Book Name:Faizan e Sahaba O Ahle Bait

(2)حضرت امامِ حسن رَضِیَ اللہُ عَنْہ فرماتے ہیں : ایک بار اَمِیْرُالمؤمنین حضرت   عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللہُ عَنْہ نے مجھ سے فرمایا : اے میرے بیٹے!میری تمناہے کہ آپ ہمارے پاس آیا کریں۔ لہٰذا میں ایک دن آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ کے گھر گیا ، مگر آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ حضرت امیرِمعاویہ رَضِیَ اللہُ عَنْہُکےساتھ علیحدگی میں مصروفِ گفتگو تھے اور آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ کے بیٹے حضرت  عبدُاللہ بن عمررَضِیَ اللہُ عَنْہُما  دروازے پر کھڑے  انتظار کر رہے تھے۔ کچھ دیر انتظارکے بعد جب وہ واپس جانے لگے تو میں بھی لوٹ آیا۔ بعد میں امیرُ المؤمنین حضرت  عمر فاروقِ اعظمرَضِیَ اللہُ عَنْہُ سے میری ملاقات ہوئی تو آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ نے فرمایا : ’’لَمْ اَرَكَ یعنی آپ ہمارے پاس دوبارہ آئے ہی نہیں؟ “ میں نے عرض کی : ’’یا امیرَالمؤمنین!میں تو آیا تھا مگر آپ حضرت امیرِمعاویہ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ کے ساتھ مصروفِ گفتگو تھے۔ آپ کے بیٹے عبداللہ بن عمررَضِیَ اللہُ عَنْہُما بھی باہر کھڑے انتظار کر رہے تھے(میں نے سوچا کہ جب بیٹے کو اندر جانے کی اجازت نہیں ہے تو مجھے کیسے ہوسکتی ہے؟)لہٰذا میں ان کے ساتھ ہی واپس چلا گیا۔ ‘‘آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہُنے فرمایا : “ اَنْتَ اَحَقُّ بِالْاِذْنِ مِنْ عَبْدِ اللہِ ابْنِ عُمَرَ اِنَّمَا اَنْبَتَ ماتَریٰ  فِيْ رُؤُوْسِنَااللہُ ثُمَّ اَنْتُم یعنی آپ میری اولاد سے زیادہ اس بات کےحق دار ہیں کہ اندر آجائیں۔ ہمارے سروں پر یہ جو بال ہیںاللہ پاک کے بعد تم نے ہی تو اُگائے ہیں۔ ‘‘

(تاریخ ابن عساکر  ، رقم ۱۵۶۶ ،  الحسین بن علی بن ابی طالب۔ ۔ ۔ الخ۱۴ / ۱۷۶)

صَلُّو ْا عَلَی الْحَبِیْب!                                  صَلَّی اللہُ عَلٰی مُحَمَّد

تذکرۂ امام حسین

پیاری پیاری اسلامی بہنو! 10مُحَرَّمُ الْحَرَام وہ دن ہے جس میں نواسۂ رسول حضرت  امامِ عالی مقام ، امام حسین رَضِیَ اللہُ عَنْہ کو ان کے ساتھیوں سمیت کربلا کے تپتے ریگستان میں شہید کیا