Null
دعوت اسلامی کی دینی خدمات دیگر ممالک میں بھی دیکھئے
ہسٹری

مخصوص سرچ

30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں

Seerat ul Anbiya | سیرتُ الانبیاء

book_icon
سیرتُ الانبیاء
            
باب:6

حضرت حوا رَضِیَ اللہُ عَنْہَا کی تخلیق اور نکاح

اس باب میں حضرت حوا رَضِیَ اللہُ عَنْہَا کی تخلیق، نکاح اور ان کے فضائل کابیان ہے،تفصیل کے لیے درجِ ذیل سطور ملاحظہ ہوں:

حضرت حوا رَضِیَ اللہُ عَنْہَا کی تخلیق:

ابلیس ملعون کو جنت سے نکالنےکے بعد حضرت آدم عَلَیْہِ السَّلَام کو وہاں آباد کر دیاگیا۔آپ عَلَیْہِ السَّلَام جنت میں اکیلے چلتے پھرتے تھے۔یہاں آپ عَلَیْہِ السَّلَام کا کوئی ہم جنس نہ تھا جس سے انسیت حاصل کرتے۔ ایک بار اللہ تعالیٰ نے آپ عَلَیْہِ السَّلَام پر نیندطاری کر دی، پھراسی حالت میں آپ عَلَیْہِ السَّلَام کی بائیں پسلی نکال کر اس سے حضرت حوا رَضِیَ اللہُ عَنْہَا کو تخلیق کیا اور پسلی کی جگہ گوشت رکھ دیا۔ اس عمل کے دوران آپ عَلَیْہِ السَّلَام کو کسی تکلیف کا احساس تک نہ ہوا۔ جب آپ عَلَیْہِ السَّلَام بیدار ہوئے تو اپنے سر کے پاس ایک خوبصورت خاتون کو بیٹھے ہوئے پایا۔آپ عَلَیْہِ السَّلَام نے فرمایا:تم کون ہو؟انہوں نے عرض کی:میں عورت ہوں۔فرمایا:تمہیں کیوں پیدا کیاگیا ہے؟عرض کی:اس لیے کہ آپ عَلَیْہِ السَّلَام مجھ سے سکون حاصل کریں۔فرشتوں نے آپ عَلَیْہِ السَّلَام کے علوم کی وسعت معلوم کرنےکیلیےعرض کی:ان کانام کیاہے؟ ارشادفرمایا:حوا رَضِیَ اللہُ عَنْہَا ۔عرض کی:ان کا نام ’’حوا‘‘ کیوں ہے؟ارشاد فرمایا:کیونکہ یہ ایک زندہ وجود سے پیدا کی گئی ہے۔(1) یاد رہے کہ حضرت حوا رَضِیَ اللہُ عَنْہَا چونکہ مرد وعورت والے باہمی ملاپ سے پیدا نہیں ہوئیں ا س لیے یہ حضرت آدم عَلَیْہِ السَّلَام کی اولاد نہیں ہیں۔

حضرت حوا رَضِیَ اللہُ عَنْہَا کی تخلیق کا ایک مقصد:

حضرت حوا رَضِیَ اللہُ عَنْہَا کی تخلیق کا ایک اہم مقصد یہ تھاکہ حضرت آدم عَلَیْہِ السَّلَام ان سے سکون حاصل کریں اور ان کی تنہائی دور ہو،جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: هُوَ الَّذِیْ خَلَقَكُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَةٍ وَّ جَعَلَ مِنْهَا زَوْجَهَا لِیَسْكُنَ اِلَیْهَاۚ- (2) ترجمہ :وہی ہے جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اسی میں سے اس کی بیوی بنائی تاکہ اس سے سکون حاصل کرے۔

حضرت آدم عَلَیْہِ السَّلَام کا نکاح اور مہر:

