اسلام میں اتنی پابندیاں کیوں؟

آخر درست کیا ہے؟

اسلام میں اتنی پابندیاں کیوں؟

* مفتی محمد قاسم عطاری

ماہنامہ فیضان مدینہ مئی 2024ء

ملحدین اوردین کے منکرین اعتراض کرتے ہیں کہ اسلام نے تو چھوٹی چھوٹی چیزوں پر پابندی لگادی ہے،لباس ایسا ہو، کھانا ایسا ہو، چلنا ایسا ہو،بیٹھنا ایسا ہو،یہاں تک کہ واش روم میں جائے تو اس میں بھی یوں بیٹھیں،یوں استنجا کریں، یوں نہ کریں، تو چھوٹی چھوٹی باتوں پر اسلام نے پابندیاں لگادی ہیں۔ انسان کو زیادہ سے زیادہ آزادی ملنا انسان کا حق ہے اور پابندیوں میں جکڑنا اس کی آزادی کو چھیننے کے برابر ہے۔

ظاہری الفاظ کے اعتبار سے یہ شبہ جتنا دل کش لگتا ہے لیکن حقیقت میں انسانی زندگی کے لئے اتنا ہی تباہ کُن ہے۔ اسلام کا دعویٰ ہے کہ وہ مکمل ضابطہ حیات ہے اور ضابطہ کہتے ہی پابندی کو ہیں۔ ضابطے کو دوسرے الفاظ میں قاعدہ قانون بھی کہا جاتا ہے۔ ضابطے نہ ہوں تو آزادی ہوگی یا آوارگی؟ اس پر ہر شخص بآسانی غور کرکے سمجھ سکتا ہے۔ دنیا میں انسانوں میں کوئی بھی معاشرہ ضابطوں،اور پابندیوں کے بغیر چل ہی نہیں سکتا۔کاروبار، لین دین، پہننے اوڑھنے، رہنے سہنے کے اپنے اپنے ضابطے ہیں۔ چند مثالیں ملاحظہ کریں۔

اگر کسی نے گاڑی پر پانچ سات منٹ میں صرف دو تین کلو میٹر کافاصلہ طے کرنا ہے، اسے بھی قدم قدم پر پابندیوں کا سامنا کرنا پڑے گا کہ صرف وہی گاڑی لے کر روڈ پر آنا ہے، جس گاڑی میں فلاں فلاں خرابی نہ ہو، گاڑی میں بیٹھے سب افراد سیٹ بیلٹ کی پابندی کریں، ڈرائیونگ کرنے والے کے لئے لائسنس کی پابندی ہے،گاڑی میں سواریوں کی مخصوص تعداد تک بٹھانے کی پابندی ہے، سرخ لائٹ کے سگنل پر گاڑی کو روکنے کی پابندی ہے، گاڑی کو ملک کے قانون کے مطابق دائیں یا بائیں والی سڑک پر چلانے کی قید ہے، گاڑی چلانے میں مخصوص رفتار کی پابندی ہے۔ اب کیا کوئی یہ کہے گا کہ ہم نے تو پانچ منٹ میں گھر پہنچ جانا تھا، مگر اس معمولی سے سفر کو بھی اِن پابندیوں نے عذاب بنادیا، اتنے قوانین نافذ کردئیے کہ ہماری ذاتی گاڑی پر بھی ہماری مرضی نہیں چلنے دیتے، ہمارے ملکیتی حقوق پر جبر مسلط کردیا گیاہے، ہمارے بنیادی حقوق ہم سے چھین لئے ہیں اور ایسا کرنا ہماری شخصی آزادی کے خلاف ہے۔ ملک تو وہی اچھا ہے، جہاں آزادی ہو، قانون نہ ہو، پابندیاں نہ ہوں۔ جوشخص جیسی گاڑی چاہے،لے کر روڈ پر نکل جائے، جتنے مرضی افراد بیٹھیں، چاہے بچہ چلائے یا بڑا،جتنی چاہے اسپیڈ بڑھائے، کوئی روک ٹوک نہ ہو، کہاں کی دائیں بائیں کی پابندی اور کدھر کی لال پیلی بتیوں کی غلامی۔ بس آزادی ہی آزادی ہو۔ اب خود سوچ لیں کہ ایسے فرد کی گفتگو سن کر دس سال کا بچہ بھی ہنسے گا۔

