30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں
سوال نہ کرنے پر بیعت
ہمارے صَحابۂ کِرام رضی اللہ عنہم شدید فاقے بَرداشت کرتے لیکن کسی سے سوال نہیں کرتے تھے،بِالْخُصُوْص حضرتِ اَبُوہرىرہ رضی اللہ عنہ کے اِس بارے میں کئی واقعات موجود ہىں۔ بعض صَحابۂ کِرام رضی اللہ عنہم نے سرکارِ مدینہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے دَستِ مُبارَک پر اِس بات پر بىعت کى تھى کہ کسى سے سوال نہىں کرىں گے۔ بیعت کرنے والوں میں حضرتِ ثَوبان رضی اللہ عنہ بھى تھے،اگر آپ رضی اللہ عنہ سواری پر ہوتے اور آپ رضی اللہ عنہ کا چابُک (یعنی ہَنٹر) زمىن پر تشرىف لے آتا تو آپ کسى سے نہ کہتے کہ ”یہ اُٹھا کر دے دو “ بلکہ خود گھوڑے سے نىچے تشرىف لاتے اور خود اُٹھاتے۔(1)
( ابن ماجہ ،2/ 401 ، حدیث: 1837) (ملفوظات امیر اہل سنت ،1/324-325)
سوال:اگر اِسکول بیگ میں کسی بچّے کی کوئی چیز آجائے اور پتا نہ ہو کہ کس کی چیز ہے؟ تو اُس کا کیا کیا جائے؟
جواب:جب دوسرے دن کِلاس میں جائیں تو پوچھ لیں کہ کسی کی کوئی چیز گمی ہے، اگر کوئی کہے کہ ہاں! میری چیز گمی ہے تو اُس سے نشانی وغیرہ پوچھ کر اُسے دے دیں۔ نشانی وغیرہ پوچھنے کی حاجت اِس لئے ہے کہ اگر کوئی چیز بچّوں کو دِکھا کر پوچھا جائے کہ یہ کس کی ہے تو عُموماً سبھی ناسمجھ بچّے اُس کی طرف لپکیں گے اور بولیں گے کہ مجھے دو مجھے دو۔ یوں ہی بعض بچّے اگرچہ سمجھ دار ہوتے ہیں لیکن جھوٹ بولنے کے عادی ہوتے ہیں تو وہ بھی جھوٹ بولتے ہوئے کہہ دیں گے کہ یہ چیز میری ہے، اِس لئے اگر دکھائے بغیر، چیز اور اُس کی نشانی پوچھ لی جائے گی تو جس کی ہے اُسے مِل جائے گی۔ یہ بھی کیا جاسکتا ہے کہ اپنے اُستاد کو وہ چیز دے دی جائے اور بتادیا جائے کہ کسی کی یہ چیز میرے بیگ میں آگئی تھی، اب وہ حکمتِ عَمَلی سے جس کی ہے اُس تک پہنچادیں گے۔ بہرحال! بیگ میں کسی کی چیز آجائے تو اُسے رکھنے یا اِستِعمال کرنے کی اِجازت نہیں ہےبلکہ جس کی ہے اُس کو واپس کرنی ہوگی۔
(ملفوظات امیر اہل سنت ،3/458)
سوال: کیا معلوماتی پروگرامز دیکھنے سے آدمی عالِم بن سکتا ہے؟
جواب:دیکھنے سے کوئی کچھ نہیں بنتا، نفسیات کی کتابیں گدھے پر لاد دو تو وہ ماہرِ نفسیات نہیں بن جاتا۔ عِلم حاصل کرنے سے عالِم بنا جاتا ہے۔
عالِم وہ شخص ہوتا ہے جو عالِم کی شرائط پر پورا اُترے مثلاً تمام عقائد سے واقف ہو اور اس پر مستقل ہو، ضَروری مَسائل کا عِلم رکھتا ہو، اپنی ضَرورت کے مَسائل کتابوں سے نکالنے کی صَلاحیت ہو۔ (احکامِ شریعت، ص 231، حصہ: 2) یہ الگ بات ہے کہ کسی اور سے نکلوالےلیکن صَلاحیت رکھتا ہو۔ اب چاہے یہ عِلم اُستاد کے ذَریعے حاصِل کرے،کسی سے سُن کر حاصِل کرے،کتابیں پڑھ کر حاصِل کرے، معلوماتی سلسلے دیکھ کر حاصِل کرے یا کسی اور ذَریعے سے حاصِل کرے، جب اس کو عالِم کی تعریف کے مُطابق عِلم حاصِل ہو جائے گا تو یہ عالِم بن جائے گا۔ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں: سَنَد کوئی چیز نہیں عِلم ہونا چاہیے۔(فتاویٰ رضویہ، 23/783) (ملفوظات امیر اہل سنت ،4/387)
