Book Name:Fazail e Sadqat
دعوتِ اسلامی کے اِشاعتی اِدارےمکتبۃ المدینہ کی کتاب”عُیون الحکایات(جلد اَوّل)“کے صَفْحہ نمبر 212 پر ہے کہ حضرت سیدنااحمد بن نَاصِحْرَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں:ایک غریب شخص بہت عبادت گزاراورکثیرُالْعِیَال تھا۔ گھر کا خرچ وغیرہ چلانے کے لئے اُون کی رسیاں بناتا اور انہیں فروخت کر کے کھانے پینے کا سامان خریدلاتا، جتنا مل جاتا اسی کو کھاکر اللہ پاک کا شکر ادا کرتا۔حَسبِ معمول ایک مرتبہ وہ نیک شخص اُون کی رسیّاں بیچنے بازار گیا۔جب رسیّاں بِک گئیں(یعنی Saleہوگئیں) تووہ گھر والو ں کے لئے کھانے کا سامان خریدنے لگا۔اتنے میں اس کا ایک دوست اس کے پاس آیا اور کہا : میں سخت حاجت مند ہوں، مجھے کچھ رقم دے دو۔اس رحم دل عبادت گزار شخص نے وہ ساری رقم اس غریب حاجت مند سائل کو دے دی اور خود خا لی ہاتھ گھر لوٹ آیا۔ جب گھر والو ں نے پوچھا: کھانا کہاں ہے ؟تو اس نے جواب دیا: مجھ سے ایک حاجت مند نے سوال کیا وہ ہم سے زیادہ حاجت مند تھا،لہٰذا میں نے ساری رقم اس کو دے دی ۔گھر والو ں نے کہا:اب ہم کیا کھائیں گے؟ہمارے پاس تو گھر میں کچھ بھی نہیں۔اس نیک شخص نے گھر میں نظر دوڑائی تو اسے ایک ٹُو ٹا ہوا پیالہ اور گڑھامٹکا(پانی جمع کرنے کا مٹی کا ایک برتن)نظر آیا۔اس نے وہ دونوں چیزیں لیں اور بازار کی طر ف چل دیا۔اس اُمید پرکہ شاید انہیں کوئی خرید لے اور میں کچھ کھانے کا سامان لے آؤں ۔ چنانچہ وہ بازار پہنچا لیکن کسی نے بھی اس سے وہ ٹُو ٹا ہوا پیالہ اور گڑھامٹکا نہ خریدا۔اتنے میں ایک شخص گزرا جس کے پاس ایک خراب پھُولی ہوئی مچھلی تھی،مچھلی والے نے کہا : تُو میرا خراب مال اپنے خراب مال کے بدلے خرید لے یعنی یہ ٹُو ٹا ہوا پیالہ اور گڑھاگھڑامٹکامجھے دے دے اور مجھ سے یہ پُھولی ہوئی خراب مچھلی لے لے ۔اس عا بد شخص نے یہ سود ا منظور کرلیا اور خراب مچھلی لے کر گھر پلٹ آیا اور گھر والوں کے حوالے کر دی۔جب انہوں نے اس مچھلی کو دیکھا تو کہنے لگے:ہم اس بے کار مچھلی کا کیا کریں؟اس عابد شخص نے کہا:تم اسے بُھون لو ہم