Book Name:Allah Ki Rahmat Boht Bari Hay
مطلب ہرگز نہیں کہ ہم رب کی رحمت سے امید لگاتے ہوئے اپنے آپ کو جنتی سمجھنے لگیں۔ ٭ رحمتِ الٰہی کی وُسْعَت کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ہم رب کی رحمت سے امید لگاتے ہوئے خود کو جہنم سے آزاد سمجھیں۔ یاد رکھئے!اللہپاک کی رحمت سے بخشش ومغفرت کی اُمید (Hope)ضرور ہونی چاہیے، مگر ساتھ ہی نیک اعمال بھی کرنے چاہئیں۔اللہ پاک کی رحمت سے مُتَعَلِّق لوگوں میں ایک غلط فہمی پائی جاتی ہے کہ عُموماً گناہ گار و بےعمل لوگ اللہ پاک کی رحمت کو دلیل بنا کراپنی گرفت کے بارے میں بے فکر ہوجاتے ہیں اور اس طرح کی باتیں بناتے ہیں کہ ’’ہمیں کامل یقین ہے کہ اللہ پاک ہمیں عذاب نہ دے گا، اس کی رحمت بہت وسیع ہے ، ہم اگر تھوڑے بہت گناہ کر بھی لیں تو اس کی رحمت کے خزانوں میں کمی تھوڑی ہوجائے گی؟ وہ بڑا کریم ہے معاف کر دے گا۔ ہم تو بخشے بخشائے ہیں وغیرہ وغیرہ،یاد رکھئے! ایسے خیالات رکھنے والوں کی حدیثِ پاک میں مذمت کی گئی ہے ۔
چنانچہ رحمتوں کے تاج والے آقا، عرش کی معراج والے مصطفےٰ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشادفرمایا:عقلمند وہ ہے جو اپنے نفس کو اپنا تابعدار بنا لے اور موت کے بعد کے لئے عمل کرے اور عاجز وہ شخص ہے جو اپنی خواہشات پر چلتا ہو اور اللہ پاک کی رحمت کی امید بھی کرتا ہو ۔(ترمذی ، کتاب صفۃ القیامۃ ، باب ۲۵، ۴/ ۲۰۸، حدیث:۲۴۶۷)
جبکہ حضرت یحییٰ بن معاذرازیرَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ ارشادفرماتےہیں:’’کوئی حماقت اس سے بڑھ کر نہ ہوگی کہ انسان دوزخ کا بیج بوئے اورجنت کی فصل کاٹنے کی اُمید رکھے، کام گناہ گاروں والے اور مقام نیکوں والا تلاش کرے۔‘‘(کیمیائے سعادت، ۲/۸۱۱ )
پىاری پىاری اسلامى بہنو! معلوم ہوا کہ رحمتِ الٰہی سے امید باندھنے کے ساتھ ساتھ گناہوں سے بچنا اور نیک اعمال میں مصروف رہنا بھی بہت ضروری ہے۔ گناہوں کے باوجود رحمتِ الٰہی