Book Name:27 Nimazun Ka Sawab

خدمت کے لئے حاضِر تھے ، صَدْرُ الشَّرِیْعہ رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ کو جب ہوش آیا تو سب سے پہلے یہی پوچھا : کیا وقت ہے؟ ظہر کا وقت ہے یا نہیں؟ حافِظ ملَّت رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ  نےوقت بتایا اور عرض کیا : اب ظہر کا وقت نہیں ہے۔ یہ سُن کر صَدْرُ الشَّرِیْعہ رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ کو اتنی تکلیف پہنچی کہ آنکھ سے آنسو جاری ہو گئے۔    حافِظِ مِلَّت رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ نے عرض کیا : حُضُور...!! کیا کہیں دَرد ہے؟ کہیں تکلیف ہو  رہی ہے؟ فرمایا : (بہت بڑی) تکلیف ہے اوروہ یہ کہ “ ظہر قضاء ہو گئی “   حافِظِ مِلَّت رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ نے عرض کیا : حُضُور! آپ بےہَوش تھے ، بے ہوشِی کے عالَم میں نماز قضا ہونے پر کوئی مؤاخذہ (یعنی قیامت میں پوچھ گچھ) نہیں۔ اپنے شاگرد کا یہ تسلی آمیز جملہ سُن کر صَدْرُ الشَّرِیْعہ رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ نے جو جواب ارشاد فرمایا ، دِل کے کانوں سے سُننے کے لائق ہے ، چنانچہ جب حافِظِ مِلَّت رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ نے عرض کیا کہ اس نماز کے قضا ہونے پر تو کوئی گُنَاہ نہیں ہے ، اس پر فرمایا : آپ مؤاخذہ کی بات کر رہے ہیں؟ (یعنی آپ یہ کہتے ہیں کہ روزِ قیامت پکڑ نہیں ہو گی ، ہاں! یہ تَو درست ہے ، بےہوشی کی حالت میں نماز قضا ہونے پر گُنَاہ نہیں مگر آہ...!!) میں مقررہ وقت پر دربارِ الٰہی میں ایک حاضِری سے مَحْرُوم رہا...!! ([1]) 

صَلُّوْا عَلَی الْحَبیب!                                                                  صَلَّی اللّٰہُ عَلٰی مُحَمَّد

پیارے اسلامی بھائیو!  صَدْرُ الشَّرِیْعہ رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ اس پر بہت سختی سے پابند تھے کہ مسجد میں حاضِر ہو کر باجماعت نماز پڑھیں بلکہ اگر کسی وجہ سے مؤذِّن صاحب وقتِ مقررہ پر نہ پہنچتے تو صَدْرُ الشَّریعہ رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ اذان بھی خود دے لیا کرتے تھے۔ بُڑھاپے (یعنی Old Age) میں صَدْرُ الشَّرِیْعہ رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ نئے مکان یعنی قادری منزل میں رہائش پذیر تھے ، یہاں سے مسجد ذرا فاصلے پر تھی ، اس وقت صَدْرُ الشَّریعہ رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ کی بینائی کمزور ہو چکی


 

 



[1]...تَذْکَرۂ صَدْرُ الشَّریْعَہ ، صفحہ : 30۔