دیہات والوں کے سوالات اور رسولُ اللہ کے جوابات(قسط:06)

علم کی چابی

دیہات والوں کے سوالات اور رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے جوابات(قسط :6)

*مولانا محمد عدنان چشتی عطّاری مدنی

ماہنامہ فیضان مدینہ مئی 2024ء

مکۂ مکرمہ اور مدینۂ منورہ کے اردگرد چھوٹی چھوٹی بستیاں، قبیلے، گاؤں اور دیہات آباد تھے، ان میں سے کچھ قریب اور کچھ دور دراز سفر پر واقع تھے۔ان میں رہنے والے لوگ ہمارے پیارے نبی،مکی مدنی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں حاضر ہوتے،اپنی مشکلات،مسائل اور الجھنیں سُلجھانے کے لئے آپ سے سوالات کرتے،ان میں سے 19 سوالات اور ان کے جوابات پانچ قسطوں میں بیان کئے جا چکے، یہاں مزید 3سوالات اور پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے جوابات ذکر کئے گئے ہیں:

کیا علاج کروانا منع ہے؟ حضرت اُسامہ بن شریک رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں میں رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی خدمت میں حاضر ہوا تو وہاں صحابَۂ کرام رضی اللہُ عنہم یوں موجود تھے كَاَنَّمَا عَلَى رُءُوسِهِمْ الطَّيْرُ جیسے ان کے سروں پر پرندے بیٹھے ہوں۔ حضرت اُسامہ فرماتے ہیں: فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ وَقَعَدْتُ تو میں نے نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو سلام کیا اور بیٹھ گیا۔ فَجَاءَتِ الْاَعْرَابُ فَسَاَلُوهُ اسی وقت کچھ دیہاتی آئے اور رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے سوالات کرنے لگے۔ انہوں نے کہا: يَارَسُولَ اللَّهِ نَتَدَاوَى؟ یارسولَ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم!کیا ہم (علاج کے لئے) دوائی لیں؟ نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: نَعَمْ تَدَاوَوْا فَاِنَّ اللَّهَ لَمْ يَضَعْ دَاءً اِلَّا وَضَعَ لَهُ دَوَاءً غَيْرَ دَاءٍ وَاحِدٍ الْهَرَمُ ہاں! دوائی لو، بے شک اللہ کریم نے کوئی ایسی بیماری نہیں رکھی جس کا علاج نہ ہو سوائے ایک بیماری کے وہ ہے بڑھاپا۔ جب حضرت اُسامہ رضی اللہُ عنہ بوڑھے ہو گئے تو کہتے تھے:هَلْ تَرَوْنَ لِي مِنْ دَوَاءٍ الْآنَ یعنی کیا اب تمہیں میرے لئے کوئی دوا مل سکتی ہے؟ پھر اُن آنے والوں نے رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے کچھ چیزوں کے بارے میں سوالات کئےکہ کیا فلاں فلاں چیز میں ہم پر کوئی حرج ہے؟تو نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: عِبَادَ اللهِ وَضَعَ اللهُ الْحَرَجَ اِلَّا امْرَاً اقْتَرَضَ امْرَأً مُسْلِمًا ظُلْمًا اے اللہ کے بندو! اللہ نے حرج کو ختم فرمادیا ہے سوائے اس آدمی کے جو کسی مسلمان سے ظلماً قرض لیتا ہے (کہ یہ گناہ اور ہلاکت کا سبب ہے) انہوں نے پوچھا: مَا خَيْرُ مَا اُعْطِيَ النَّاسُ يَارَسُولَ اللَّه یا رسولَ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم! انسان کو سب سے بہترین کون سی چیز دی گئی ہے؟ نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: خُلُقٌ حَسَنٌ حسن اخلاق۔([1])

اس حدیثِ پاک میں موجود الفاظ اِقْتَرَضَ امْرَاً مُسْلِمًا ظُلْمًا سے مراد یہ ہے کہ کوئی آدمی اپنے مسلمان بھائی کی غیبت کرے، اسے گالی دے،یا تکلیف پہنچائے تو اُس سے اِس کی پوچھ گچھ ہو گی۔اسے قرض سے اس لئے تعبیر کیا گیا ہے یہ اُسے لوٹا دیا جائے گا یعنی آخرت میں اُسے اِس کی سزا دی جائے گی۔([2])

صحیح ابن حبان میں ان ہی صحابی سے یوں ہے کہ جب میں رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں حاضر ہوا تو اعرابی آپ سے سوال کر رہے تھے :يَا رَسُولَ اللَّهِ هَلْ عَلَيْنَا جُنَاحٌ فِي كَذَا مَرَّتَيْنِ؟یارسولَ اللہ کیا ہم پر فلاں فلاں معاملہ میں کوئی حرج ہے؟یہ انہوں نےدو بار پوچھا تو رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:عباد الله وَضعَ الله الحرجَ اِلَّا امْرُؤٌ اقْتَرَضَ مِنْ عِرْضِ اَخِيهِ شَيْئًا فَذَلِكَ الَّذِي حَرِجَ یعنی اے اللہ کے بندو! اللہ کریم نے حرج کو اٹھا دیا ہے سوائے اس آدمی کے کہ جو اپنے بھائی کی عزّت میں ذرا سی چیز بھی ادھار لے(یعنی اسے ذرا سابھی بےعزّت کرے)پس یہ حرج ہے الخ۔([3])

