Book Name:Naikiyon Ki Hirs Kaisy Paida Ki Jay

اس نے معذرت کرلی کہ میں اسی حال میں خوش ہوں۔(تاریخ مدینہ دمشق،ذکر من اسمہ ذو القرنین،۱۷/ ۳۵۳تا۳۵۵ ، ملخصاً)

صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب!                                   صَلَّی اللّٰہُ عَلٰی مُحَمَّد

                             اے عاشقانِ اولیاء!آپ نے سنا کہاللہ پاک کے ایسے نیک بندے بھی  ہوتے ہیں  جنہیں  دنیاوی  چیزوں کی کوئی فکرنہیں  ہوتی،جوسادہ غذاؤں سے  پیٹ بھر لیتے ہیں،جو نیک اعمال  کرنے میں مشغول  رہتے ہیں  اور جو دنیاوی   عزّت و منصب   کی طرف رغبت نہیں  رکھتے ۔ لیکن جو لوگ   بُرے  کاموں  کا لالچ رکھتے ہیں اور  اسی کی تلاش میں مشغول رہتے ہوئے طرح طرح کی  خواہشات   پال لیتے  ہیں وہ انہی خواہشات میں مُبْتَلا  ہو کر اپنی زندگی کے قیمتی لمحاتاللہپاک  کی نافرمانی  اور گناہوں  میں  برباد کرتے چلے جاتے ہیں اور ان کی خواہشات کا پیالہ کبھی بھی نہیں  بھرتا ، جیساکہ   

خواہشات کا پیالہ

       ایک بادشاہ بڑی شان وشوکت والاتھا۔اُسےاپنی عظیمُ الشّان حکومت،سونا اُگلتی زمینوں،سونے اور جواہرات کےخزانوں پر بڑا ناز تھا۔سالوں کی محنت سے اُس نے اپنے اِقتدار کو اِس قدر مضبوط کر لیا تھا کہ اب اُسے کسی دشمن کاخطرہ نہیں تھا۔ایک روز وہ اپنے دارُالحکومت میں دَورے کے لیے نکلا ۔وزیر اور کچھ درباریوں کے علاوہ سیکورٹی گارڈزبھی ساتھ تھے۔بادشاہ کو شہر کا چکر لگانا بڑا پسندتھا۔ شان و شوکت کےمظاہرے کےساتھ ساتھ کچھ غریبوں کی امداد کرنے کاموقع بھی مل جاتا۔واپسی پرمحل کےقریب اُسےایک فقیر نظر آیا جو پُرانے کپڑے پہنے ایک طرف بڑی بے پروائی سے بیٹھا تھا۔بادشاہ نے نَرم لہجے میں پوچھا:اپنی کوئی ضرورت بتاؤ،تاکہ میں اسے پورا کرسکوں۔فقیر کی ہنسی نکل گئی۔بادشاہ نےذراسختی سےپوچھا:اس میں ہنسنےوالی کیابات ہے؟اپنی خواہش بتاؤ،میں تمہیں