Book Name:Tawakkul Or Qanaat

جب  رمضان کے فرض روزے  رکھتے ہیں تو افطار میں اپنے کھانے کیلئے  طرح طرح کی عُمدہ اور عالیشان نعمتیں جمع کرتےہیں، ایک مَرغُوب چیز بھی کم ہوجائے تو گھروالوں سے خَفا ہو تے ہیں، جبکہ اللہ عَزَّ  وَجَلَّ کا وہ عبادت گزار بندہ روزانہ روزہ رکھتا مگر افطار میں فقط 2 روٹیوں پر ہی اِکتفا کرتا ، وہ اپنے نفل روزوں کیلئے ہمارے فرض روزوں  سے بھی زیادہ عُمدہ اور بہترین افطار کا اہتمام کرنے کے بجائے قناعت اِختیارکرتا،اس کی عالیشان قناعت پر  کہ روزانہ 2 ہی روٹیوں سے افطار کرتا  اور انہیں اپنے لیے کافی سمجھتا۔ ہمیں بھی قناعت(Contentment)   کی عادت اپنانی چاہیے،آج ایک تعداد رِزق میں کمی اورمال میں بے  برکتی کا شکار نظرآتی ہے، ایسوں کو چاہیے کہ رِزق میں اضافے اور برکت کے ساتھ ساتھ اپنے لئے  قناعت کی دولت ملنے کی دُعا بھی کیا کریں، کیونکہ قناعت جس بندے کو نصیب ہوجائے اسے دُنْیا و مافیہا(یعنی دُنیا اورجوکچھ اس میں ہے،اس)سے بے نیاز کر دیتی ہے۔قناعت بندے کو غیر کے دروازے پر جھکنے اور کسی کے سامنے دَسْتِ سوال دراز کرنے سے بچا کر صرف  رَزّاقِ حقیقی عَزَّ  وَجَلَّپر بھروسا کرنا سکھاتی ہے۔ قناعت بندے میں خودداری اورغیرت پیدا کرتی ہے جبکہ خواہشات کی پیروی انسان کو غلام بنا کر رکھ دیتی ہے۔

ضرورت سے زِیادہ مال و دولت کا نہیں طالب    رہے بس آپ کی نظرِ عنایت یارسولَالله!

رہیں سب شاد گھر والے شہا تھوڑی سی روزی پر      عطا ہو دولتِ صبر و قناعت یارسولَالله!

(وسائلِ بخشش مرمم،ص۳۳۲)

صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب!                                                                صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمّد

قناعت کی تعریف:

      قناعت کہتےکسے ہیں؟ اس کی تعریف بیان کرتے ہوئے حضرت علامہ عبدُالمصطفےٰ اعظمی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتےہیں: انسان کوجوکچھ خدا عَزَّ  وَجَلَّ کی طرف سے مل جائے،اس پر راضی ہو کر زندگی بسر