Book Name:Aashiqon ka Hajj

(الرسالۃ القشیریۃ ، ص۱۳۵ )

حُبِّ جاہ کی لذّت عبادت کی مَشَقَّت آسان کر دیتی ہے                                   

          میٹھے میٹھے اسلامی  بھائیو!اس حکایت کا ہرگز یہ مَطلب نہیں کہ حضرتِ سَیِّدُنا ابُو محمد مُرتَعش رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہنے اپنی والدۂ مُحترمہ کا حکم نہیں  مانا بلکہ ان کا حکم  صِرْف نَفْس پر گِراں گُزراتو آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ  نے اپنا یہ ذِہْن بنا لیا کہ  اتنے سال تک حج جیسی مُشکل عبادت، میں نے صرف  نفس کے دھوکے کا شکار ہوکر اَدا کی ہے۔اس  حکایت سے مزید یہ بھی معلوم ہواکہ  ہمارے بُزرْگارنِ دین رَحِمَہُمُ اللہُ الْمُبِیْن کیسی مَدَنی سوچ رکھتے اور کس قَدَر عاجِزی کے خُوگر ہواکرتے تھے ۔ بعضوں کی عادت ہوتی ہے کہ وہ عام لوگوں سے تو جُھک جُھک کر ملتے اور اُن کیلئے بچھ بچھ جاتے ہیں مگر والِدَین ، بھائی بہنوں اور بال بچّوں کے ساتھ اُن کا رویّہ جارحانہ ،غیراَخْلاقی اور بَسااَوقات سخت دل آزار ہوتا ہے ،ایساکیوں ؟اس لئے کہ عوام میں عُمدہ اَخلاق کا مُظاہرہ مَقبولیّتِ عامّہ کا باعِث بنتا ہے جبکہ گھر میں حُسنِ سُلوک کرنے سے عزّت و شُہرت ملنے کی خاص اُمّید نہیں ہوتی!اس لئے یہ لوگ عوام میں خُوب میٹھے میٹھے بنے رہتے ہیں! اِسی طرح  جواسلامی بھائی بعض مُستَحَب کاموں کے لئے بڑھ چڑھ کرقُربانیاں پیش کر تے مگر فرائض و واجبات کی اَدائیگی میں کوتاہیاں برتتے ہیں مَثَلاً ماں باپ کی اِطاعت ،بال بچّوں کی شریعت کے مطابِق تربیّت نہیں کرتے اور خودفرض عُلُوم کے حُصُول میں غَفلت سے کام لیتے ہیں،اُن کیلئے بھی اِس حکایت میں عبرت کے نِہایت اَہَم مَدَنی پُھول ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ جن نیک کاموں میں’’ شُہرت ملتی اور واہ واہ! ہوتی ہے ‘‘وہ دُشوار ہونے کے باوُجُود بآسانی سَر اَنجام پا جاتے ہیں کیوں کہ حُبِّ جاہ (یعنی شُہرت و عزَّت کی چاہَت) کےسبب ملنے والی لذّت بڑی سے بڑی مَشَقَّت آسان کر دیتی ہے۔یادرکھئے!’’حُبِِّ جاہ‘‘ میں ہلاکت ہی ہلاکت ہے ۔عبرت کیلئے دو فرامینِ مصطَفٰےصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَسُن لیجئے:(۱)اللہ عَزَّ  وَجَلَّ کی طاعت(یعنی عبادت) کو بندوں کی طرف سے کی جانے والی تعریف