Book Name:Jhoot ki Badboo

میں اس کا رَد کیا گیا ہے اوراِس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ جھوٹ بولنا اوربہتان باندھنابے ایمانوں ہی کاکام ہے۔(تفسیرِ خازن ،النحل ،تحت الآیۃ:۱۰۵، ۳/۱۴۴،ملخصاً)

حضرتِ علّامہ امام فَخْرُالدِّینمحمد بن عُمررازیرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہفرماتےہیں:یہ آیتِ کریمہ اِس بات پر قَوِی دلیل ہے  کہ جُھوٹ تمام کبیرہ گُناہوں میں سب سے بڑا گُناہ  اور بَد تَرین بُرائی ہے، کیونکہ جُھوٹ بولنے اورجُھوٹاۭ الزام (Blame)لگانے کی جُرأت وُہی شَخْص کرتا ہے، جسے اللہ عَزَّ  وَجَلَّ کی نشانیوں  پر یقین نہ ہو یا جو شَخْص غیر مُسْلِم ہواوراللہ عَزَّ  وَجَلَّ کا جھوٹ کی مَذَمَّت میں اس طرح  کلام فرمانا، نہایت ہی سخت تَنْۢبِیْہ ہے۔(التفسیر الکبیر:۷/۲۷۲، الجزءالعشرون،ملتقطاً)

          میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!آپ نے سُنا کہ قرآنِ کریم میں  جھوٹ كو بے ایمانوں کی صفت قرار دیا  گیا ہے، یقیناً جھوٹ ایسی بُری عادت ہے کہ زمانَۂ جاہلیت میں قبیلوں کے بڑے سردار بھی اس سے سخت نفرت  کرتےاوراپنی طرف  جُھوٹ کی نسبت  کرنا  گوارا نہیں کرتے تھے،جیساکہ

جب شاہِ رُوم کے پاس نبیِ کریم ،رؤف رحیم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی طرف سے خط کی صورت میں اسلام کی دعوت پہنچی تو اُس نے ابُوسفیان کواپنے دربار میں بُلایا (جو اُس وقت مسلمان تو نہیں  ہوئے تھے مگر نسب کے اعتبار سے حضورِ اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے قریبی تھے) شاہِ رُوم نے حضورِ اکرم،نورِ مجسم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی دعویٔ نبوت کی سچائی کا اندازہ لگانے کیلئے ابوسُفیان سے آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے بارے میں بہت سے سوالات کئے،اگرچہ اس وقت کفر کی وجہ سے ابو سفیان،حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے بغض و عناد رکھتے تھے، مگر اِس کے باوجود حضورِ اکرم،نورِ مجسم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے کردار و گُفتار کے متعلق پوچھے  جانے والے تمام سوالات کے جوابات شاہِ رُوم کو سچ سچ بتا دئیے اور شانِ رسالت گھٹانے کیلئے  جھوٹ کا سہارا صرف اس وجہ سے نہ لیا کہ جھوٹ بولنے کی وجہ سے معاشرے میں مجھے جھوٹا کہا جائے گا اور اس بدترین عیب کی میری طرف نسبت کی جائے گی۔چنانچہ اُس موقع پر