Book Name:Taqat-e-Mustafa

وَالسَّلَام  کو کیسی جسمانی طاقت عطا فرمائی تھی۔ یاد رکھئے! شہنشاہِ مدینہ، قرارِ قلب و سینہ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ نےکبھی بھی پیٹ بھر کے کھانا تناول نہیں فرمایا اور نہ ہی آپ پہلوانی کی طرف متوجہ ہوئے ، اس کے باوجود اس قدر طاقت و توانائی کا آپ سے ظاہر ہونا یہ آپ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا معجزہ بھی ہے اور آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے قلبِ اطہر کی طاقت و قوت تو قرآنِ پاک سے بھی ظاہر ہے۔ پارہ 28 سُوْرَۃُا لْحَشْر آیت نمبر 21 میں ارشاد ہوتا ہے:

لَوْ اَنْزَلْنَا هٰذَا الْقُرْاٰنَ عَلٰى جَبَلٍ لَّرَاَیْتَهٗ خَاشِعًا مُّتَصَدِّعًا مِّنْ خَشْیَةِ اللّٰهِؕ- (پ۲۸، الحشر :۲۱)                                  

تَرْجَمَۂ کنزالایمان:اگر ہم یہ قرآن کسی پہاڑ پر اُتارتے تو ضرور تو اُسے دیکھتا جھکا ہوا پاش پاش ہوتا اللّٰہ کے خوف سے۔

تفسیر صِرَاطُ الْجِنان میں اس آیتِ مبارکہ کے تحت لکھا ہے :یعنی قرآنِ مجید کی عظمت و شان ایسی ہے کہ اگر ہم اسے کسی پہاڑ پر اُتارتے اور اُس کو انسان کی سی تمیز عطا کرتے تو انتہائی سخت اور مضبوط ہونے کے باوجود تم اسے ضرورجھکا ہوا اور اللّٰہ پاک کے خوف سے پاش پاش دیکھتے۔ ( مدارک، الحشر، تحت الآیۃ: ۲۱، ص۱۲۲۸، خازن، الحشر، تحت الآیۃ: ۲۱، ۴/۲۵۳، ملتقطاً)

اس آیت سے اشارۃً معلوم ہوا کہ حضورِ انور صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کا قلب شریف پہاڑسے زیادہ قو ی اور مضبوط ہے کیونکہ آپ کو اللّٰہ پاک کا خوف اور اَسرارِ الٰہی سے واقفیت کامل طریقے سے حاصل ہونے کے باوجود آپ اپنے مقام پر قائم ہیں ۔

یاد رہے کہ یہاں  آیت میں  قرآن سے مراد اللّٰہ پاک کا کلام ہے اور اُتارنے سے مراد اس کلام کو اس کی عظمت کے ظہور کے ساتھ اُتارنا مراد ہے یعنی اگر ہم قرآنِ مجید کو اس کی عظمت ظاہر کرتے ہوئے پہاڑ پر اُتار دیتے تو وہ ا س کی تاب نہ لاتا اور پھٹ جاتا۔ (صراط الجنان،پ ۲۸،الحشر،تحت الآیۃ :۲۱،۱۰/۹۳ ملخصاً)