Duniya Ki Mohabbat Ki Muzammat

Book Name:Duniya Ki Mohabbat Ki Muzammat

ہے:جب کوئی شخص مرجاتا ہے تو فرشتے کہتے ہیں: مَاقَدَّمَیعنی اس نے آگے کیا بھیجا؟اور لوگ پوچھتےہیں:مَاخَلَّفَ یعنی اس نے پیچھے کیا چھوڑا؟(شعب الایمان،باب فی الزہد و قصرالامل ،حدیث: ۱۰۴۷۵، ۷/۳۲۸) یعنی مرتے وقت وارثین(مَیِّت کےمال کے حق دار)تو چھوڑے ہوئے مال کی فکر میں ہوتے ہیں کہ کیا چھوڑ ے جا رہا ہے ؟اور جو فرشتے رُوْح قَبْض کرنے(یعنی نکالنے)کے لیے آتے ہیں وہ اعمال و عقائد کا حساب لگاتے ہیں۔ (مرآۃ المناجیح، ۷/۴۹)

پیاری پیاری اسلامی بہنو!عقلمندی کا تقاضا یہی ہے کہ ہم دنیا اور اس کے سامان کی فکر چھوڑیں اور نیک اعمال کرنے میں مشغول ہو جائیں۔جس مال و دولت کے لیے ہم زندگی  صرف کرتی ہیں اس میں سے بھی صرف اتنا ہی ہمارا ہے جتنا ہم نے خرچ کر دیا۔ جو رہ گیا وہ ہمارا نہیں بلکہ حق داروں کا ہو گا۔ یاد رکھئے!اس پیسے نے کسی سے وفا نہیں کی،یہ واقعی ہاتھوں کا میل ہے، بالفرض اگر زندگی میں کروڑوں اربوں روپے جمع کر بھی لیے جائیں تب بھی  ہم صرف اتنا ہی استعمال کر سکتی ہیں جتنا ہم کر سکیں۔یوں سمجھئے!جیسے کسی کو خوب بھوک لگی ہو، سامنے بریانی کی دیگ پک رہی ہو، بریانی کی بھینی بھینی خوشبو دل و دماغ کواپنی طرف کھینچ رہی ہو، دل اس کی طرف مائل ہو،  دل کر رہاہوگا کہ ساری کی ساری دیگ کھا لی جائے مگر دو تین پلیٹیں کھانا کھانے کے بعد مزید کھانے کی گُنجائش نہیں رہتی۔بسا اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ پیٹ بھر جاتا ہے مگردل نہیں  بھرتا، دل کر رہا ہوتا ہے کہ اور کھائیں، بہت لذیذ بنا ہوا ہے مگر  کھاتی  نہیں ہیں ، اس لئے کہ مزید کھانے کی گنجائش ہی نہیں رہتی، پیٹ بھرگیا  ہے تو مزیدکیسے کھایاجائے گا، بالکل اسی طرح اگرہم بالفرض کروڑوں اربوں  روپے جمع کرلیں مگر ان میں سے اتنا ہی کھائیں گی جتنے سے پیٹ بھر ےگا۔اسی طرح کپڑا بھی اتنا ہی استعمال کیا جائے گا جتنے سے ایک سوٹ بن جاتا ہے، الغرض  دنیوی مال و دولت کے  ڈھیر بھی  جمع کر لئے جائیں تب بھی استعمال اتنا ہی کر پائیں  گی جتنا ہم کرسکتی ہیں، باقی