Book Name:Safar-e-Meraj Or Ilm-e-Ghaib-e-Mustafa صلی اللہ تعالی علیہ وسلم

آئیے اس بارے میں چند احادیثِ مبارکہ سُنتے ہیں:چنانچہ ارشاد فرمایا:

        اِنَّ اللہَ زَوٰی لِیَ الْاَرْضَ فَرَاَیْتُ مَشَارِقَ الْاَرْضِ وَ مَغَارِبَھَا یعنی اللہ عَزَّ  وَجَلَّ  نے زمین کو میرے لئے سمیٹ دیا لہٰذا میں نے زمین کے مشرقی اور مغربی تمام حصوں کو دیکھ لیا۔([1])

ارشاد فرمایا:اللہعَزَّ  وَجَلَّ  نے میرے لئے ساری دُنیا سے پردہ اُٹھا دیا،لہٰذا میں دُنیا کی طرف اور قیامت تک جو کچھ اس میں ہونے والا ہے اس کی طرف ایسے دیکھ رہا ہوں جس طرح اپنی ہتھیلی کو دیکھ رہا ہوں۔([2])

ارشاد فرمایا:میرے سامنے میری ساری اُمّت کو خاکی صورتوں میں پیش کیا گیا،جس طرح حضرت آدم عَلَیْہِ السَّلَام  کے سامنے تمام چیزوں کو پیش کیا گیا تھا، اور مجھے یہ بھی بتا دیا گیا ہے کہ کون مجھ پر  ایمان لائے گا اور کون کُفر کرے گا،جب منافقین کو حضورِ اکرم ،نورِ مجسم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا یہ باکمال وصف معلوم ہوا تو جل بُھن کر اعتراض کرتے ہوئے کہنے لگے کہ اِن کا گمان یہ ہے کہ جو ابھی پیدا بھی نہیں ہوئے میں اُن کے ایمان و کُفر اور اُن میں سے مومن و کافر کو جانتا ہوں حالانکہ ہم مُنافق و کافر ان کے ساتھ رہتے ہیں ،ہمارے کفر و نفاق کا تو اِنہیں معلوم ہی نہیں،جب مُنافقین کا یہ طنز و اعتراض حضورِ اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی مُبارک سماعت تک پہنچا تو منبر پر رونق افروز ہو کر ارشاد فرمایا:اُن لوگوں کا کیا حال ہے جنہوں نے میرے علم پر اعتراض کیا ہے،(پھر ارشاد فرمایا)تم اب سے لے کر قیامت تک کی جس بات کے بارے میں پوچھنا چاہو پوچھو ،میں تمہیں بتاؤں گا۔([3])

حضرت عبدُ اللہ  بن عمرْو  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ ایک دن رسولُ الله صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ  ہمارے پاس تشریف لائے اور آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے دونوں ہاتھوں میں کتابیں تھیں۔ فرمایا: کیا تم جانتے ہو یہ کیسی کتابیں ہیں؟ ہم نے عرض کی :آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے بتائے بغیر


 

 



[1]  مسلم،کتاب الفتن،باب ھلاک الخ،ص۱۱۸۲،حدیث:۲۸۸۹

[2]  مجمع الزوائد،کتاب علامۃ النبوۃ،باب  اخبارہ بالمغیبات،۸/۵۱۰

[3]  تفسرِ خازن،پ۴،ال عمران،تحت الایۃ:۱۷۹،۱/۳۲۸