Book Name:Auliya-e-Kiraam Kay Pakeeza Ausaaf

بندوں کے حقوق) کی ادائیگی کا محافظ ہے، خوفِ خدا حقوقِ الٰہی کی ادائیگی کا بھی ضامن ہے، خوفِ خدا سے قبر میں بھی اُجالے ہوں گے اور خوفِ خدا محشر کی پریشانیوں سے بھی بچائے گا۔ اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّ  وَجَلَّ

الغرض ! یہ ایک ایسی صفت ہے جو بندے میں کئی نیک خوبیوں اور اچھی عادتوں کے پیدا ہونے کا سبب ہے۔

آیئے یہ بھی سنتے ہیں کہ خوفِ خدا کا معنی کیا ہے چنانچہ شیخِ طریقت،اَمِیرِ اہلسنّت،بانیِ دعوتِ اسلامی حضرت ِ علّامہ مولانا ابُو بلا ل محمد الیاس عطّارقادِری  رَضَوِی ضِیائی دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہاپنی مایَۂ ناز تالیف ”کفریہ کلمات کے بارے میں سوال جواب“ صفحہ 26 پر فرماتے ہیں:”خوفِ خدا“سے مرادیہ ہے کہ اللہ پاک کی خفیہ تدبیر،اس کی بے نیازی، اُس کی ناراضی،اس کی گِرِفت (پکڑ)، ا س کی طرف سےدیئے جانے والے عذابوں،اس کے غضب اور اس کے نتیجے میں ایمان کی بربادی وغیرہ سے خوف زدہ رہنے کا نام ”خوفِ خدا“ہے ۔

یہ نیک صفت بھی اولیائے کرام کی زندگیوں کا لازمی (Compulsory) جز ہوتی ہے۔یاد رہے کہ اولیائے کرام کی زندگی علم و عمل کا مجموعہ ہوتی ہے اور علم خوفِ خدا کے حصول کا ذریعہ ہے اور علم اللہ  پاک کی معرفت کا ذریعہ ہے اور جب معرفتِ الٰہی  زیادہ ہوگی تو  بندہ عمل کی طرف بھی زیادہ راغب ہوتا ہے۔خود سرکارِ غوثِ پاک رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ  باوجود بہت بڑےعالم و عابد ہونے کے خوفِ خدا میں اپنی مثال آپ تھے۔ اس کے ساتھ ہمارے دیگراسلاف بھی خوفِ خدارکھنے والے ہوتے تھے۔

منقول ہےکہ    حضرت سَیِّدُنا یحیی بن عبدالملک رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ بہت ہی بارُعب شیخ الحدیث تھے ،لیکن آپ پر خوفِ خدا کا بڑا غلبہ تھا ۔آپ دن رات روتے رہتے یہاں تک کہ آپ کی آنکھوں میں ہمیشہ آشوبِِ چشم (آنکھ دُکھنے کی وجہ سے جو سُرخی ہو،اُس) جیسی سرخی رہتی تھی ۔ یہ دیکھ کر بعض لوگوں نے عرض کی:”حضور! آپ کی