Book Name:Zid Aur Hat Dharmi
درس دیتا ہے۔ صحابہ کرام علیہمُ الرّضوان کی سیرت سے بھی یہ چیز ملتی ہے کہ وہ حق بات کو فوراً قبول کیا کرتے تھے جیسا کہ
ایک بار امیر المؤمنین حضرت عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے ارشاد فرمایا: ’’لَا تَزِيْدُوْا فِىْ مُهُوْرِ النِّسَاءِ عَلٰى اَرْبَعِيْنَ اَوْقِيَةً، فَمَنْ زَادَ اُلْقِيَتِ الزِّيَادَةُ فِىْ بَيْتِ الْمَالِ “یعنی عورتوں کا حق مہر چالیس اَوقیہ سے زیادہ نہ کرو ورنہ جو زیادہ ہوگا اسے بیت المال میں جمع کردیا جائے گا۔‘‘ ایک عورت بولی: ’’اے امیر المؤمنین! یہ آپ کیا فرمارہے ہیں؟ حالانکہ قرآن پاک میں تو اللہ پاک یوں ارشاد فرماتاہے: اور اگر تم ایک بی بی کے بدلے دوسری بدلنا چاہو اور اُسے ڈھیروں مال دے چکے ہو تو اس میں سے کچھ واپس نہ لو۔‘‘یہ سن کر آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے ارشاد فرمایا: ’’اِمْرَاَةٌ اَصَابَتْ وَرَجُلٌ اَخْطَاَ “یعنی عورت نے صحیح کہا اور مرد نے خطا کی۔([1])
اے حق کے طلبگار اسلامی بھائیو! جب بھی کوئی شخص ہماری بات سے درست اختلاف کرتے ہوئے حق بات بیان کرے تو اس کو اپنی ضد اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے قبول کرنے سے انکار مت کیجئے بلکہ سیرتِ فاروقی پر عمل کرتے ہوئے اُسے فوراً قبول کیجئے۔ یاد رہے کہ ضد اور ہٹ دھرمی سے بچنا عقلمند انسان کا شیوہ ہے اور یہی رویہ اُسے حق کی پہچان، سچائی کی طرف جھکاؤ اور معاشرے میں عزت و وقار دلاتا ہے۔
حق بات کو قبول کرنے والے کا عظیم مرتبہ
پیارے اسلامی بھائیو! حق بات کو قبول کرنا بہت ہی ثواب کا کام ہے ، چنانچہ روایت
[1]...جامع بیان العلم و فضلہ، باب جامع فی آداب العالم والمتعلم،فصل فی الانصاف فی العلم، 1/431، حدیث: 864، ملتقطاً