Book Name:Islam Mukammal Zabita-e-Hayat Hai

کر بھیجا تو انہوں نےوکیل کو خط لکھا: اے فُلاں! ہم اپنے دِین کی سلامتی کے ساتھ تھوڑے فائدے پر ہی قناعت کر لیا کرتے ہیں مگرتم نے اس کے خِلاف کِیا۔  ہمیں یہ پسند نہیں کہ ہمیں اس سے کئی گُنا فائدہ ہو لیکن اس کے بدلے ہمارے دِین میں سے کوئی چیز چلی جائے(یعنی ہمیں دِینی و اُخروی  نُقصان پہنچے)لہٰذا جب تمہارے پاس میرا یہ خط پہنچے تو وہ تمام مال لے کر بصرہ کے فقرا پر صدقہ کر دینا۔ شاید  ایسا کرنے سے میں ذخیرہ اندوزی کے گُناہ سے نَجات پا سکوں کہ نہ تو مجھے(اُخروی)نقصان ہو اور نہ ہی (دُنیوی) فائدہ۔  ( احیاء العلوم  الدین،  ۲ / ۹۳)

اللہ پاک ان نیک ہستیوں کے صدقے ہمیں بھی خیرخواہیِ اُمّت کا جذبہ نصیب فرمائے۔  اے کاش!  اللہ پاک کی راہ میں اپنا مال اِخلاص کے ساتھ لُٹانے کا جذبہ مل جائے۔ آئیے! مل کربارگاہِ مُصطفےٰ میں اِستغاثہ پیش کرتے ہیں:

میں سب دولت رہِ حق میں لُٹا دوں                                         شہا ایسا مجھے جذبہ عطا ہو

(وسائل بخشش مرمم،  ص۳۱۶)

سُبْحٰنَ اللہ عَزَّ  وَجَلَّ ! سُنا آپ نے! ہمارے بزرگوں کا اندازِ تجارت اور طرزِ معیشت کس قدر نرالہ تھا۔ بِلا شُبہ اسلامی تاریخ کے صفحات ایسے باکردار لوگوں کے واقعات سے بھرے ہوئے ہیں جو نہ صرف اپنے ذاتی مُعاملات بلکہ تجارتی مصروفیات میں بھی ایثار و بھلائی اور مسلمانوں کی خیر خواہی کو اپناتے ہوئے اسلام کے مَعاشی اصولوں پر کاربند رہے،  شاید اسی وجہ سے ان کے دور کی مَعاشی خوشحالی اپنی مثال آپ تھی،  بہرحال اگرتاجر حضرات لالچ کے پھندے سے نکل کر شریعت کے مقرر کردہ اُصول و قوانین کا پٹا اپنے گلے میں ڈال لیں اور کسب وتجارت کے مُعاملے میں اللہ والوں کی پیروی کریں تو مُعاشرے میں ایک شاندار خوشحالی لائی جاسکتی ہے۔ اَلْحَمْدُلِلّٰہ عَزَّ  وَجَلَّ ہراتواربعدِ مغرب مدنی چینل پر”احکامِ تجارت“کے نام سے ایک معلوماتی سلسلہ بھی براہِ راست(Live)نشر کیا جاتا  ہے،