترجَمۂ كنز الايمان: اور ستھرے اللہ کو پیارے ہیں۔(پ11، التوبۃ: 108)

(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

اس کے لئے شیخِ طریقت، امیرِ اہلِ سنّت حضرت علّامہ مولانا محمد الیاس عطار قادری دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ کی مایہ ناز کتاب ”اسلامی بہنوں کی نماز“ تو بیٹیوں کی زندگی کا لازمی نصاب ہونی چاہئے۔

پاکیزگی سے صرف کپڑوں کا صاف ہونا ہی مراد نہیں بلکہ دل کی صفائی بھی مراد ہے، اس لئے کہ نَجاست صرف بدن یا کپڑوں کے ساتھ خاص نہیں بلکہ باطِن کی صفائی بھی شریعت کو مطلوب ہےکیونکہ جب تک باطِن پاک نہ ہو عِلْمِ نافِع (نَفْعْ بخش عِلْم) حاصِل نہیں ہوتا اور نہ ہی انسان علم کے نور سے روشنی پاسکتا ہے، لہٰذا بیٹی کی پرورش کے دوران والدین پر لازم ہے کہ وہ بیٹی کے ظاہر کی پاکی و طہارت کا اہتمام کرنے کے ساتھ ساتھ اس کے باطن کی پاکیزگی پر بھی بھرپور توجہ دیں تا کہ اس کا دل بُری صِفات سے پاک رہے۔ مثلاً حسد، تکبر، ریا کاری، عجب و خود پسندی، جھوٹ، غیبت، چغلی، گالی گلوچ، امانت میں خیانت، بدعہدی وغیرہ کے دنیا و آخرت میں نقصانات سے خوب آگاہ کریں تاکہ بیٹی ان ہلاک کر دینے اور جہنّم میں لے جانے والے گناہوں سے بچ سکے۔

اس کیلئے امیرِ اہلِ سنّت کی کُتب ”کفریہ کلمات کے بارے میں سوال جواب“، ”غیبت کی تباہ کاریاں“ اور ”فیضانِ سنّت“ کے تمام ابواب نیز مکتبۃُ المدینہ کی کتاب ”باطنی بیماریوں کی معلومات“ لازمی پڑھائیں۔

رشتوں کے متعلق آداب:

خاندان سے مُتَعَلّق آداب بھی سکھائے جائیں اس سے مراد وہ آداب ہیں جو ایک مَضْبُوط اور خُوشحال خاندان کی بَقا کے لئے اِنْتِہائی ضَروری ہیں۔مثلاً وَالِدَین کا اَدَب و اِحترام اور دیگر چھوٹوں بڑوں کے ساتھ حُسنِ سُلوک، صِلہ رحمی (رِشْتہ داروں سے اچھے سُلُوک) کی فضیلت اور قطعِ تعلقی کی مَذمّت وغیرہ۔ ان آداب کے بجا لانے کی بنا پر ایک بیٹی خاندان بھر کی آنکھوں کا تارا بن جاتی ہے، لہٰذا والدین پر لازم ہے کہ وہ اپنی بیٹی کی پرورش میں ذَرَّه بھر کوتاہی نہ ہونے دیں اور بچپن ہی سے اس کی اسلامی تربیّت کا اہتمام کریں۔

بچے بالخصوص بیٹیاں چونکہ والدین سے دیگر رشتے ناطوں کی پہچان سیکھنے کے ساتھ ساتھ یہ بھی سیکھتی ہیں کہ ان کے والدین اپنے قرابت داروں سے کس طرح پیش آتے ہیں، لہٰذا اگر آپ اپنے بعض قرابت داروں سے صِلۂ رحمی کے بجائے قطع تعلقی کر لیں گے یا اُن کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کریں گے تو ان کے ذہنوں سے ان رشتوں کا تقدس خَتْم نہیں تو کم ضَرور ہو جائے گا، لہٰذا خود بھی صلہ رحمی کا اہتمام کیجئے اور اپنی بیٹی کو بھی یہ بات خوب باور کرا دیجئے۔

معاشرے سے متعلق آداب:

اسلامی معاشرے سے متعلق آداب اور بنیادی خدو خال سرورِ کائنات صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی زبانِ حق ترجمان سے بیان ہوئے ہیں ان آداب پر بھی تربیت کریں۔ایک اِسلامی و فلاحی مُعَاشَرے کی بَقا کیلئے اِنتہائی ضَروری ہے کہ اس کے اَفراد کی تربیّت پر بھرپور توجہ دی جائے، لہٰذا بہتر یہ ہے کہ اس کا آغاز ماں کی گود سے ہوتاکہ زِنْدَگی بھر بچے پر اس تربیّت کے اَثرات  رہیں۔ اس تَناظُر میں بیٹی کی بہترین پرورش کی اَہَمِیَّت مزید بڑھ جاتی ہے کیونکہ اگر آج اس کی تربیّت میں کوئی کمی رہ گئی تو اس کا اِزالہ کرنا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہوجائے گا۔

ہمیں چاہئے کہ کبھی بھی بیٹی کی پرورش میں اس کی مدنی تربیت سے کوتاہی نہ برتیں، اسے معاشرتی بُرائیوں کی قباحتوں سے کماحقہ آگاہ کریں تاکہ وہ ان سے بچ سکے۔ اپنی بیٹیوں کو نیک سیرت بی بیوں اور صحابیات کے واقعات سناکر ان کی سیرت پر چلنے کا درس دیں، اس کی برکت سے بچیوں کےدل میں ان کی محبت پیدا ہوگی اور وہ ان کے نقش قدم پر چلنے کے لئےتیار ہوں گی۔

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* نگران عالمی مجلس مشاورت (دعوتِ اسلامی) اسلامی بہن


Share

Articles

Comments


Security Code