Book Name:Faizan-e-Madani Inamaat

ہر دم فکر ِ مدینہ

حضرت سَیِّدُنا حَسَن بَصْری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُچالیس (40)برس تک نہیں ہنسے۔راوی کا بیان ہے کہ میں جب بھی ان کو بیٹھے ہوئے دیکھتا تو ایسا لگتا جیسے کوئی قیدی ہے جسے گردن اڑانے کے لئے لایا گیا ہے ،جب آپ گُفتگو فرماتے تو ایسا معلوم ہوتا کہ آخرت کا مُشاہدہ فرمارہے ہیں اور اسے دیکھ دیکھ کر خبر دے رہے ہیں اور جب خاموش ہوتے تو یہ عالم ہوتا گویا اُن کی آنکھوں کے سامنے آگ بھڑک رہی ہے ۔ جب آپ سے اس قدرخوف زَدہ رہنے سے متعلق عرض کی گئی تو آپ نے فرمایا :میں اس بات سے بے خوف نہیں ہوں کہ اللہعَزَّ  وَجَلَّ  میرے بعض ناپسندیدہ اَعْمال پر مطلع ہوکر مجھ سے ناراض ہوجائے اور ارشاد فرمادے:”جا!میں تجھے نہیں بَخْشتا“(تو)اس صُورت میں میرے تمام اَعْمال ضائع ہوجائیں گے۔([1])

نَفْس کے مُحاسَبہ کا انوکھاطریقہ

     حضرت سَیِّدُنا اِبْراھِیْم تیمیرَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے یہ تصوُّر باندھا کہ میں جنّت میں ہوں ، وہاں کے پھل کھا رہاہوں ، اُس کی نہروں سے مشروب پی رہا ہوں اور حُوروں سے مُلاقات کر رہا ہوں ،اِس کے بعد میں نے یہ خیال جمایا کہ میں جَہَنَّم میں ہوں،آگ کی زنجیروں میں جکڑا ہوا ہوں ،تُھوہڑ(کانٹے دار درخت ) کھا رہا ہوں اور دَوزَخْیوں کا پِیْپ پی رہا ہوں ۔پھر میں نے اپنے نَفْس سے پوچھا :تجھے ان دونوں میں سے کون سی چیز پسند ہے؟ نَفْس بولا:میرا ارادہ ہے  کہ دُنیا میں جا کر نیک عمل کرکے آؤں،تب میں نے اسے کہا کہ فی الحال تجھے مہلت ملی ہوئی ہے لہٰذا خوب نیک اعمال


 

 



[1] احیاءالعلوم  ،۴/۵۵۶-۵۵۵