ملکی پابندیوں سے نیچے آکر ذرا نوکری کی پابندیوں پر نظر ڈال لیں، مثلاً کسی پروفیشنل ادارے میں آفس رولز دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ وہاں بھی ہر قدم پر پابندی ہے کہ اتنے بجے سے لیٹ نہیں ہونا، یونیفارم اس کلر کا ہو، ٹائی ایسی ہو، جوتے اس انداز کے ہوں، ہر ملازم کے پاس اس کا کارڈ ہر وقت موجود ہو، آتے جاتے وقت حاضری لگانا ضروری ہے، انٹر نیٹ استعمال کرنے کی اجازت نہیں ہوگی، ڈیوٹی ٹائم میں اخبار نہیں پڑھ سکتے، سیاسی گفتگو نہیں کر سکتے، آفس میں رشتے داروں سے ملاقات نہیں کر سکتے، دوران ڈیوٹی کال نہیں سن سکتے، آواز اونچی نہیں کر سکتے، وغیرہ درجنوں پابندیاں ہیں، تو وہاں کوئی یہ کہتا نظر نہیں آئے گا کہ کیا ہر چھوٹی چھوٹی بات پر پابندی لگائی ہوئی ہے، اچھا ادارہ تو وہ ہے جہاں ملازمین کو آزادی ہو، بس ان سے ان کا اصل کام لیں اور بات ختم، یہ کھانے پینے،آنے جانے، سونے اور گپ شپ وغیرہ کی پابندیوں سے ملازمین کو گھٹن ہوتی ہے، تو ایسی سوچ کے حامل افراد کا وہاں نوکری کرنا تو دور، شاید داخلہ بھی ممنوع قرار دے دیا جائے۔

اب ذرا اس سے بھی نیچے آکر ایک مثال ملاحظہ کریں کہ اگر کوئی شخص روڈ پر مکان بنا کر بیٹھ جائے اور کہے کہ یہ اللہ کی زمین ہے اور میری مرضی، لہٰذا جہاں چاہوں مکان بنالوں۔تو یہاں کوئی ضابطہ، پابندی لگائیں گے یا نہیں کہ روڈ پرمکان نہیں بنانااور جہاں بنانا ہے وہاں کے اصول و ضوابط یہ ہوں گے مثلا اتنے منزلہ تک بناسکتے ہیں، گھر میں آگے پیچھے اتنی جگہ چھوڑنی ہوگی وغیرہا۔

بلکہ قاعدے قانون کے بغیر تو چھوٹا سا گھر بھی نہیں چل سکتا۔ گھر میں دس سال کا بچہ کہے کہ میری مرضی چلے گی تو بتائیے کہ گھر سکون سے چل جائے گااور گھر میں دس سال کے بچے کی چلے گی یا ابا کی چلے گی؟

لہٰذا ہر صاحب عقل و فہم یہ بات سمجھ سکتا ہے کہ کسی ملک یا ادارے، معاشرے اور خاندان کا نظام صحیح طریقے سے چلانے کے لئے سینکڑوں پابندیوں یعنی قوانین بنانا اور ان پر عمل کرنا ضروری ہے۔ یہ پابندیاں ہی انسان کومعقول و مہذب انسان بناتی ہیں۔ جب کوئی ادارہ یا ملک کا قانون اپنے اختیارات استعمال کرتے ہوئے لوگوں کو چھوٹی سے چھوٹی باتوں کا پابند بناتا ہے تو جو تمام انسانوں کا خالق و مالک و حاکم بلکہ سب حاکموں سے بڑا حاکم یعنی احکم الحاکمین ہے وہ انسانوں کی بھلائی اور انہیں اچھا انسان بنانے کےلئے پوری زندگی کےلئے ہدایات کیوں نہیں دے گا۔ قرآنِ پاک میں فرمایا

