Book Name:Data Huzoor Ki Nasihatain

دئیے ہیں : (1) : اے ایمان والو!اللہ پاک سے ڈرو (2) : اے ایمان والو! سچوں کے ساتھ رہو۔ مشہور مُفَسِّرِ قرآن ، حکیم الاُمَّت مفتی احمد یار خان نعیمی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِ نے اس آیتِ کریمہ کی جو تفسیر بیان فرمائی ، اس کے مطابق اس آیت میں صَادِقِیْن (یعنی سچوں) سے  3 قسم کے لوگ مراد ہیں : (1) : صحابۂ کرام (2) : عاشقانِ رسول عُلَما اور (3) : اولیائے کرام۔ اب آیت کا معنی یُوں بنے گا : اے ایمان والو! صحابہ کے ساتھ رہو ، اے ایمان والو! عُلَما کے ساتھ رہو ، اے ایمان والو! اولیاءُ اللہ کے ساتھ رہو۔

پھراس مقام پر ایک اَور بات سمجھنے کی ہے ، وہ یہ کہ ساتھ رہنے سے کیا مراد ہے؟ عُمُوماً کسی کے ساتھ رہنے کے 2 مطلب ہوتے ہیں : (1) : جسمانی طَور پر ساتھ رہنا (2) : دِلی طَور پر ساتھ رہنا۔ یقیناً جسمانی طَور پر صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان کا قرب حاصِل ہو ، عاشقانِ رسول عُلَمائے کرام کی صحبت نصیب ہو جائے ، اولیائے کرام کی صحبت نصیب ہو جائے تو بےشک یہ بہت سعادت کی بات ہے مگر آیتِ کریمہ میں صِرْف جسمانی طَور پر ساتھ رہنا مراد نہیں بلکہ اس سے مراد ہے : دِلی طَور پر صحابۂ کرام ، عُلَما اور اولیائے کرام کے ساتھ رہنا۔ مقصد یہ ہے کہ اے ایمان والو! صحابہ سے ، عُلَما سے ، اولیا سے دِلی محبت رکھو ، جو عقیدے ان کے ہیں ، وہ عقیدے اپناؤ ، ان کے جو نظریات ہیں ، وہ نظریات اپناؤ ، ان کی تعلیمات پر عمل کرو ، ان جیسے اَخْلاق اپناؤ ، ان جیسا کردار بناؤ ، ان کی سیرت سے روشنی حاصِل کرو ، ظاہِر میں ، باطِن میں ہر اعتبار سے ان سے محبت کرو ، یہ پاکیزہ حضرات جس رستے کے مُسَافِر ہیں ، تم بھی اس رستے کے مُسَافِر بنو اور جس انداز سے انہوں نے زندگی