Book Name:Tabarukat Ki Barakaat

جان لوں گا کہ یہ ولی ہیں ۔آپ رَحْمَۃُ اللہِ  عَلَیْہ نے وہی سیب اُٹھا کر فرمایا : ہم مصر گئے تھے، وہاں ایک جگہ پربہت سےلوگ جمع تھے،دیکھا کہ ایک شخص کے پاس ایک گدھا ہے اور اس  گدھے کی آنکھوں پر پٹی بندھی ہے ۔ ایک شخص کی ایک چیز دوسرے کے پاس رکھ دی جاتی ہے ۔ اس گدھے سے پوچھا جاتا ہے ، گدھا ساری مَجْلِس کا دورہ کرتا ہے ، جس کے پاس ہوتی ہے ، جاکر سر ٹیک دیتا ہے ۔  پھر وہ اللہ پاک کے ولی فرمانے لگے:یہ حِکایت ہم نے اس لئے بیان کی کہ اگر یہ سیب نہ دیں تو ہم ولی ہی نہیں  اور اگر دیں گے تو اس گدھے سے بڑھ کر کیا کمال دِکھایا۔یہ فرما کر سیب بادشاہ کی طرف پھینک دِیا ۔(بدگمانی،ص۳۵)

پیارے پیارےاسلامی بھائیو! غور کیجئے!اس حکایت میں ہمارے لیے بھی سیکھنے کو بہت کچھ ہے کہ  ہمیشہ دوسروں کے بارے میں اچھے گمان سے کام لینا چاہیے، اگر کوئی اللہ پاک کا نیک بندہ ولی مشہور ہو تب بھی اس کا امتحان لینے سے بچنا چاہیے اور ہمیشہ اچھا گمان رکھنا چاہیے۔

اسی طرح تَبَرُّکات کے معاملے میں شک نہیں کرنا چاہیے،البتہ یہ یاد رہے!ولی شریعت کاپابند ہوتا ہے۔اگر لمبی لمبی لِٹّوں والا،بہت سی انگوٹھیا ں پہننے والا،بے نمازی شخص ہمیں کسی مزار کے باہر مل جائے تو وہ ولی کیسے ہو سکتا ہے؟ یہ بھی یادرہے!ولی”عالِم“ہوتا ہے۔ آپ داتا صاحب، خواجہ صاحب، غوثِ پاک(رَحْمَۃُ اللّٰہ ِ  عَلَیْہِمْ اَجْمَعِیْن)بلکہ کسی بھی مشہور بزرگ کے واقعات پڑھیں گے تو آپ کو سب کی سیرت میں  یہی ملے گا کہ ان  کی زندگی کا ابتدائی حصہ عِلْمِ دین  حاصل کرنے میں گزرا۔

یاد رکھئے!اچھا گمان رکھنے میں فائدے ہی فائدے ہیں،جبکہ بدگمانی میں نقصانات ہی نقصانات ہیں۔افسوس!آج کے دور میں ہماری ایک تعداد ہے جو اچھا گمان رکھنے کی بجائے بدگمانی کی طرف زیادہ مائل ہوتی ہے۔بات بات پر بدگمانی کے نظارے عام ہیں۔کسی کو فون کریں اور وہ ریسیوReceiveنہ کرے تو بدگُمانی ، بیٹے کی توجہ ماں سے کم ہو جائے تو فوراً بہو سے بدگُمانی، کسی اچھی نوکری سے فارغ ہوگئے