Book Name:Faizan e Sahaba O Ahle Bait

تھے۔ وہاں سے واپسی پر حضرت امام حسین رَضِیَ اللہُ عَنْہُ کو تھکاوٹ(Tiredness) محسوس ہوئی تو ایک جگہ آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ آرام کرنے کے لئے کچھ دیر بیٹھ گئے۔ حضرت  ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ اپنی چادر سے حضرت  امام حسین رَضِیَ اللہُ عَنْہُ کے پاؤں سے دھول مٹی صاف کرنے لگے تو حضرت امام حسین رَضِیَ اللہُ عَنْہُ  نے انہیں منع فرمایا۔ اس پرحضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ نے عرض کی : فَوَاللّٰهِ لَوْ يَعْلَمُ النَّاسُ مِنْكَ مَا اَعْلَمُ لَحَمَلُوْكَ عَلَى رِقَابِهِمْ یعنی اللہ پاک کی قسم!آپ کی جو عظمت میں جانتا ہوں اگر  لوگوں کو پتہ چل  جائے تو وہ  آپ  رَضِیَ اللہُ عَنْہُ کو اپنے کندھوں پر اُٹھا لیں ۔  (تاریخ ابن عساکر  ، رقم ۱۵۶۶ ،  الحسین بن علی بن ابی طالب۔ ۔ ۔ الخ ۱۴  / ۱۷۹ملخصاً)

(2)حضرت امامِ حسن رَضِیَ اللہُ عَنْہ فرماتے ہیں : ایک بار اَمِیْرُالمؤمنین حضرت   عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللہُ عَنْہ نے مجھ سے فرمایا : اے میرے بیٹے!میری تمناہے کہ آپ ہمارے پاس آیا کریں۔ لہٰذا میں ایک دن آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ کے گھر گیا ، مگر آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ حضرت امیرِمعاویہ رَضِیَ اللہُ عَنْہُکےساتھ علیحدگی میں مصروفِ گفتگو تھے اور آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ کے بیٹے حضرت  عبدُاللہ بن عمررَضِیَ اللہُ عَنْہُما  دروازے پر کھڑے  انتظار کر رہے تھے۔ کچھ دیر انتظارکے بعد جب وہ واپس جانے لگے تو میں بھی لوٹ آیا۔ بعد میں امیرُ المؤمنین حضرت  عمر فاروقِ اعظمرَضِیَ اللہُ عَنْہُ سے میری ملاقات ہوئی تو آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ نے فرمایا : ’’لَمْ اَرَكَ یعنی آپ ہمارے پاس دوبارہ آئے ہی نہیں؟ “ میں نے عرض کی : ’’یا امیرَالمؤمنین!میں تو آیا تھا مگر آپ حضرت امیرِمعاویہ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ کے ساتھ مصروفِ گفتگو تھے۔ آپ کے بیٹے عبداللہ بن عمررَضِیَ اللہُ عَنْہُما بھی باہر کھڑے انتظار کر رہے تھے(میں نے سوچا کہ جب بیٹے کو اندر جانے کی اجازت نہیں ہے تو مجھے کیسے ہوسکتی ہے؟)لہٰذا میں ان کے ساتھ ہی واپس چلا گیا۔ ‘‘آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہُنے فرمایا : “ اَنْتَ اَحَقُّ بِالْاِذْنِ مِنْ عَبْدِ اللہِ