Book Name:Darood o Salam Ke Fazail
دُرُودوسلام کے پُھول نچھاور کرتے ہی رہنا چاہیے۔اِس میں ہرگز کوتاہی نہیں کرنی چاہیے کیونکہ سرکارِ مدینہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَکے ہم پر بے شُماراِحسانات ہیں۔جنہوں نے دُنیا میں تشریف لاتے ہی سَجدہ فرمایا اورہونٹوں پر یہ دُعا جاری تھی:رَبِّ ھَبْ لِیْ اُمَّتِی یعنی ربِّ کریم! میری اُمَّت کو بخش دے۔(فتاویٰ رضویہ،۳۰/۷۱۲ملخصاً)
اِمام زُرقانی رَحْمَۃُ اللہ عَلَیْہنَقْل فرماتے ہیں:رسولِ کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَاُنگلیوں کو اِس طرح اُٹھائے ہوئے تھے جیسےکو ئی گِرْیَہ و زاری کرنے والا اُٹھاتاہے۔(زرقانی علی المواہب،ذکرتزویج عبداللہ آمنۃ،۱/ ۲۱۱)
رَحمتِ عالَم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ سَفرِمِعراج پر روانگی کے وَقْت اُمَّت کے گنہگاروں کو یاد فرما کر آبدیدہ ہوگئے،اللہ پاک کے دیدار اور خُصوصی نوازشات کے وَقْت بھی گنہگارانِ اُمَّت کو یاد فرمایا۔ (بخاری، کتاب التوحید،باب قولہ تعالٰی وکلم اللہ موسٰی تکلیمًا،۴/ ۵۸۱، حدیث:۷۵۱۷ مفہوماً)عُمر بھر (وقتافوقتا) گنہگارانِ اُمَّت کیلئےغمگین رہے۔(مسلم،باب دعاء النبی لامتہ وبُکائہ شفقۃ علیہم، ص۱۰۹، حدیث:۳۴۶ مفہومًا )جب قَبر شریف میں اُتارا گیا تو ہونٹ مبارَک ہل رہے تھے،بعض صحابَۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوان نے کان لگا کرسُنا،آہستہ آہستہ اُمَّتِیْ اُمَّتِی(میری اُمَّت، میری اُمَّت)فرماتے تھے۔ قِیامت میں بھی اِ نہی کے دامن میں پناہ ملے گی، تمام اَنبیائے کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام ’’نَفْسِی نَفْسِی اِذْھَبُـوْا اِلٰی غَیْرِی‘‘(آج مجھے اپنی فکر ہے کسی اور کے پاس چلے جاؤ )کہیں گے اورنبیِّ مہربان صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے لبوں پر ’’یَارَبِّ اُمَّتِیْ اُمَّتِیْ‘‘(اے رَبّ کریم !میری اُمَّت کو بخش دے)جاری ہوگا۔ (مسلم،باب ادنی اہل الجنَّۃ منزلۃ فیہا، ص۱۰۵ ، حدیث:۳۲۶ )لہٰذا جب نبیِّ پاک صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے نہ صرف ساری زندگی اپنی گنہگار اُمَّت کویاد رکھا بلکہ قیامت میں بھی ہماری شفاعت فرمائیں گے۔اب مَحَبَّت اور عَقیدت کا بھی یہی تقاضا ہے کہ ہم بھی اُمَّتی