30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں
(9)مدینے میں اپنے بال و ناخن دفن فرمائے
حضرتِ محدِّثِ اعظم پاکستان مولانا سردار احمد رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں: فقیر نے مدینۃُ الرَّسول سے واپسی کے وَقت اپنے کچھ بال اور ناخُن مدینہ شریف میں دفن کر دیئے اور رسولِ پاک صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی جناب میں عرض کی: ’’ یَارَسُولَ اللہ ! مدینۂ پاک میں مرنا تو میرے اختیار میں نہیں البتّہ اپنے جسم کے چند اَجزا دَفن کر کے جا رہا ہوں کہ ہم غریبوں کے لئے یِہی غنیمت ہے۔‘‘ (حیات محدِث اعظم پاکستان، ص155 ماخوذاً)
جان و دل چھوڑ کر یہ کہہ کے چلا ہوں اعظمؔ آ رہا ہوں مِرا سامان مدینے میں رہے
صَلُّوا عَلَی الحَبِیب صَلَّی اللهُ علٰی مُحَمَّد
(10)اب کچھ بھی نہیں ہم کو مدینے کے سِوا یاد
مولاناقاضی مَظْہرُ الْحَق جہلمی براستہ کوئٹہ ،زاہِدان، بغداد شریف ، مدینۃُ المنوَّرہ اور دوسرے مقاماتِ مقدَّسہ کی زیارت سے مُشرَّف ہو کر حضرتِ محدِثِ اعظم پاکستان مولانا سردار احمد رحمۃُ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضِر ہوئے، جب قاضی صاحِب کا تعارُف کرایا گیا (اور عَرْض کی گئی کہ یہ مدینے کی حاضِری سے مُشرَّف ہو کر آئے ہیں ) تو قاضی صاحِب کا ہاتھ تھام لیا، آپ رحمۃُ اللہ علیہ کی آنکھوں سے آنسوبہنے لگے، اگرچِہ طبیعت کافی نادُرُست تھی، بیماری میں اِضافہ ہو چکاتھا ، لیکن اس کے باوُجُود آپ رحمۃُ اللہ علیہ اُٹھ کر بیٹھ گئے اور قاضی صاحِب سے مدینۃُ المنوَّرہ کی باتیں پوچھنے لگے، مدینۂ پاک میں رہنے والے اَحْبابِ اہل ِسنّت و جماعت کی خیریت دریافت فرمائی، مدینہ شریف کی گلیوں کی یاد آئی، گُنبدِ خضریٰ کا نورانی منظر نگاہوں میں پھرنے لگا ، مقدّس جالیوں کے جَلوے دل میں اُترنے لگے ، روضۂ اقدس کا وقار دلوں پر چھا نے لگا، تصوُّرات دیار ِ حبیبِ خدا کی نورانی وادیوں میں گم ہونے لگے اور تمام محفل کی کیفیت یہ ہو گئی کہ
غیروں کی جفا یاد نہ اپنوں کی وفا یاد اب کچھ بھی نہیں ہم کو مدینے کے سِوا یاد
(حیات محدِث اعظم پاکستان، ص155 تا156)
اللہ پاک کی اُن پر رَحمت ہو اور ان کے صَدقے ہماری بے حساب مغفِرت ہو۔
اٰمین بِجاہِ خاتَمِ النَّبِیّٖن صلّی اللہ علیهِ واٰلهٖ وسلّم
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب صَلَّی اللهُ علٰی مُحَمَّد
(11)مدینے کا مُسافِر ہند سے پہنچا مدینے میں
