Book Name:Faizan-e-Madani Inamaat

کرلے ۔([1])

میٹھی میٹھی اسلامی بہنو!دیکھا آپ نے کہ ہمارے بُزرگانِ دین میں فکرِ مدینہ کا جذبہ کس قدر کُوٹ کُوٹ کر بھرا ہوا تھا ،اُن مُبارک ہستیوں کے نزدیک فکرِ مدینہ(مُحاسبہ کرنے) کی کس قدر اہمیَّت تھی کہ ہروَقْت اپنے اَعْمال کے بارے میں فکرمند رہتے کہ نہ جانے ہمارے یہ اَعْمالاللہ عَزَّ  وَجَلَّ کی بارگاہ میں مَقْبُول ہو کر ہماری مَغْفرت کا ذریعہ بنیں گے یا مَردُود ہو کر ہماری ہلاکت کا سبب ثابِت ہوں گے۔ذرا سوچئے !جب یہ مَقْبُولانِ بارگاہ اس قدر اِسْتِقامت کے ساتھ فکر ِمدینہ کرتے تھے تو ہم گُناہ گاروں کو فکرِ مدینہ کرنے کی کس قدر ضرورت ہے۔فکرِ مدینہ کرنے کی اَہمیَّت اور نہ کرنے کا نُقْصان کیاہوتاہے  یہ اِس مثال سے سمجھئے!جس طرح دُنیاوی کاروبار سے تَعَلُّق رکھنے والا کوئی بھی شخص اسی وقت کامیاب  تاجر بن سکتا ہے، جب وہ اپنے خرچ کیے ہوئے مال سے کئی گُنا زیادہ نفع کمانے میں کامیاب ہوجائے اور اس کا اَصَل سرمایہ بھی مَحْفُوظ رہے ۔ اِس مَقْصَد کے حُصُول کے لئے وہ اپنے کاروبار (Business) كا روزانہ ، ماہانہ یا سالانہ حساب کتاب کرتا ہے،پھر اُس پر مختلف پہلوؤں سے نہ صرف زبانی غور و فِکْر کرتا ہے بلکہ اُس کوتحریری طور پر محفوظ رکھنے  کی کوشش کرتا ہے،نیز جہاں کسی قسم کی خامی نظر آئے اُسے دُرُسْت کرتا ہے اور جوچیز نفع کے حُصُول میں رُکاوٹ نظر آتی ہے اس کو دُور کرتا ہے۔ اگر وہ اپنے کاروباری مُعامَلات کا مُحاسَبہ نہ کرے تو اُسے نفع حاصل ہونا تو درکِنار ،اُلٹا نُقْصان کا سامنابھی ہوسکتا ہےاور اگر اس نُقْصان کے بعد بھی وہ ”خواب ِ خرگوش“(یعنی غفلت کی گہری نیند) سے بیدار نہ ہوتو ایک دن ایسا بھی آتا ہے کہ اُس کا اَصَل سرمایہ بھی باقی نہیں رہتا اور وہ کوڑی کوڑی کا مُحتاج ہوجاتا ہے۔ بالکل اسی طرح جو شخص ”کاروبارِ آخرت“میں نفع کمانے کا آرزُو مَنْد ہو اُسے بھی چاہئے  کہ اپنے کئے


 



[1] مکاشفۃ القلوب ، ص ۵۴۶ملخصاً