30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں
علامہ شامی مزید لکھتے ہیں:” والحاصل أن عدم جواز الوزن في الأشياء الأربعة المنصوص على أنها مكيلة إنما هو فيما إذا بيعت بمثلها بخلاف بيعها بالدراهم كما إذا أسلم دراهم في حنطة، فإنه يجوز تقديرها بالكيل أو الوزن “خلاصہ یہ ہے کہ جن چار چیزوں کے بارے میں نص وارد ہوئی ہے کہ وہ کیل والی اشیاء ہیں، ان میں وزن کے ساتھ بیچنے کا عدم جواز صرف اس صورت میں ہے جب انہیں ان کی مثل یعنی ہم جنس کے بدلے بیچا جائے۔اس کے برخلاف اگر انہیں درہم کے بدلے بیچا جائے، تو جائز ہے۔جیسے اگر کوئی درہم کے بدلے گیہوں کی بیع سلم کے طور پر خریداری کرے ،تو اس میں گیہوں کو کیل کے اعتبار سے خریدنا بھی جائز ہے اور وزن کے اعتبار سے خریدنا بھی جائز ہے۔ (رد المحتار، جلد5، صفحہ 178،دار الفکر، بیروت )
بلکہ فقہائے کرام نے یہ صراحتیں کی ہیں کہ کسی شے کا اگر ایک پیمانہ رائج اور معروف ہو لیکن خرید و فروخت کرنے والے دونوں فریق آپس میں اس پیمانے سے ہٹ کر کسی اور پیمانے کے ذریعے خرید و فروخت کریں ،تو شرعی طور پر اس میں کوئی حرج نہیں (جبکہ اس میں سود کی شکل نہ بنتی ہو)۔ اور یہاں فقہاء نے کئی ایسی امثلہ بھی بیان کی ہیں ۔
مثلاً: روٹی عددی چیز ہے،لیکن روٹی کی بیع وزن کے حساب سے کرنا، جائز ہے ۔ چنانچہ البحر الرائق میں ہے : ” وفي الفروق السلم في الخبز وزنا يجوز. اهـ. “ یعنی الفروق میں یہ مذکور ہے کہ روٹی کی بیع سلم وزن کےاعتبار سے جائز ہے۔
(البحر الرائق ، جلد6، صفحہ 169، دار الکتاب الاسلامی)
یونہی عددی متقارب چیزیں جیسے انڈے اور اخروٹ وغیرہ کے متعلق بھی فقہائے کرام نے لکھا ہے کہ اگر دو فریق وزن کے ذریعے انڈوں کی خرید وفروخت کریں، تو اس میں کوئی حرج
کتاب کا موضوع
کتاب کا موضوع