Book Name:Fazilat Ka Maiyar Taqwa
اس لائق تھا کہ اسے ذمہ داربنایا جاتا تو آخر ایسی کیا وجہ تھی کہ ایک کم عمر اسلامی بھائی کو یہ ذمہ داری دی گئی ۔یاد رکھئے!مدنی ماحول سے دُور کرنے کایہ زبردست شیطانی وار ہے شیطان ہرگز نہیں چاہتاکہ ہم مدنی ماحول میں رہتے ہوئے اپنی آخرت کا سامان اکٹھاکریں وہ توچاہتاہےکہ بس کسی طرح غیبت وچغلی ،بدگمانی اور مسلمانوں کی دل آزاریوں کے ذریعے مدنی ماحول سے دور کرکے گناہوں میں مبُتلا کردے ،ہمیں اس کے وار کو ناکام بنا تے ہوئے یہ ذِہْن بنانا ہوگا کہ ہر صَحِیْحُ الْعَقِیْدہمُسلمان مجھ سے بہتر ہے جو بھی ہمارا ذِمّہ داربنادیا جائے ہمیں اس کی اطاعت کرنی چاہئے کیونکہ صرف تجربہ کار ہونا یا عمر میں زیادہ ہونا ہی افضلیت کی دلیل نہیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ تقویٰ و پرہیزگاری بھی بے حد ضروری ہے،جس شخص میں دیگر اچھی صفات کے ساتھ تقویٰ،خوفِ خدا و عشقِ مُصْطَفٰے بھی ہوگا وہ دوسروں سے فضیلت و مرتبے میں اعلیٰ اورعہدہ و منصب کے زیادہ لائق ہوگا۔مکی مدنی آقا،دو عالم کے داتا صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ بھی اسی کو امیر بناتے تھے جو تقویٰ و پرہیزگاری میں دوسروں سے بہتر ہوتا۔آئیے!بطورِ ترغیب اس ضمن میں ایک حدیثِ مبارکہ اور اس کی شرح سنتے ہیں اور اس سے مدنی پھول چُنتے ہیں،چنانچہ
حضرت سَیِّدُنا عبدُالله ابنِ عمررَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے کہ رسولُ الله صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ایک لشکر بھیجا اوران پر حضرت اُسامہ بن زید رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو امیر بنایا تو بعض لوگوں نے ان کی اِمارت(سرداری)میں اعتراض کیا تو رسولُ الله صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: اگر تم لوگ ان کے امیر ہونے میں طنز کرتے ہو تو تم ان کے والد کے امیر ہونے میں بھی اس سے پہلے طنز کرتے تھے،اللہ پاک کی قسم! وہ امیری کے لائق تھے اور وہ مجھے لوگوں سے زیادہ پیارے تھے اور یہ بھی ان کے بعد مجھے لوگوں میں زیادہ پیارے ہیں۔(بخاری،کتاب المغازی،باب بعث النبی اسامۃ … الخ،۳/۱۶۱،حدیث:۴۴۶۹)
حکیم الاُمَّت حضرت مفتی احمدیار خانرَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ بیان کردہ حدیثِ پاک کی شرح میں فرماتے ہیں:حضرت(سَیِّدُنا)اُسامہ اِبْنِ زید(رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ)کو حضورِاَنور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَنے اپنی حیات شریف میں بہت بار امیرِ لشکر بنایا تھا(اسی طرح) وفات کے قریب بھی ایک لشکر پر آپ(رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ) ہی کو امیر بنایا اسے سریَۂ اُسامہ کہتے ہیں۔جب پہلی بار اُنہیں امیر بنایا تب یہ واقعہ پیش آیا یا ہر دَفْعہ یہ ہی واقعہ ہوا کہ لوگ ان کی اِمارت(سرداری)پر اِعْتراض کرتے رہے۔یہ طعن (طنز)کرنے والے مُنافقین اور عرب کے بَدَوِی(صحراؤں میں رہنے والے)لوگ تھے جو حضرت (سَیِّدُنا)زیداور (حضرت سَیِّدُنا)اُسامہ ابنِ زید(رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا)کی اِمارت(سرداری)پر اس لیے اِعتراض کرتے تھے کہ یہ حضرات غُلام تھے اور اہلِ عرب کبھی غلاموں کو کسی کا سردار نہیں بناتے تھے اسلام نے غُلاموں کو اُٹھا کر سردار بنادیا ۔(مزید فرماتے ہیں:)اسلام میں غُلامی آزادی کا فرق غلط ہے یہاں ہر مؤمن غُلام ہو یا آزاد سب برابر ہیں،عظمت تقوے سے ہے،حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اپنے اس عمل سے یہ فرق توڑ دیا۔(مرآۃ المناجیح، ۸/۴۶۵ملتقطاً)