30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں
بیع میں شامل کیا گیا ،تو اب ان کے بدلے میں بھی ثمن قرار پائے گا۔
جامع الفصولین میں ہے:” شرى أمة عليها ثياب يباع مثلها فيها فاستحق ثوب منها أو وجد به عيباً لا يرجع المشتري على بائعه بشيء لأنه دخل في البيع تبعاً لا قصداً وهذا لو لم يذكر الثياب والشجر في البيع حتى دخلا تبعاً أما لو ذكرا كانا مبيعين قصداً لا تبعاً حتى لو فاتا قبل القبض بآفة سماوية تسقط حصتهما من الثمن “کسی نے ایک لونڈی خریدی جس پر ایسے کپڑے تھے جس طرح کے کپڑوں میں عام طور پر ان کی بیع کی جاتی ہے، پھر ان کپڑوں کا کوئی اور مستحق نکل آیا یا،اس میں کوئی عیب پایا گیا، تو خریدار بیچنے والے سے کچھ بھی واپس نہیں لے سکتا کیونکہ وہ (کپڑے) بیع میں تبعاً داخل ہوئے تھے، قصداً نہیں۔ اور یہ صورت اس وقت ہے جب بیع میں کپڑوں کا اور باغ بیچنے میں درختوں کا ذکر نہ کیا گیا ہو، یہاں تک کہ وہ تبعاً داخل ہو گئے۔ البتہ اگر ان کا ذکر کر دیا گیا ہو ،تو وہ قصدًا مبیع ہوں گے، تابع نہ ہوں گے، یہاں تک کہ اگر وہ قبضے سے پہلے کسی آفتِ سماوی کی وجہ سے تلف ہو جائیں،تو ان کی قیمت کی مقدار ثمن سے ساقط ہو جائے گی۔ (جامع الفصولين، جلد1، صفحہ 219، المطبعۃ الازھریہ)
رد المحتار میں ہے:” والأوصاف ما يدخل في البيع بلا ذكر كبناء وشجر في أرض۔۔۔۔۔۔ في جامع الفصولين إذا ذكر البناء والشجر كانا مبيعين قصدا لا تبعا “اور اوصاف وہ چیزیں ہیں جو بیع میں بغیر ذکر کے شامل ہو جاتی ہیں، جیسے زمین کی بیع میں تعمیرات اور درخت۔ اور جامع الفصولین میں ہے: اگر بیع میں عمارت اور درخت کا بھی ذکر کر دیا گیا تھا تو وہ قصداً مبیع ہوں گے، نہ کہ تابع کے طور پر ۔ (رد المحتار، جلد5، صفحہ 207، دار الفکر، بیروت)
عمارت اور کپڑے تو خارج میں موجود ظاہر و قابل انتفاع مستقل چیزیں ہیں، لیکن بیع میں بالقصد ذکر نہ کرنے کی صورت میں ان کے بدلے میں ثمن نہیں ہوتا، تو جانور کے باطن میں موجود
کتاب کا موضوع
کتاب کا موضوع