Book Name:Shan-e-Farooq-e-Azam

ہاتھ سے اس کی خدمت کرے۔(مرآۃ المناجیح،۶/۵۲) (2)ارشاد فرمایا:جب کوئی مہمان کسی کے یہاں آتا ہے تو اپنا رِزق لے کر آتا ہے اور جب اس کے یہاں سے جاتا ہے تو صاحِبِ خانہ کے گناہ بخشے جانے کا سبب ہوتا ہے۔(کَنْزُ الْعُمّال،۹/۱۰۷، حدیث:۲۵۸۳۱) ٭جب آپ کسی کے پاس بطورِ مہمان جائیں تو مُناسب ہے کہ اچّھی اچھّی نیّتوں کے ساتھ حسبِ حیثیت میزبان یا  اُس کے بچّوں کے لئے تحفے لیتے جائیے۔ ٭صَدرُ الشَّریعہ، بَدرُالطَّریقہ  حضرتِ علّامہ مولانا مفتی محمد امجد علی اعظمی رَحْمَۃُ اللّٰہ ِ عَلَیْہ فرماتے ہیں:مہمان کو چار باتیں ضَروری ہیں:(۱)جہاں بٹھایا جائے وہیں بیٹھے(۲)جو کچھ اس کے سامنے پیش کیا جائے اس پر خوش ہو، (۳)بِغیر اجازتِ صاحِبِ خانہ(یعنی میزبان سے اجازت لئے بِغیر)وہاں سے نہ اُٹھے اور(۴)جب وہاں سے جائے تو اس کے لئے دُعا کرے۔ (عالمگیری، ۵/۳۴۴)٭گھر یا کھانے وغیرہ کے مُعامَلات میں کسی قسم کی تنقیدکرے نہ ہی جھوٹی تعریف۔میزبان بھی مہمان کو جھوٹ کے خطرے میں ڈالنے والے سُوالات نہ کرے مَثَلاً کہنا ہمارا کھانا کیسا تھا؟آپ کو پسند آیا یا نہیں؟ایسے موقع  پر اگر نہ پسند ہونے کے باوُجُود مِہمان مُرَوَّت میں کھانے کی جھوٹی تعریف کرے تو گناہ  ہوگا،  اِس طرح  کا سُوال بھی نہ کرے کہ’’آپ نے پیٹ بھر کر کھایا یا نہیں؟‘‘ کہ یہاں بھی جواباً جھوٹ کا اندیشہ ہے کہ عادتِ کم خوری یا پرہیزی یا کسی بھی مجبوری کے تحت کم کھانے کے باوُجُود  اصرار و تکرار سے بچنے کیلئے مِہمان کو کہنا پڑجائے کہ’’ میں نے خوب ڈٹ کر کھایا ہے۔ میزبان کو چاہئے کہ مہمان سے وقتاً فوقتاً کہے کہ’’اور کھاؤ ‘‘مگر اس پر اِصرار نہ کرے، کہ کہیں اِصرار کی وجہ سے زیادہ نہ کھا جائے اور یہ اس کے لئے نقصان دہ ہو۔ (عالمگیری،  ۵/۳۴۴)

صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب!                                             صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

طرح طرح کی ہزاروں سُنّتیں سیکھنےکےلئےمکتبۃُ المدینہ کی دو کُتُب،بہارِ شریعت حصّہ   16(312صفحات)