Book Name:Hazrat Ibraheem Aur Namrood

نے اپنی اُسی دلیل کو ایک دوسرے انداز سے بیان کیا ، ارشاد فرمایا :  

فَاِنَّ اللّٰهَ یَاْتِیْ بِالشَّمْسِ مِنَ الْمَشْرِقِ فَاْتِ بِهَا مِنَ الْمَغْرِبِ (پارہ3 ، سورۃالبقرۃ : 258)                      

ترجمہ کنزُ العِرفان : اللہ سورج کو مشرق سے لاتا ہے پس تو اسے مغرب سے لے آ۔

یعنی اے نمرود! بےجان جِسْم میں جان پیدا کرنا تو تیرے بَس کی بات نہیں ہے ، اے رَبّ ہونے کے جھوٹے دعوےدار!  تُو اس سے آسان کام ہی کر کے دکھا دے ، وہ یہ کہ سُورج ایک بےجان جسم ہے ، یہ مسلسل حرکت کر رہا ہے ، چلو..! اس کی حرکت کو روکنا بھی مشکل سہی ، تُو بَس اتنا کر کہ سُورج مَشْرِق سے مَغْرِب کی طرف جاتا ہے ، تُو اس کی سَمْت بدل دے اور سُورج کو مَغْرِب سے مَشْرِق کی طرف چلا کر دکھا دے۔

بَس یہ سننا تھا کہ نمرود کے ہوش اُڑ گئے اور وہ ہَکَّا بَکَّا رِہ گیا۔ اس نادان اور بدبخت سے اَوْر تو کچھ نہ بَن سکا ، ہٹ دھرمی کرتے ہوئے بولا : ابراہیم! جاؤ...!! میرے پاس تمہارے لئے غَلَّہ نہیں ہے ، اُس ربّ سے مانگو جس کی عبادت کرتے ہو۔ یہ سُن کر حضرت ابراہیم عَلَیْہِ السَّلَام خالی ہاتھ واپس ہوئے ، راستے میں ایک ریت کے ٹیلے کے قریب سے گزر ہوا ، وہاں سے آپ عَلَیْہِ السَّلَام نے ایک تھیلے میں ریت بھر لی اور گھر پہنچے ، ریت سے بھرا ہوا تھیلا رکھا اور خود آرام فرمانے لگے۔ جب آپ عَلَیْہِ السَّلَام بیدار ہوئے تو آپ کی زوجہ محترمہ حضرت سارہ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا نے کھانا پیش کیا ، حضرت ابراہیم عَلَیْہِ السَّلَام نے پوچھا : یہ اَناج کہاں سے آیا؟ عرض کیا : وہی ہے جو آپ تھیلے میں بھر کر لائے ہیں۔ یہ سُن کر حضرت ابراہیم عَلَیْہِ السَّلَام سمجھ گئے کہ اللہ پاک نے اپنے خزانۂ قُدْرت سے ہمیں رِزْق عطا فرمایا ہے۔

 اے عاشقانِ رسول !ظالِم و سرکش بادشاہ نمرود کا انجام انتہائی عبرتناک ہوا ، تفسیر