Book Name:Fazilat Ka Maiyar Taqwa
ترجمۂکنزُالعِرفان:اے ایمان والو!مرد دوسرے مردوں پر نہ ہنسیں،ہوسکتا ہے کہ وہ ان ہنسنے والوں سے بہتر ہوں اور نہ عورتیں دوسری عورتوں پر ہنسیں،ہوسکتا ہے کہ وہ ان ہنسنے والیوں سے بہتر ہوں اور آپس میں کسی کو طعنہ نہ دو اور ایک دوسرے کے برے نام نہ رکھو، مسلمان ہونے کے بعد فاسق کہلانا کیا ہی برا نام ہے اور جو توبہ نہ کریں تو وہی ظالم ہیں ۔
اس آیتِ مقدسہ کے تحت تفسیرِ خازن میں ہے کہ حضرت سَیِّدُنا عبدُ اللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں:حضرت ثابت بن قیس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ اُونچا سنتے تھے ، جب وہ سرکار دو عالم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَکی مجلس شریف میں حاضر ہوتے تو صحابَۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم انہیں آگے بٹھاتے اور اُن کے لئے جگہ خالی کردیتے تاکہ وہ حضورِ اَقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَکے قریب حاضر رہ کر کلام مُبارک سُن سکیں۔ایک روز انہیں حاضری میں دیر ہوگئی اور جب مجلس شریف خوب بھر گئی اس وقت آپ تشریف لائے اور قاعدہ یہ تھا کہ جو شخص ایسے وقت آتا اور مجلس میں جگہ نہ پاتا تو جہاں ہوتا وہیں کھڑا رہتا۔لیکن حضرت ثابت رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُآئے تو وہ رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَکے قریب بیٹھنے کے لئے لوگوں کو ہٹاتےہوئے یہ کہتے چلے کہ’’جگہ دو جگہ‘‘یہاں تک کہ حضور انورصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اتنے قریب پہنچ گئے کہ اُن کے اور حضور پر نور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے درمیان میں صرف ایک شخص رہ گیا، اُنہوں نے اس سے بھی کہا کہ جگہ دو، اس نے کہا: تمہیں جگہ مل گئی ہے اس لئے بیٹھ جاؤ ۔حضرت ثابت رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ غُصّے میں آکر اس کے پیچھے بیٹھ گئے ۔ جب دن خُوب روشن ہوا توحضرت ثابت رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنے اس کا جسم دبا کر کہا: کون؟ اس نے کہا: میں فلاں شخص ہوں ۔حضرت ثابت رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے اس کی ماں کا نام لے کر کہا: فلانی کا لڑکا۔ اس پر اس شخص نے شرم سے سرجھکالیا کیونکہ اس زمانے میں ایسا کلمہ عار دلانے کے لئے کہا جاتا تھا، اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔(تفسیرخازن،پ۲۶،الحجرات،تحت الآیۃ:۱۱،۴/۱۶۹ملخصاً)
حضرت سیِّدُنا اِمام احمدبن حَجَرمَکِّی شَافِعِی رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ اس آیت کے تحت فرماتے ہیں:اس حکمِ خُداوندی کامقصد یہ ہے کہ کسی کو حقیر نہ سمجھو، ہو سکتا ہے وہ اللہ پاک کے نزدیک تم سے بہتر، افضل اور زیادہ مقرَّب ہو۔ (الزواجر،الباب الثانی:فی الکبائر الظاہرۃ ،الکبیرۃ الثامنۃ …الخ، ۲ /۱۱)
شیخُ الحدیث حضرت علامہ عبدالمصطفٰے اعظمی رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں:اس زمانے میں جو ایک فاسقانہ اور سراسر مُجرمانہ رَواج نکل پڑا ہے کہ ”شیخ“اور ”پٹھان“ وغیرہ کہلانے والوں کا یہ دستور بن گیا ہے کہ وہ دُھنیا(رُوئی دُھنکنے والا)،جولاہا(کپڑا بُننے والا)،قصائی، نائی کہہ کر مُخلص و مُتَّقی مسلمانوں کا مَذاق بنایا کرتے ہیں بلکہ ان قوموں کے عالموں کو محض ان کی قومیت کی بنا پر ذلیل و حقیر سمجھتے ہیں بلکہ اپنی مجلسوں میں ان کا مذاق بنا کر ہنستے ہنساتے ہیں۔حد ہو گئی کہ جو لوگ برسوں ان قوموں کے عالموں کے سامنے زانوئے تَلَمُّذْ طے کر کے(یعنی ان کی شاگردگی اختیار کرکے) خود عالِم اور شیخِ طریقت بنے ہیں مگر پھر بھی محض قومیت کی بنا پر اپنے اُستادوں کو حقیر و ذلیل سمجھ کر