Book Name:Khof-e-Khuda Hasil Karnay Kay Tariqay

وضاحت : یعنی زِندگی کے اسباب مثلاً کھانے پینے وغیرہ کی فِکْر! قبر کی تنگی اور قیامت کی ہولناکیوں کا خوف! ایسی لاکھوں بلاؤں میں پھنسنے کے لئے رُوح بدن میں آئی ہی کیوں تھی...؟

حقیقی سَعَادت مند کون...؟

پیارے اسلامی بھائیو! دُنیا میں جیتے جی مؤمن ہونا یقیناً سَعَادت کی بات ہے مگر یہ سَعَادت حقیقت میں اُسی صُورت میں سَعَادت ہے کہ دُنیا سے رُخصت ہوتے وقت ایمان سلامت رہے۔ خُدا کی قسم! قابِلِ رشک وہی ہے جو قبر کے اندر بھی مؤمن ہے۔ جی ہاں! جو دُنیا سے ایمان سلامت لے جانے میں کامیاب ہوا وُہی حقیقی معنوں میں کامیاب اور جو جنّت کو پا لے وہی بامُراد ہے۔ پارہ : 4 ، سورۂ آلِ عمران ، آیت : 185 میں ارشاد ہوتا ہے :

فَمَنْ زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ وَ اُدْخِلَ الْجَنَّةَ فَقَدْ فَازَؕ-          

ترجمہ : تَو جسے آگ سے بچا لیا گیا اور جنّت میں داخِل کر دیا گیا تو وہ کامیاب ہو گیا۔

میرا نازُک بدن جہنَّم سے                   از طفیلِ رضا بچا یارَبّ!

کر دے جنّت میں تُو جَوار اُن کا عطا         اپنے   عطارؔ   کو   عطا   یارَبّ!([1])

بَس! اللہ پاک ہمارے حالِ زار پر کرم فرمائے ، نزع کے وقت نہ جانے ہمارا کیا بنے گا۔ آہ! ہم نے بہت گُنَاہ کر رکھے ہیں ، نیکیاں نام کو نہیں ہیں ، ہم دُعا کرتے ہیں : اے اللہ پاک! نَزع کے وقت ہمارے پاس شیطان نہ آئے بلکہ ہمارے آقا ، رحمتِ عالَم صَلّی اللہُ عَلَیْہِ وَآلِہٖ وَسَلَّم  کرم فرمائیں ، اپنا جلوہ دکھائیں ، کاش! مدینۂ پاک میں ، گنبدِ خضراء کے سائے میں ، سنہری جالیوں کے سامنے جلوۂ مصطفےٰ صَلّی اللہُ عَلَیْہِ وَآلِہٖ وَسَلَّم میں اِیْمان پر موت نصیب ہو۔  


 

 



[1]...وسائِلِ بخشش ، صفحہ : 80-81۔