جنت میں لے جانے والا عمل سکھا دیجئے:حضرت براء بن عازِب رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے پاس ایک اعرابی حاضر ہوا اور سوال کیا: يَا رَسُولَ اللَّهِ عَلِّمْنِي عَمَلًا يُدْخِلُنِي الْجَنَّةَ یارسولَ اللہ! کوئی ایسا عمل سکھائیے جو مجھے جنت میں داخل کرادے؟ نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا بات تو تم نے مختصر کہی ہے لیکن سوال بہت بڑا پوچھا ہے۔ فرمایا: اَعْتِقْ النَّسَمَةَ وَفُكَّ الرَّقَبَةَ یعنی عِتقِ نَسمہ اور فَکِّ رَقبہ کیا کرو۔اَعرابی نے پوچھا: يَا رَسُولَ اللَّهِ اَوَلَيْسَتَا بِوَاحِدَةٍ یعنی یارسول اللہ! کیا یہ دونوں ایک ہی نہیں ہیں؟ (اس لئے کہ دونوں کا معنی ہے: غلام آزاد کرنا ) رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: نہیں، اِنَّ عِتْقَ النَّسَمَةِ اَنْ تَفَرَّدَ بِعِتْقِهَا عتق نسمہ سے مراد یہ ہے کہ تم اکیلے پورا غلام آزاد کردو وَفَكَّ الرَّقَبَةِ اَنْ تُعِينَ فِي عِتْقِهَا اور فک رقبہ کا مطلب ہے غلام کی آزادی میں (رقم کی ادائیگی وغیرہ سے) مدد کرو۔ زیادہ دودھ دینے والے جانور کا صدقہ کرو، ظلم کرنے والے قریبی رشتہ دار پر احسان کرو، فَاِنْ لَمْ تُطِقْ ذٰلِكَ فَاَطْعِمِ الْجَائِعَ وَاسْقِ الظَّمْاٰنَ وَاْمُرْ بِالْمَعْرُوفِ وَانْهَ عَنِ الْمُنْكَرِ یعنی اگر تم میں اس کی طاقت نہ ہو تو بھوکے کو کھانا کھلاؤ،پیاسے کو پانی پلاؤ، نیکی کا حکم دو اور بُرائی سے منع کرو، فَاِنْ لَمْ تُطِقْ ذَلِكَ فَكُفَّ لِسَانَكَ اِلَّا مِنَ الْخَيْرِ یعنی اگر یہ بھی نہ کرسکوتو اپنی زبان کوبھلائی کے سوا بند رکھو۔([4])

کیا مُحرِم خوشبو لگائے؟حضرت یعلٰیٰ بن اُمیّہ رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں: جَاءَ اَعْرَابِيٌّ اِلىٰ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعَلَيْهِ جُبَّةٌ وَعَلَيْهِ رَدْعٌ مِنْ زَعْفَرَانٍ ایک مرتبہ ایک دیہات کا رہنے والا آدمی رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں حاضر ہوا،اُس نے ایک ایسا جبہ پہن رکھا تھا جس پر زعفران کے داغ تھے۔اس نے آکر پوچھا: یا رسول اللہ! آپ دیکھ رہے ہیں کہ میں نے اِحرام باندھ لیا ہے اور لوگ میرا مذاق اُڑا رہے ہیں، رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اُسے تھوڑی دیر کوئی جواب نہ دیا پھر بلا کر فرمایا: اِخْلَعْ عَنْكَ هَذِهِ الْجُبَّةَ یہ جُبّہ اُتار دو وَاغْسِلْ عَنْكَ هَذَا الزَّعْفَرَانَ جو زعفران کی خوشبو لگا رکھی ہے اسے دھو ڈالو، وَاصْنَعْ فِي عُمْرَتِكَ كَمَا تَصْنَعُ فِي حَجِّكَ اور اپنے عمرے کے ارکان اسی طرح ادا کرو، جس طرح حج کے ارکان ادا کرتے ہو۔([5]) خوب یاد رکھئے!جس نے احرام پہن کر نیت کر لی اس کے لئے خوشبو لگانا جائز نہیں۔رفیق الحرمین میں ہے: نیّت سے قبل احرام پر خوشبو لگانا سنَّت ہے، بے شک لگایئے مگر لگانے کے بعد عِطْر کی شیشی بیلٹ کی جیب میں مت ڈالئے۔ ورنہ نیّت کے بعد جیب میں ہاتھ ڈالنے کی صورت میں خوشبو لگ سکتی ہے۔ اگر ہاتھ میں اتنا عِطْر لگ گیا کہ دیکھنے والے کہیں کہ ’’زیادہ ہے ‘‘ تو دَم واجب ہو گا اورکم کہیں تو صَدَقہ۔ اگر عِطْر کی تری وغیرہ نہیں لگی ہاتھ میں صِرف مَہک آ گئی توکوئی کفّارہ نہیں۔ بیگ میں بھی رکھنا ہو تو کسی شاپر وغیرہ میں لپیٹ کر خوب احتیاط کی جگہ رکھئے۔([6])

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* ذمہ دار شعبہ فیضان حدیث، المدینۃ العلمیہ کراچی



([1])مسند احمد، 30/394، حدیث:18454

([2])حاشیہ مسند احمد، 30/397

([3])صحیح ابن حبان،7/621، حدیث:6029

([4])مسند احمد،30/600،حدیث: 18647

([5])مسند احمد، 29/480، حدیث: 17963

([6])رفیق الحرمین،ص30۔


Share

Articles

Comments


Security Code