حضرت علّامہ مولانا سیِّد محمد نعیم الدّین مُراد آبادی رحمۃُ اللہ علیہ زبردست عاشقِ رسول تھے۔آپ کے بارے میں یہ ایمان افروز واقعہ سگِ مدینہ عُفِی عنہ کو آپ کے داماد حکیم سیِّد یعقوب علی صاحِب (مرحوم) نے سُنایا تھا: حکیمُ الْاُمَّت حضر ت مفتی احمد یار خان رحمۃُ اللہ علیہ حجِّ بَیتُ اللہ پر تشریف لے گئے ۔ جب وہ مدینۂ منوَّرہ سرکارِ نامدار صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے دربارِ گُہربار میں حاضِر ہوئے تو سنہری جالیوں کے قریب دیکھا کہ حضرتِ صَدرُ الافاضِل رحمۃُ اللہ علیہ بھی مَجمع میں موجود ہیں ۔ملاقات کی ہمت نہ ہوئی کیونکہ باادب لوگ وہاں بات چیت نہیں کر تے ۔ صلوٰۃ و سلام سے فارِغ ہونے کے بعد باہَر تلاش کیا مگرزیارت نہ ہوئی۔ حضرتِ شیخُ الفضیلت، شیخُ العَرَبِ وَالعَجَم قطبِ مدینہ سیِّدی و مولائی ضیاءُ الدِّین احمد قادِری رضوی رحمۃُ اللہ علیہ کے دربار ِفَیض آثار پر حاضِر ہوئے کہ عَرَب و عَجَم کے عُلَمائے حق اور مَشائخِ کرام حَرَمَیْنِ طیبین کی حاضِری کے دوران حضرت شیخُ الْفَضِیْلَت رحمۃُ اللہ علیہ کی زِیارت کے لئے ضَرور حاضِر ہوتے تھے۔ وہاں بھی حضرتِ صَدرُ الافاضِل رحمۃُ اللہ علیہ کے مُتَعلِّقْ کوئی معلومات حاصِل نہ ہوئیں ۔حیران تھے کہ صَدرُ الافاضِل رحمۃُ اللہ علیہ اگر تشریف لائے ہیں تو کہا ں گئے! دَرِیں اَثنا مُراد آباد (ہند) سے تار حضرت شیخُ الفضیلت رحمۃُ اللہ علیہ کے آستانِ عَرْش نِشان پر آیا کہ فُلاں دن فُلاں وقت حضرتِ صَدرُ الافاضِل مولانا نعیم ُالدِّین صاحِب رحمۃُ اللہ علیہ کا مُراد آباد میں وِصال ہو گیا ہے ۔ حضرت مفتی احمد یار خان رحمۃُ اللہ علیہ نے جب وقت مِلایا تو وُہی وقت تھا جس وقت سنہری جالیوں کے قریب صَدرُ الافاضِل رحمۃُ اللہ علیہ نظر آئے تھے ،فوراً سمجھ گئے کہ جیسے ہی اِنْتِقال فرمایا، بارگاہِ رسالَت صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم میں صلوٰۃ و سلام کے لئے حاضِر ہوگئے۔
مدینے کا مُسافِر ہند سے پہنچا مدینے میں قدم رکھنے کی نَوبَت بھی نہ آئی تھی سفینے میں
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب صَلَّی اللهُ علٰی مُحَمَّد
(12)اے مدینے کے درد تیری جگہ میرے دل میں ہے
حضر تِ مفتی احمد یار خان رحمۃُ اللہ علیہ نے 1390ھ میں حج و زیارت کی سعادت حاصِل کی، اِس ضِمْن میں سفرِ مدینہ کاایک ایمان افروز واقِعہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: میں مدینۂ منوَّرہ میں پِھسَل کر گِر گیا داہنے ہاتھ کی کلائی کی ہڈّی ٹوٹ گئی، درد زیادہ ہوا تو میں نے اُسے بوسہ دیکر کہا: اے مدینے کے درد تیری جگہ میرے دل میں ہے تُو تو مجھے یار کے دروازے سے مِلا ہے۔
تِرا درد میرا دَرماں تِرا غم مِری خوشی ہے مجھے درد دینے والے تری بندہ پَروَری ہے