سوال:کیا دورانِ تعلیم کوئی ہُنر مَثَلاً کمپیوٹر ڈیزائننگ یا کمپوزنگ وغیرہ بھی سیکھ لینا چاہئے؟
جواب: ہُنر اور علم دونوں ہونے چاہئیں، لیکن یاد رہے!اس علم سے مُراد علمِ دین ہے یعنی سب سے پہلے فرض علوم اور اپنے ضروری عقائد سیکھے، اس کے بعد ضرورتاً علومِ آلیہ مثلاً مختلف زبانیں وغیرہ سیکھے،نیز ہُنر اور جس سے ہُنر سیکھ رہا ہے اس سے سیکھنا جائز ہو، ورنہ ہُنر تو سود کا بھی سیکھا جاتا ہے ! (ملفوظات امیر اہل سنت ،7/421)
سوال: دِینی طَلَبہ کو عبادت کے حوالے سے کیسا ہونا چاہیے ؟
جواب:آج کل عام طور پر طَلَبہ کو عِلم حاصل کرنے کے لیے جو وقت دینا ہوتا ہے اس میں بھی بے چارے پیچھے رہ جاتے ہیں۔ طَلَبہ فارغ اَوقات میں ہوٹلوں اور کباب سموسوں کی دکانوں پر مِلیں گے یا چوپال بنا کر گپیں مارتے ہوئے نظر آئیں گے،البتّہ ان میں سے جو پڑھنے کے شوقین ہوں گے اُن کے پاس ہر وقت کتاب ہوگی اور جہاں انہیں دو منٹ فارغ ملیں گے وہ کتاب کھول کر پڑھنا شروع کر دیں گے۔ میں نے بعض طَلَبہ کو دیکھا ہے کہ جب دِیگر طَلَبہ باتیں کر کے شور مچا رہے ہوتے ہیں تو وہ ان سے بے نیاز ہو کر کتاب پڑھنے میں مصروف ہوتے ہیں مگر ایسوں کے بارے میں یوں کہا جا سکتا ہے کہ لاکھوں میں کوئی طالبِ علم ایسا ہوتا ہے۔ اگر کوئی اللہ پاک کی رِضا پانے کے لیے عِلمِ دِین حاصل کرنے میں مُنْہَمِک
اور مشغول رہتا ہے تو بے شک یہ اعلیٰ دَرجے کی عبادت ہے، تاہم اُسے فرائض میں کوتاہی نہیں کرنی اور نماز بھی باجماعت پڑھنی ہے بلکہ اللہ پاک توفیق دے تو نوافل بھی پڑھنے ہیں۔(2) اللہ پاک کو اپنے بندے کی کو ن سی اَدا پسند آجائے یا اس کی خُفیہ تدبیر کیا ہے؟ اِس بارے میں ہمیں کچھ پتا نہیں، لہٰذا ہو سکتا ہے کہ ہمارا عِلمِ دِین پڑھنا پڑھانا قبول نہ ہو کیونکہ پڑھنے پڑھانے میں بے شمار خطرات ہوتے ہیں۔ بہرحال حسب ِ ضَرورت عِلم ِ دِین حاصِل کرنا ضَروری ہے اور ہمیں فرض علوم حاصِل کرنے ہی کرنے ہیں لیکن اِس سے زائد عِلم حاصِل کرکے عالِم بننا فرضِ عین نہیں ہے مگر اس کے بے شمار فضائل ہیں تو اس منزل کو بھی اِخلاص کے ساتھ ہی پانا چاہیے تاہم یہ منزل بہت کَٹِھن ہے۔
(ملفوظات امیر اہل سنت ،4/358-359)
سوال: مدرسۃُ المدینہ میں طالبِ علم جو کھانا لے کر آتا ہے اگر چھٹی ہوجائے اور وہ کھانا چھوڑ کر چلا جائے اور ڈر بھی ہو کہ کھانا خراب ہوجائے گا یا اُس پر چیونٹیاں آجائیں گی تو کیا اُسے کھانے کی اجازت ہے؟
