Book Name:Data Huzoor Ki Nasihatain

کانوں میں بس آواز پڑ جاتی ہے اور ہم مُفْت میں مُفتی بَن کر جواب شُروع کر دیتے ہیں۔ * سُوال پوچھنے والے کا مقصد کیا ہے؟ * سُوال کا دُرست مطلب کیا ہے؟ * قرآنِ کریم میں اُس سُوال کے بارے میں کیا اَحْکام ہیں؟ * اَحادیث میں اس بارے میں کیا ارشاد ہوا؟ * عُلَمائے کرام نے اس بارے میں کیا فرمایا؟ * پھر میں اگر جواب دینے ہی لگا ہوں تو میرے دِل کی حالت کیا ہے؟ * کہیں یہ جواب دینے میں نَفْس کی خواہش تو شامِل نہیں؟ * جواب دینے میں میری نیت رِضائے اِلٰہی کی ہے یا نہیں؟ * کہیں میں رِیاکاری کا شکار تو نہیں ہو رہا؟ * کہیں میں خُود پسندی کا شِکار تو نہیں ہو رہا؟  یُوں صِرْف ایک سُوال کا جواب دینے میں ہزار پہلو ہیں ، جن کے متعلق غورکرنا ضروری ہوتا ہے لیکن لوگ احتیاط نہیں کرتے۔ سوشل میڈیا پر تبصرے کر رہے ہوتے ہیں ، اَنْ پڑھ لوگ قرآن و حدیث کی غلط سلط وضاحتیں کر رہے ہوتے ہیں ، قرآنِ کریم اُوپر سے دیکھ کر دُرُست پڑھنا نہیں آتا اور دِینی موضُوعات پر مُنَاظَرے ہو رہے ہوتے ہیں۔ وہ لوگ جو ایسی بےباکی کا شِکار ہیں ، انہیں ڈر جانا چاہئے۔ حدیثِ پاک میں ہے : جو بغیر عِلْم کے فتویٰ (یعنی دِینی سُوالوں کے جواب) دیتا ہے ، اس پر زمین و آسمان کے فرشتے لعنت بھیجتے ہیں۔ ([1])

میں بےکار باتوں سے بچ کر ہمیشہ         کروں تیری حمد و ثنا یااِلٰہی

ترے خوف سے تیرے ڈر سے ہمیشہ     میں تھر تھر رَہوں کانپتا یااِلٰہی


 

 



[1]...جامِع صَغیر ، صفحہ : 517 ، حدیث : 8491۔