دَرد تو اُسی وَقت سے غائب ہو گیا مگر ہاتھ کام نہیں کرتا تھا، 17دن کے بعد مُسْتَشْفیٰ ملک یعنی شاہی اَسْپتال میں ایکسرے لیا تو ہڈّی کے دو ٹکڑے آئے جن میں قدرے فاصِلہ ہے مگر ہم نے علاج نہیں کرایا، پھر آہِستہ آہِستہ ہاتھ کام بھی کرنے لگا، مدینۂ منوَّرہ کے اس اَسْپتال کے ڈاکٹرمحمد اسمٰعیل نے کہا کہ یہ خاص کَرِشمہ ہوا ہے کہ یہ ہاتھ طِبّی لحاظ سے حَرَکت بھی نہیں کر سکتا، وہ ایکسرے میرے پاس ہے، ہڈّی اب تک ٹوٹی ہوئی ہے، اس ٹوٹے ہاتھ سے تفسیر لکھ رہا ہوں ، میں نے اپنے اس ٹُوٹے ہوئے ہاتھ کا علاج صِرْف یہ کیا کہ آستانہ ٔ عالیہ پر کھڑے ہو کر عرض کیاکہ حضور! میرا ہاتھ ٹوٹ گیا ہے، اے عبدُ اللہ بِن عَتِیْک کی ٹُوٹی پنڈلی جوڑنے والے !اے مُعَاذ بِن عَفْراء کا ٹُوٹا بازو جوڑ دینے والے میرا ٹوٹا ہاتھ جوڑ دو۔(تفسیرِ نعیمی، 9/388) اللہ پاک کی اُن پر رَحْمت ہو اور ان کے صَدقے ہماری بے حساب مغفِرت ہو۔ اٰمین بِجاہِ خاتَمِ النَّبِیّٖن صلّی اللہ علیهِ واٰلهٖ وسلّم
چاند کو توڑ کے پھر جوڑنے والے آجا ہم بھی ٹوٹی ہوئی تقدیر لئے پھرتے ہیں
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب صَلَّی اللهُ علٰی مُحَمَّد
(13) جنّتُ البقیع میں لاشوں کے تَبادلے
حضر تِ مفتی احمد یار خان رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں :حج میں میرے ساتھ ایک پنجابی بُزُرْگ تھے جن کا نام تھا صوفی محمد حسین، وہ مجھ سے فرمانے لگے کہ ایک بار میں شاہ عبدُالحق مہا جِرالٰہ آبادی کی خدمت میں حاضِر ہوا اور عَرْض کیا کہ حدیث شریف میں تو آتا ہے کہ ’’ہمارا مدینہ بھٹی ہے جیسے کہ بھٹی لوہے کے مَیل کو نکال دیتی ہے ایسے ہی زمینِ مدینہ نااَہل کواپنے سے نکال دیتی ہے۔‘‘ حالانکہ مُرتَد اور منافق بھی مدینۂ پاک میں مر کر یہاں ہی دَفن ہو جاتے ہیں پھر اس حدیث کامطلب کیا ہے؟ شاہ صاحِب نے مجھے کان پکڑ کرنکلوا دیا! میں حیران تھا کہ مجھے کس قُصور میں نکالاگیا! رات کوخواب میں دیکھا کہ مدینۂ مُنَوَّرہ کے قبرِستان یعنی جنّتُ البقیع میں کُھدائی ہو رہی ہے اور اُونٹوں پر باہَر سے لاشیں آ رہی ہیں اوریہاں سے باہَر جارہی ہیں میں ان لوگوں کے پاس گیا اور پوچھاکہ کیاکر رہے ہو؟وہ بولے کہ ’’جو نا اَہل یہاں دَفن ہو گئے ہیں اُن کو باہَر پہنچا رہے ہیں اور عُشّاقِ مدینہ کی ان لاشوں کو جواورجگہ دَفن ہو گئی ہیں یہاں لارہے ہیں ۔‘‘ دوسرے دن پھر شاہ صاحِب کی خدمت میں حاضِر ہوا،آپ نے مجھے دیکھتے ہی فرمایا کہ اب سمجھے! حدیث کا مطلب یہ ہے اور کل تم نے اَغیار(یعنی غیروں ) میں اَسرار (یعنی بھید) پوچھے تھے جس کی تمہیں سزا دی گئی تھی۔ (تفسیرِ نعیمی،1/766) اللہ پاک کی اُن پر رَحْمت ہو اور ان کے صَدقے ہماری بے حساب مغفِرت ہو۔ اٰمین بِجاہِ خاتَمِ النَّبِیّٖن صلّی اللہ علیهِ واٰلهٖ وسلّم
بقیعِ پاک میں عطارؔ دَفن ہو جائے برائے غوث و رضا اَز پَئے ضِیا یاربّ
(وسائلِ بخشش ،ص95)
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب صَلَّی اللهُ علٰی مُحَمَّد
کتاب کا موضوع
کتاب کا موضوع