جواب: اگر فریج (Fridge)ہے تو کھانا اُس میں بھی رکھا جاسکتا ہے۔ عُموماً سبھی طَلَبہ کا بائیو ڈیٹا(Biodata) اور گھر کا فون نمبر وغیرہ تو ہوتا ہی ہے، اِس لئے اگر یہ معلوم ہوجائے کہ ٹِفن(Tiffin) کس کا ہے؟ تو فون کرکے پوچھا جاسکتا ہے کہ اِس کھانےکا کیا کیا جائے؟ ہوسکتا ہے کہ وہ اجازت دے دیں تو پھر جو چاہے کریں۔ آج کل تو ویسے بھی کھانا پھینکنے کا کلچر(Culture) اتنا بڑھ گیا ہے کہ خدا کی پناہ!! یوں بھی ہوتا ہوگا کہ کسی کے ہاتھ میں کھانا آیا تو وہ سُستی کرجاتا ہوگا یا اندازہ لگا کر کہتا ہوگا کہ یہ کھانا تو پھینکنے والا ہے، حالانکہ وہ پھینکنے والا نہیں ہوتا ہوگا۔ بہر حال! جو خوفِ خدا رکھنے والا ہوگا وہ فیصلہ کرلے گا کہ اِس کھانے کا کیا کرنا چاہئے۔ (ملفوظات امیر اہل سنت ،3/215)
سوال:بعض طَلَبہ مدرسے کی ڈیسکوں پر لکھتے ہیں ،ایسا کرنا کیسا؟
جواب:وَقف کی ڈیسکوں پر نہیں لکھ سکتے۔بعض طَلَبہ ڈیسکوں پر ایسا گاڑھا کر کے لکھتے ہیں جو مِٹایا بھی نہیں جا سکتا حالانکہ یہ مدرسے کی ڈیسک ہے۔ اگر طالبِ علم کے والد نے بھی یہ ڈیسک دی ہوتی تب بھی اس پر لکھنے کی اِجازت نہیں تھی۔
(فتاویٰ رضویہ،9/451ماخوذاً) (ملفوظات امیر اہل سنت ،1/487-488)
سوال: بعض طالبِ علم تعلیم میں کمزور ہوتے ہیں تو پڑھائی کے شوق کے لیے کچھ مَدَنی پھول بیان فرمادیجیے۔
جواب: دُنیاوی تعلیم کے لئے سارے ہی کوششیں کر رہے ہیں۔ میڈیا، گھراور معاشرہ سب ہی دُنیاوی تعلیم کے پیچھے ہیں اس کے ساتھ بھاری فِیسیں بھی ادا کر رہے ہیں، مہنگی مہنگی کتابیں خرید رہے ہیں بعض تو پڑھنے کے لیے بیرونِ مَمالِک بھی جاتے ہیں۔ بہرحال دِینی تعلیم کے حوالے سے کافی کمزوری ہے حالانکہ دِینی تعلیم حاصل کرنے والوں کو کھانا اور رہائش وغیرہ سب مُفت دیا جاتا ہے اس کے باوجود اِس طرف لوگ نہیں آتے۔ یوں سمجھیے کہ 100 میں سے 99فیصد لوگ دُنیاوی تعلیم کی طرف جاتے ہیں اور ایک فیصد بلکہ اس سے بھی کم دِین کی طرف آتے ہیں۔ شاید ایک ہزار میں سے کوئی ایک دِینی تعلیم کی طرف آتا ہوگا۔
1… اِسی طرح کی ایک اور حدیثِ پاک کے تحت مشہور مُفَسِّر، حکیمُ الْا ُمَّت حضرتِ مفتی احمد یار خان رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں:ظاہر یہ ہے کہ یہ حکم ان ہی کے لیے خاص تھا ورنہ گِرا ہوا کوڑا کسی سے اُٹھوا لینا ناجائز نہیں۔
(مراٰۃ المناجیح،3/68)
2…حضرتِ ابو بکرکتّانی رحمۃُ اللہ علیہ نے حضرتِ جنید بغدادی رحمۃُ اللہ علیہ کو خواب میں دیکھ کر پوچھا: اللہ پاک نے آپ کے ساتھ کیا مُعاملہ کیا؟فرمایا:تحریرات اور حَوالہ جات کسی کام نہ آئے، کامیابی ان دو رَکعتوں کی بدولت مِلی جو رات کی تاریکی میں اُٹھ کر پڑھا کرتا تھا۔ (احیاء العلوم، 5/265 ۔احیاء العلوم(مترجم)، 5/658)