(یُبَیِّنُ اللّٰهُ لَكُمْ اَنْ تَضِلُّوْا)

ترجمہ: اللہ تمہارے لئے صاف بیان فرماتا ہے تاکہ تم بھٹک نہ جاؤ۔(سورۃ النساء، آیت 176)

(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

 کوئی انسانی معاشرہ جب تک کہ جنگلیوں وحشیوں پر مشتمل نہ ہوجائے،تب تک وہ ضابطوں کا پابند رہے گا،ضابطے ہی جنگل کے قانون اور انسانی معاشرے میں فرق کی علامت ہیں۔ جنگل کا ایک ہی قانون ہے جس کی طاقت، اس کی مرضی، جس کی جہاں چلتی ہے وہ چلالے، مثلاً شیر کی اپنے کمزوروں پر چلتی ہے وہ ان کا شکار کرلے، جہاں پر ہاتھی کی چلے وہاں وہ مرضی کرلے، تو یہ ہے جنگل۔اس کے مقابلے میں انسانی معاشرہ وہ ہے جس میں حدود و قیود ہیں، ضابطے اور پابندیاں ہیں۔ یہ ضابطے ہی تو انسانیت کی دلیل ہیں، جو یہ کہتا ہےکہ ضابطے نہیں ہونے چاہئیں اسے انسانی بستیوں سے نکل کر جنگل کا رُخ کرنا چاہئے۔

یہ جملہ کہ دین نے ہر شے میں پابندیاں لگائی ہیں،یہ ایک تعبیر ہے۔ آپ اسے پابندیاں کہہ لیں یا ہدایات یاتعلیمات یا قواعد و ضوابط یا تربیت۔اسلام کی یہ تعلیمات ایسے ہی ہیں جیسے شفیق ماں باپ اپنی اولاد کو کھانے، پینے، اٹھنے، بیٹھنے، چلنے، پھرنے، بات کرنے کےطریقے سکھاتے ہیں تو یہ پابندیاں حقیقت میں تعلیم و تربیت اور رہنمائی ہوتی ہیں۔ اِسے کوئی کم عقل ہی کہے گا کہ بڑے ظالم ماں باپ ہیں جنہوں نے بچے کی آزادی چھین لی۔

 ایک اور دلچسپ بات یہ ہے کہ چھوٹی چھوٹی پابندیاں ہی زندگی کو خوب صورت، شائستہ اور خوش گوار بناتی ہیں مثلاً کھانے پینے، اٹھنے بیٹھنے وغیرہ کے متعلق یہی چھوٹی چھوٹی باتیں جب کسی انگریزی اسکول میں پڑھائی جاتی ہیں تو کہا جاتا ہے کہ what beautiful !manners they are teaching us، ہمیں ناخن کاٹنے کے طریقےبتائے، کھانا کھانے، نیپکن لگانے، چھری چمچ پکڑنے، چیزیں فلاں ترتیب سے رکھنے، اٹھانے، لقمہ بنانے، پکڑنے، کاٹنے کے طریقے سکھائے۔ اسکولوں کی اس تعلیم کو پابندیاں نہیں کہا جاتا بلکہ فخر سے بتایا جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ نے ہمیں جو دین عطا فرمایا ہے وہ بھی ہمیں ایسی بلکہ اس سے بڑھ کر عمدہ تعلیمات دیتا ہے اور اُس دین کے کامل ضابطہ حیات ہونے کی یہ نشانی ہے کہ اس نے ہمیں جہاں عقیدے جیسی بلند ترین حقیقتیں بتائیں، وہیں عبادات و اخلاقیات و معاشرت و آدابِ زندگی بھی سکھائے ہیں۔

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* نگران مجلس تحقیقات شرعیہ، دارالافتاء اہل سنت، فیضان مدینہ کراچی


Share

Articles

Comments


Security Code