Book Name:Bilal e Habshi Ki 6 Hikayat
سے نڈھال ہو گئے تھے ، حضرت بِلال رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ کو بھی وِصَالِ مصطفےٰ کا بہت صدمہ ہوا۔
حضرت بِلال رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ تو یُوں بھی مُؤذِّنِ رسول ہیں ، مؤذِّن اور امام کا آپس میں جُدا قسم کا ہی تعلق ہوتا ہے ، حضرت بِلال رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ رسولِ اکرم ، نورِ مجسم صَلَی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خِدْمت میں رہا کرتے تھے ، اب جب محبوب آقا ، پیارے مصطفےٰ صَلَی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے دُنیا سے ظاہری پردہ فرمایا ، حضرت بِلال رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ کے لئے جینا محال ہو گیا ، وہ گلیاں جہاں حُضور صَلَی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم چلا کرتے ، اُن گلیوں سے گزرتے ہوئے حضرت بِلال رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ کا کلیجہ منہ کو آتا ہے ، جب حُضُور صَلَی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم مسکراتے تو مدینۂ پاک کے در و دِیوار پر نُوْر کی شُعَائیں پڑا کرتی تھیں ، اب ان دیواروں کو دیکھ دیکھ کر حضرت بِلال رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ کو محبوب آقا صَلَی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی یاد ستاتی ہے۔
گلیاں سُنْجِیَاں دِسَّن مینوں ، وَیْڑا کھاوَن آوے غُلام فریدا ! اوتھے کی وَسْنا جتھے ماہِی نظر نہ آوے
وضاحت : گلیاں سُونی سُونی دکھائی دیتی ہیں ، گھر کھانے کو آتا ہے یعنی گھر میں بھی دِل نہیں لگتا ، اے غُلام فرید ! وہاں کیا جینا جہاں محبوب ہی نظر نہ آئے۔
اب مدینۂ پاک کی ان گلیوں میں زِندگی گزارنا دُشوار تھا ، چنانچہ حضرت بِلال رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ مُلْکِ شام تشریف لے گئے مگر آہ ! حُضُور اقدس صَلَی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم تو یہاں بھی نہیں ہیں ، دیدارِ حبیب کے جام تو یہاں بھی نہیں ملتے ، یادِ مصطفےٰ تو یہاں بھی تڑپاتی ہے۔
حضرت بِلال رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ ملکِ شام میں ہیں ، یادِ مصطفےٰ یہاں بھی تڑپاتی ہے ، ہجر و فراق سے سینہ یہاں بھی جَلْ رہا ہے۔ اللہ ! اللہ ! دِن کیسے گزرتے ہوں گے ، راتیں کیسے بَسَر ہوتی ہوں گی...؟