Book Name:Nazool e Quran Ka Aik Maqsid

ہیں،حفّاظِ کرام نے حِفْظ بھی کر لیا،قاری صاحِب قرآنِ کریم پڑھا بھی رہے ہیں، ہم لوگ اپنے اپنے طَور پر تِلاوت بھی کرتے ہیں،سوچنا یہ ہے کہ کیا ہم قرآنِ کریم کے ذریعے سے اپنے دِل میں قیامت کا خوف بڑھانے میں بھی کامیاب ہو رہے ہیں یا نہیں؟ جب ہم تِلاوت کرتے ہیں تو کیا ہمارا دِل خوفِ خُدا سے کانپتا بھی ہے یا نہیں؟ کیا آنکھوں سے آنسو بھی نکلتے ہیں یا نہیں؟ بارگاہِ اِلٰہی میں پیشی کے خوف سے ہم لرز جاتے ہیں یا نہیں ؟ اگر قرآنِ کریم کے ذریعے بھی ہمارے دِل میں قیامت کا، بارگاہِ اِلٰہی میں حاضِری کا خوف نہیں بڑھ رہا تو یہ بھی ایک بڑی کمی ہے،قرآنِ کریم کے نازِل ہونے کا ایک بنیادی مقصد دِل میں خوفِ قیامت بڑھانا ہے، اگر ہم یہ مقصد ہی حاصِل نہیں کر پا رہے تو یہ غور کا مقام ہے، آخر قرآنِ کریم کے ذریعے بھی ہمارے دِل میں خوفِ خُدا کیوں نہیں بڑھ رہا؟

ہم اپنے اَسْلاف،بزرگانِ دِین، اللہ پاک کے نیک بندوں کی زندگیاں دیکھیں، ان کی سیرت پڑھیں، وہ پاکیزہ حضرات قرآنِ کریم پڑھ کر جس طرح خوفِ خُدا سے رویا کرتے تھے، جیسے ان پر خوفِ خدا کے سبب لرزہ طاری ہوتا ہے، کاش! ہمیں ان بلند رُتبہ ہستیوں، اللہ پاک کے ان نیک بندوں کا فیضان نصیب ہو جائے۔

پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَ سَلَّم کا اندازِ تلاوت

حدیثِ پاک میں ہے:ایک روز پیارے آقا، مکی مدنی مصطفےٰ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَ سَلَّم نے کسی شخص کو تِلاوت کرتے سُنا، جب اس نے یہ آیات پڑھیں:

اِنَّ لَدَیْنَاۤ اَنْكَالًا وَّ جَحِیْمًاۙ(۱۲) وَّ طَعَامًا ذَا غُصَّةٍ وَّ عَذَابًا اَلِیْمًاۗ(۱۳) (پارہ:29،سورۂ مذمل:12 -13)