Book Name:Jhoot ki Tabah kariyan

بَرَکت سے وہ مرتے وَقْت تک نیک رہے گا۔(4) بُرائیوں سے بچے گا۔(5) جو اللہ عَزَّ  وَجَلَّ کے نزدیک صِدّیق ہوجائے  اس کا خاتِمہ اچھا ہوتا ہے۔(6)وہ ہر قسم کے عَذاب سے مَحفُوظ رہتا ہے۔(7)ہر قسم کا ثَواب پاتا ہے۔(8) دُنیا بھی اُسے سچّا کہنے، اچھا سمجھنے لگتی ہے۔(9) ا ُس کی عزّت لوگوں کے دِلوں میں بیٹھ جاتی ہے ۔ (مرآۃ المناجیح، ج۶/۴۵۲)(10)سچ ایک ایسا نُور ہے جو سچ بولنے والوں کے دلوں کی ہدایت کا سبب بنتاہے، جس قَدَر اُنہیں اپنے رَبّ عَزَّ  وَجَلَّ کا قُرب حا صِل ہوتا ہے، اُتنا ہی اُنہیں وہ نُور حاصِل ہوتاجاتا ہے۔ (تفسیر روح البیان، پ۲۲، الاحزاب، تحت الایۃ:۳۵، ۷/۱۷۵)

میٹھے میٹھے اسلامی  بھائیو!دیکھاآپ نے سچ بولنے والے خُوش نصیب لوگ کیسے کیسے عَظِیْمُ الشّان فَضائِل اور دُنیا و آخِرت کے اِنْعامات سے سَرفَراز ہوتے ہیں ،لہٰذا اگر ہم بھی ان اِنعامات و فَضائِل کے حُصُول کے خواہِشمند ہیں تو ہمیں بھی اپنے آپ کو سچ کا خُوگر(عادی ) بنانا ہوگا۔ واقعی جہاں سچ بولنے کے اُخْرَوی فَضائل و بَرکات حاصِل ہوتے ہیں،وہیں بَسا اَوْقات بڑی بڑی دُنیوی پریشانیوں سے بھی نَجات مِل جاتی ہے ،اِس ضِمْن میں ایک نہایت اِیمان افروز حِکایت سُنئے اور حق گوئی(سچ بولنے ) کو اپنی  گُفتار کا اہم ترین حصہ بنانے کی پُخْتَہ نِیَّت کر لیجئے ۔

سچا چرواہا:

حضرتِ نافِعرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں: حضرت عبدُاللّٰہ بن عُمررَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا اپنے بعض ساتھیوں کے ساتھ ایک سفر میں تھے، راستے میں ایک جگہ ٹھہرے اور کھانے کے لیے دَسْتَرخَوان بچھایا، اِتنے میں ایک چَرواہا (یعنی بکریاں چَرانے والا) وہاں آگیا، آپرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنے فرمایا:آئیے ، دَسْتَرخوان سے کچھ لے لیجئے،عَرْض کی: میرا روزہ ہے، حضرتِ عبدُاللّٰہبن عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا: کیا تم اِس سَخْت گرمی کے دِن میں (نَفْل) روزہ رکھے ہوئے ہو، جبکہ تم ان پہاڑوں میں بکریاں   چَرا