Book Name:Nematon ka Shukar Ada Karnay ka Tariqa

اِنَّ الْاِنْسَانَ لِرَبِّهٖ لَكَنُوْدٌۚ(۶) (پ٣٠،اَلْعٰدِیٰت:٦)

تَرْجَمَۂ کنز الایمان:بے شک آدمی اپنے ربّ کا بڑا ناشکر ہے۔

کے بارے میں فرماتے ہیں کہ'' انسان بڑاناشکراہے یعنی مصیبتیں گنتارہتا ہے اور نعمتیں بھول جاتا ہے۔ ("شکرکے فضائل "مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)جبکہ ہمارے اَسلاف کا یہ حال تھاکہ بیماری ہو یا تندرستی،آسانی ہو یا دشواری، خوشی ہو یا غمی ہر حال میں اللہعَزَّ  وَجَلَّ کے  شکرگزار رہتے۔ چنانچہ

شکر گزار بندہ

        دعوتِ اسلامی کے اِشاعَتی اِدارے مکتبۃُ المدینہ کی مَطبوعہ 303 صفحات پرمشتمل کتاب          ”آنسوؤں کا دریا“صفحہ211 پر ہے کہ اِہل دمشق میں سے ایک شخص جس کا نام اَبُوعَبْدُالرَّب تھا،یہ شخص پورے دمشق میں سب سے زیادہ مالدار تھا۔ ایک مرتبہ وہ سفر پر نکلاتو اسے ایک نہر کے کنارے کسی چراگاہ میں رات ہوگئی چنانچہ اس نے وہیں پڑا ؤ ڈال دیا۔ اسے چراگاہ کی ایک جانب سے ایک آواز سنائی دی کہ کوئی کثرت سے اللہ عَزَّ  وَجَلَّ کی تعریف کررہاتھا ۔وہ شخص اس آواز کی تلاش میں نکلا تو دیکھا کہ ایک شخص چٹا ئی میں لپٹا ہوا ہے۔ اس نے اس شخص کوسلام کیا اور اس سے پوچھا کہ تم کون ہو؟تو اس شخص نے کہا:ایک مسلمان ہوں۔ اس دمشقی نے اس سے پوچھا :یہ کیا حالت بنارکھی ہے ۔ تو اس نے جواب دیا :یہ نعمت ہے جس کا شکر ادا کرنا مجھ پر واجب ہے۔دمشقی نے کہا:تم چٹائی میں لپٹے ہوئے ہو یہ کونسی نعمت ہے؟اس نے کہا:اللہ تعالٰی نے مجھے پیدا فرمایا تو میری تخلیق کواچھا کیا اور مجھے مسلمانوں میں پیدا فرمایا اور میرے اعضاکو تندرست کیا اور جن چیزوں کا ذکر مجھے ناپسندہے انہیں چھپایا تو جو میری طر ح شام کرتاہو اس سے بڑھ کر نعمت میں کون ہوگا ۔وہ دمشقی کہتا ہے کہ میں نے ان سے کہا:اللہ عَزَّ  وَجَلَّ آپ پر رحم فرمائے، آپ میرے ساتھ چلنا پسند فرمائیں گے، ہم یہیں آپ کے