Book Name:Aashiqon ka Hajj

        میٹھے میٹھے اسلامی  بھائیو!غالباً نَماز روزہ وغیرہ کے مقابلے میں حج میں بَہُت زیادہ بلکہ قدم قدم پر’’رِیاکاری‘‘ کےخطرات پیش آتے ہیں، حج ایک ایسی عبادت ہے جو ایک تو عَلَی الاِعْلان کی جاتی ہے اوردوسرے ہر ایک کو نصیب نہیں ہوتی ، اس لئے لوگ حاجی سے عاجِزی سے ملتے ،خوب احتِرام بجا لاتے، ہاتھ چومتے،گجرے پہناتے اور دُعاؤں کی درخواستیں کرتے ہیں۔ ایسے موقع پر حاجی سخت امتحان میں پڑ جاتا ہے کیوں کہ لوگوں کے عقیدت مندانہ سُلوک میں کچھ ایسی’’ لذّت ‘‘ہوتی ہے کہ اِس کی وجہ سے عبادت کی بڑی سے بڑی مَشَقَّت بھی پُھول معلوم ہوتی اور بسا اَوقات بندہ حُبِِّ جاہ اور رِیا کاری کی تباہ کاری کی گہرائی میں گِرچکا ہوتا ہے مگر اُسے کانوں کان اِس کی خبر تک نہیں ہوتی!(رفیق الحرمین، ص۵۶)اسی طرح بعض مالدار بار بار حج و عُمرہ کو جاتے ، اس کی گنتی خُوب یاد رکھتے، بارہا بِغیر ضَرورت بے پوچھے لوگوں کو اپنے حج و عمرہ کی تعداد بتاتے اور سفرِمدینہ کے ’’کارنامے‘‘ سُناتے ہیں، ان کو احساس تک نہیں ہوتا کہ کہیں رِیاکاری کی تباہ کاری میں نہ جا پڑیں۔(عاشقانِ رسول کی 130 حکایات،ص۱۰۸) مشہور مُحدِّث حضرتِ سیِّدُنا سُفیان ثَوری عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِیکہیں مَدعُوتھے، میزبان نے اپنے خادِم سے کہا: اُن برتنوں میں کھانا کھِلاؤ جو میں دوسری بار کے حج میں لایا ہوں،سیِّدُنا سُفیان ثَوری عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی نے سُن کر فرمایا: مسکین!تُونے ایک جُملے میں دو حج ضائِع کردیئے!( احسن الوعاء لآداب الدعاء،  ص ۱۵۷)  

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!اگر ہم کسی کے گھر  پر’’حج مُبارَک‘‘ کا بورڈ لگا دیکھیں یا کوئی اپنے نام کے ساتھ حاجی لکھتا ہوتو ہمیں ہرگز یہ بَدگُمانی نہیں کرنی چاہیے کہ یہ شخص رِیاکاری کررہا ہے۔ یادرکھئے!اپنے حج وعُمرے کی تعدادبیان کرنا ہرصُورت میں گُناہ نہیں،حدیثِ پاک  میں ہے: اِ نَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّیَات یعنی اَعمال کا دارومَدار نیّتوں پر ہے۔(بخاری ج ۱ ص ۲ حدیث ۱) اگر کوئی تَحْدِیثِ نعمت (یعنی اپنے اُوپر نعمتِ الٰہی کی خبردینے)کیلئے اپنے حج کی تعداد بیان کرے تو حَرَج نہیں، مگر عِلْم ِ دین اور صُحبتِ اَخْیار (نیک لوگوں کی صحبت) کی کمی کے باعِث فی زَمانہ اِصْلاحِ نیّت بے حد دُشواراور رِیاکاری کا خطرہ شدیدہے۔