Book Name:Nematon ka Shukar Ada Karnay ka Tariqa

      میٹھے میٹھے اسلامی  بھائیو!سنا آپ نے کہ ہمارے پیارےآقا،امامُ الانبیاءصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمہم غلاموں سے کس قدرمَحبت فرماتے ہیں اورکس حَسِین انداز میں ہمیں نعمتوں کاشکر  ادا کرنے کاطریقہ ارشاد فرمارہے ہیں کہ ایک انسان کوچاہیے کہ وہ  دنیوی مُعاملات میں اپنے سے کم مرتبے والوں کو دیکھ کراللہ عَزَّ  وَجَلَّ   کا شکر بجالائے جبکہ دینی مُعاملات میں  اپنے سے بڑے مرتبے والے کو دیکھ کراس جیسابننے کی کوشش کرےنیز اس کے ساتھ ساتھ نعمت کو محفوظ رکھنے کاوظیفہ بھی ارشاد فرمادیا کہ لَاحَول شریف کی کثرت کرے۔لہٰذا انسان کوچاہیے کہ اپنے سے زیادہ مالداروں کو دیکھ کر  افسوس  نہ کرے  کہ یہ نعمتیں  میرےپاس کیوں نہیں بلکہ اللہ عَزَّ  وَجَلَّ  نے جونعمتیں عطافرمائی ہیں ان کوبھی معمولی نہ سمجھے اوراپنے سےزیادہ مفلس وغریب افرادکودیکھ کررضائے الٰہی پر راضی رہتے ہوئے صبروشکر سے زندگی بسر کرے اوراس طرح ذِہْن بنائے کہ اگراللہ عَزَّ  وَجَلَّ  نے کسی کو ہم سے زیادہ نعمتیں عطا فرمائی ہیں تواس میں اس کی کوئی حکمت ضرورپوشیدہ ہوگی،ہوسکتاہے اگر یہ نعمتیں  مجھے عطا کردی جاتیں تو شاید میرانفس سرکش ہوجاتا اور ان نعمتوں کی ناقدری کرتے ہوئے ان پر شکر  اَدا کرنے کے بجائے ناشکری کی آفت میں مبُتلا ہوجاتا،اگر ہم اس طرح ذِہْن بنائیں گے تو اِنْ شَآءَ اللہعَزَّ  وَجَلَّ ناشکری سے بچنے میں کامیاب ہوں گے۔ 

      میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!عموماً  انسا ن کی فطرت (Nature)میں یہ بات شَامل ہوتی ہے کہ وہ خوشیوں کے لمحات میں تو نعمتوں کوخوب  یاد رکھتا ہے اور اللہ عَزَّ  وَجَلَّ  کا شکر بجالاتا ہے مگر جُونہی معمولی مصیبتوں، پریشانیوں اور تکلیفوں  کا دروازہ کُھلتا ہے تووہ اللہ عَزَّ  وَجَلَّ   کی نعمتوں اوراس کی  نوازشوں کو یکسر بُھول کر ناشکری کے الفاظ اپنے مُنہ سے نکالنے لگتا ہے جیساکہ حضرت سیِّدُنا حسن بن ابوحسن  رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ اس آیت ِمبارکہ