Book Name:Fazilat ka Miyar Taqwa hay

مہنگے علاقوں میں بسنے والوں،گوری رنگت والوں اور اعلیٰ نسب والوں کو  ہی سب سے افضل  وبہتر جانتے اور صبح و شام انہیں کے گُن گاتے  نظرآتے ہیں جبکہ اللہ رَبُّ الۡعِزّت عَزَّ  وَجَلَّ  کے نزدیک وہی مسلمان زیادہ عزت و اِکْرام والا ہے کہ جوتقویٰ و پرہیزگاری  میں دوسروں سے زیادہ ہو،چُنانچہ پارہ 26 سُوْرَۃُ الْحُجُرات کی آیت نمبر 13 میں اِرْشادہوتاہے:

یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنٰكُمْ مِّنْ ذَكَرٍ وَّ اُنْثٰى وَ جَعَلْنٰكُمْ شُعُوْبًا وَّ قَبَآىٕلَ لِتَعَارَفُوْاؕ-اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ اَتْقٰىكُمْؕ-اِنَّ اللّٰهَ عَلِیْمٌ خَبِیْرٌ(۱۳) (پ۲۶،الحجرات:۱۳)

 تَرجَمۂ کنز الایمان:اے لوگو ہم نے تمہیں ایک مرداورایک عورت سے پیدا کیااورتمہیں شاخیں اور قبیلے کیا کہ آپس میں پہچان رکھو بیشک اللہ کے یہاں تم میں زیادہ عزّت والا وہ جو تم میں زیادہ پرہیزگار ہے بیشک اللہ جاننے والا خبردار ہے ۔

مُفَسِّرِ شَہِیر، حکیم الاُمَّت مُفتی احمد یار خان نعیمی  رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ اس آیتِ مُبارکہ کے تحت فرماتے ہیں : سب اِنسانوں کی اَصْل حضرت آدم و حوا(عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام وَرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا) ہیں اور اِن کی اَصْل مٹی ہے تو تم سب کی اَصْل مٹی ہوئی پھر نَسَب پر اَکڑتے اور اِتراتے کیوں ہو۔ انسان کو مختلف نسب و قبیلے بنانا ایک دوسرے کی پہچان کے لیے ہے نہ کہ شیخی مارنے اور اِترانے کے لیے۔(اس آیتِ مُبارکہ کا شانِ نُزول  بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :)حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ بازارِ مدینہ میں تشریف لے گئے، وہاں مُلاحَظہ فرمایا کہ ایک غُلام یہ کہہ رہا ہے کہ جو مجھے خریدے وہ مجھے حُضُور(صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ) کے پیچھے پنج گانہ نماز سے نہ روکے، اُسے ایک شخض نے خرید لیا پھر وہ غُلام بیمار ہوگیا تو سرکار (صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ) اس کی تیمار داری کو تشریف لے گئے پھر اس کی وفات ہوگئی ، تو حُضُور (صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ)اس کے دَفْن میں شریک ہوئے، اس پر بعض لوگوں نے حیرانی کا اِظہار کیا کہ غُلام اور اس پر اِتنا انعام اس پر یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی۔(نُورُ العرفان )