Book Name:Tawakkul Or Qanaat

      میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! قناعت کی طرح توکُّلبھی ان صفات میں سے ہے، جو انسان کے اخلاق کو بہترین بناتی ہیں۔ قناعت اور توکُّلکا آپس میں گہرا تعلُّق (Connection)ہے۔ قناعت توکُّل کی سیڑھی ہے، قناعت انسان کو توکُّلپر  اُبھارتی ہے اور بندہ کم مال پر اِکتفا کرتے ہوئےربِّ کریم عَزَّوَجَلَّ پر بھروسا کرتا ہے۔ اللہ عَزَّ  وَجَلَّپر توکُّل ایمان کے واجبات و فرائض میں سے ایک اہم فریضہ ہے، اعلیٰ حضرت، امام اہلسنَّت مولانا شاہ امام احمد رضاخان رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں: اللہ عَزَّ  وَجَلَّپر توکُّل کرنا فرضِ عین ہے۔ (فضائلِ دعا،ص:۲۸۷) جس کےدل میں توکُّل کانور نہیں اس کاایمان کامل نہیں اور اس کا دل اندھیر نگری کے سوا کچھ نہیں۔ توکُّل ایمان کی روح ہے۔توکُّل ایسا عمل ہے،جو بندے کو اللہ عَزَّوَجَلَّ کےقریب اور لوگوں سے دُور کرتا ہے۔ مشکلات اور پریشانیوں میں توکُّلہی  بندے کو اِسْتِقامت کے ساتھ ان کے مُقابلے کی قُو ّت(Power) دیتا ہے۔ مُصیبتوں میں توکُّلہی انسان کی اُمیدیں جگانے کا باعث بنتا ہے۔

توکُّل کا معنی و مفہوم:

       دعوتِ اسلامی کے اِشاعتی ادارے مکتبۃُ المدینہ کی مطبوعہ تفسیر”صِراطُ الجنان“جلد3 صفحہ 520 پر ہے: حضرت سَیِّدُنا امام فخرُ الدِّین رازی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہفرماتے ہیں:’’ توکُّلکا یہ معنی نہیں کہ انسان اپنے آپ کو اور اپنی کوششوں کو بیکار اور فُضول سمجھ کرچھوڑ دے جیساکہ بعض جاہل کہتے ہیں بلکہ توکُّل یہ ہے کہ انسان ظاہری اسباب کو اختیار کرے لیکن دل سے ان اَسباب پر بھروسا نہ کرے بلکہ اللہ تَعَالٰیکی مدد اس کی تائید اور اس کی حمایت پر بھروسا کرے ۔( تفسیر کبیر، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۱۵۹، ۳/۴۱۰)اس بات کی تائید اس حدیث پاک سے بھی ہوتی ہے :

      حضرت سیّدناانس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ فرماتے ہیں: ’’ایک شخص نے عرض کی :یا رَسُولُاللہ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم،میں اپنے اُونٹ کو باندھ کر توکُّل کروں یا اسے کُھلا چھوڑ کر توکُّل کروں ؟ ارشاد فرمایا