Book Name:Dukhyari umat ki Khayr Khuwahi

مسلمانوں کے گھروں سے جنازہ نکل جائے گا اور ہر مسلمان ہر ایک مسلمان کے لیے صلاح وفلاح   اور نفع رَسانی و بھلائی  کےسوا نہ کچھ کر سکے گا،نہ کچھ سوچ سکے گا، نہ کوئی مسلمان کسی مسلمان کے ساتھ خیانت کرے گا، نہ چغلی، غیبت اور بہتان تراشی کا مرتکب  ہوگا، نہ ظلم کے کسی پہلو کو بھی اپنے گوشۂ خیال میں  آنے دے گا، نہ کسی کے بنتے ہوئے کام میں  روڑا  اَٹکائے گا(یعنی رکاوٹ نہیں ڈالے گا) بلکہ وہ سب کا بھلا چاہے گااورسب کے ساتھ بھلائی  کرے گا۔جس کا قدرتی نتیجہ یہ  ہوگا کہ لوگ بھی اس کی خیر خواہی اور بھلائی  کریں  گے اور و ہ بھی ہر نُقصان سے محفوظ رہے گا اور ہمیشہ اس کا بھلا ہوتا رہے گا۔(منتخب حدیثیں،ص۲۳۱)

اُمّتِ محبوب کا یا ربّ بنا دے خیر خواہ                               نفس کی  خاطِر کسی سے دل میں  میرے  ہو  نہ  بَیر

(وسائلِ بخشش مرمم،ص۲۳۳)

خیر خواہی کی تعریف: 

حکیم الاُمّت حضرت مفتی احمدیارخان نعیمیرَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ خیرخواہی کی تعریف  کرتے ہوئے فرماتے ہیں: اصطلاح میں کسی کی خالص خیر خواہی کرنا جس میں بدخواہی کا شائبہ نہ ہو یا خُلوصِ دل سے کسی کا بھلا چاہنا نصیحت(یعنی خیرخواہی )ہے۔(مراۃ المناجیح ، ۶/۵۵۷)

      میٹھےمیٹھےاسلامی بھائیو! لفظِ خیرخواہی اپنےمفہوم کےاعتبارسےعام ہےمثلاً مسلمانوں کے ساتھ نرمی  و  بھلائی  سے پیش آنا،ان کی مالی مددکرنا،ان کی پریشانی دُورکرنا،انہیں کپڑے پہنانا، انہیں کھانا کھلانا، انہیں آرام و سکون مہیا کرنا، ان کی ضروری خواہشات کو پورا کرنا، شرعی رہنمائی کرنا یا کروا دینا، بھٹکے ہووں کو راہِ راست پر لانا، الغرض کسی بھی طرح  سے اپنے مسلمان بھائی کے ساتھ خیرخواہی کرنا ثواب  کا کام ہے۔لیکن افسوس!فی زمانہ ہماری حالت  یہ ہے کہ  ہم ”یاشیخ اپنی اپنی دیکھ“ کےتحت صرف اپنے معاملات  سُلجھانے  کی  فکر میں رہتے ہیں۔ ٭ ہمارے  آس پاس  کتنے مسلمان پریشان  حال ہیں،  ہمیں اس کا کوئی