Book Name:Aashiqon ka Hajj

صاحِب حج کو جاتے اورجب لوٹ کرآتے ہیں توبِغیر کسی اچّھی نِیّت کے پوری عمارت  بَرقی قُمقُموں سے سجاتے اور گھر پر’’حج مُبارَک‘‘کا بورڈ لگاتے ہیں،بلکہ توبہ!توبہ!کئی حاجی تو اِحرام کے ساتھ خُوب تصاویر بناتے ہیں۔آخِر یہ کیا ہے؟ کیا بھاگے ہوئے مجرِم کا اپنے رَحمت والے آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں اِس طرح دُھوم دھام سے جانا مناسب ہے؟ نہیں ہرگز نہیں بلکہ رو تے ہوئے اور آہیں بھرتے ہوئے، لرزتے، کاپنتے ہوئے جانا چاہیے۔(رفیق الحرمین،ص ۴۹)

آنسوؤں کی لڑی بن رہی ہو                   اور آہوں سے پھٹتا ہو سینہ

وِردِ لَب ہو ’’مدینہ مدینہ‘‘                    جب چلے سُوئے طیبہ سفینہ

جب مدینے میں ہو اپنی آمد                    جب میں دیکھوں تِرا سبز گنبد

ہِچکیاں باندھ کر روؤں بے حد                    کاش! آجائے ایسا قرینہ

                                            (وسائلِ بخشش،ص:۱۸۸)

        میٹھے میٹھے اسلامی  بھائیو! وہ  لوگ جو بِغیراچّھی نِیّت مَحض لَذتِ نَفْس و حُبِِّ جاہ کے سبب اپنے مکان پر حج مُبارَک کا بورڈ لگاتے اور اپنے حج کا خُوب چرچا کرتے ہیں، ان کے لیےایک کمال دَرَجے کی عاجِزی پرمُشتمل حِکایت پیشِ خدمت ہے، چُنانچِہ حضرتِ سَیِّدُنا سُفیان ثَوری عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی حج کے لئے بصرہ سے پیدل نکلے۔ کسی نے عرض کی:آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ سُوار کیوں نہیں ہوتے؟ فرمایا: کیا بھاگے ہوئے غُلام کو اپنے مولاعَزَّ  وَجَلَّ کے دَربار میں صُلْح کے لئے سُواری پرجاناچاہیے؟میں اِس مُقدّس سر زمین میں جاتے ہوئے بَہُت زیادہ شَرْم محسوس کرتا ہوں۔(تَنْبِیہُ الْمُغْتَرِّیْن ص۲۶۷،از رفیق الحرمین ،ص۵۴)

اے زائرِ مدینہ تُو خوشی سے ہنس رہا ہے

دلِ غمزدہ جو لاتا تو کچھ اور بات ہوتی

(وسائل ِ بخشش،ص۳۸۵)