Book Name:Faizan-e-Madani Inamaat

گُزرو اور اگر اس کا نتیجہ غَلَط ہو تو اس سے باز رہو۔([1])

1.    عَقَل مند کے لئے ایک ساعت ایسی ہونی چاہئے جس میں وہ اپنے نَفْس کامُحاسَبہ کرے ۔([2])

2.    (اُمُورِ آخرت میں) گھڑی بھر غور و فِکْر کرنا ساٹھ (60)سال کی عِبادت سے بہتر ہے۔([3])

میٹھی میٹھی اسلامی بہنو!معلوم  ہوا قرآنِ کریم اور احادیثِ مُبارکہ میں اِحْتِساب کی کس قدر تَرْغِیب دِلائی گئی ہے،لہٰذا اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمیں رضائے رَبُّ الاَنام حاصل ہوجائے، ہم دنیا و آخرت میں ذِلَّت و رُسوائی اور شرمندگی سے بچ جائیں،جہنَّم سے چُھٹکارا مل جائے اور جنَّت ٹھکانہ بن جائے تو  ہمیں چاہئے کہ ہم اپنی موت سے غافل ہونےاور لمبی لمبی اُمیدیں باندھنے کے بجائےسمجھ داری کا ثبوت دیتے ہوئے روزانہ فکرِ مدینہ(مُحاسبہ) کرنے کی عادت بنائیں کیونکہ ہمیں ابھی مُہلت ملی ہوئی ہے،ہماری زندگی کی سانسوں کا تسلسل جاری ہیں،موت کا فرشتہ ابھی تشریف نہیں لایا،ہوش و حواس اور عقل سب سلامت ہیں،مگر جس دن سانسوں کی مالا ٹوٹی،موت کا فرشتہ آن پہنچا تو لاکھ کوششوں کے باوجود چاہتے ہوئے بھی ہم کچھ نہ کرپائیں گے اور اس وقت سوائے پچھتاوے کے کچھ ہاتھ نہ آئے گا،جیسا کہ امیر المومنین حضرت سَیِّدُنا  عمر فاروق اعظم  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا:اے لوگو! اپنے اعمال کا اس سے پہلے محا سَبَہ کر لو کہ قیامت آجائے اور اُن کا حساب لیا جائے۔(احیاء العلوم، ۵/۱۲۸)

آئیے! اب ہم مُحاسبے کی تعریف سنتے ہیں تاکہ اس کے ذریعے ہم زیادہ اچھے انداز میں اپنے اعمال


 

 



[1] کنزالعمال،کتاب الاخلاق،حرف التاء،التودۃ والتانی والتبیین،الجزء۳،۲/۴۴،حدیث:۵۶۷۳

[2] شعب الایمان، باب فی تعدید نعم ﷲ الخ ، ۴/۱۶۴، حدیث: ۴۶۷۷

[3] کنز العمال،کتاب الاخلاق،التفکر،۳/۴۸،حدیث:۵۷۰۷