جب حضرت آدم عَلَیْہِ السَّلَام نے حضرت حوا رَضِیَ اللہُ عَنْہَا کی طرف دستِ محبت بڑھانے کا ارادہ کیا تو فرشتوں نے عرض کی:اے آدم! عَلَیْہِ السَّلَام ،ٹھہر جائیں ،پہلے ان کا مہر ادا کریں۔آپ عَلَیْہِ السَّلَام نے فرمایا: ان کا مہر کیاہے ؟ فرشتوں نے عرض کی:ان کا مہر یہ ہے کہ آپ ہمارے سردار محمد مصطفیٰ صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم پر تین یا دس مرتبہ درود پاک پڑھیں۔ (3) چنانچہ آپ عَلَیْہِ السَّلَام نے درود پڑھا اور فرشتوں کی گواہی سے آپ عَلَیْہِ السَّلَام کا حضرت حوا رَضِیَ اللہُ عَنْہَا سے نکاح ہوگیا۔اس سے معلوم ہوا کہ نبیٔ کریم صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ہر موجود چیز کے لیے وسیلہ ہیں یہاں تک کہ اپنے والد حضرت آدم عَلَیْہِ السَّلَام کا بھی وسیلہ ہیں۔ (4)

مہر سے متعلق ایک اہم مسئلہ:

درودِ پاک پڑھنے کو مہر شمار کرنا حضرت آدم عَلَیْہِ السَّلَام کے لیے تھا جبکہ ہمارے لیے حکم یہ ہے کہ درودِ پاک پڑھنا،تلاوتِ قرآن کرنا،قرآن مجیدیا علمِ دین پڑھانا اور حج و عمرہ کروانا عورت کا مہر شمار نہیں ہو سکتے۔

حضرت حوا رَضِیَ اللہُ عَنْہَا کے فضائل:

حضرت حوا رَضِیَ اللہُ عَنْہَا کو بہت سے فضائل حاصل ہیں ،جیسے: (1)آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا کی تخلیق بھی ماں باپ کے بغیرہوئی اور جنت میں ہوئی ۔ (2)انسانوں میں سب سے پہلی عورت کا اعزاز آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا کو حاصل ہے ۔ (3)آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا کا نکاح پہلے انسان اور نبی حضرت آدم عَلَیْہِ السَّلَام سے ہوا اور وہ بھی جنت میں ہوا۔ (4) آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا کا نکاح فرشتوں کی گواہی سے ہوا ۔ (5) آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا کا مہر حضور پُر نور صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم پر درود پاک پڑھنا مقرر ہوا۔ (6)آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا اُمُّ الْبَشَر یعنی حضرت آدم عَلَیْہِ السَّلَام کی تمام اولاد کی ماں ہیں۔

درس و نصیحت

صفحہ نمبر96 پرحضرت حوا رَضِیَ اللہُ عَنْہَا کی پیدائش کا مقصد یہ بیان ہوا کہ حضرت آدم عَلَیْہِ السَّلَام ان سے سکون حاصل کریں ،قرآن کریم میں دیگر عورتوں کی پیدائش کا بھی ایک مقصد یہی بیان ہوا ہے کہ شوہر ان سے سکون حاصل کرے ، لہٰذا بیوی کو چاہئے کہ وہ شریعت کے دائرے میں رہتے ہوئے ہر اعتبار سے اپنے شوہر کے آرام اور سکون کا لحاظ رکھے اور کوئی تکلیف نہ دے اور شوہر کو چاہئے کہ بیوی کو خدا کی نعمت سمجھے اور اس کے حقوق اداکرے اوراگر بیوی کی طرف سے کوئی تکلیف پہنچے تو برداشت اور صبر و تحمل کا مظاہرہ کرے۔ باب:7

حضرت آدم عَلَیْہِ السَّلَام اور شجرِ ممنوعہ

اس باب میں حضرت آدم عَلَیْہِ السَّلَام کو ایک مخصوص درخت کا پھل کھانے کی ممانعت ، شیطان کی طرف سے وسوسہ ڈالنے اور حضرت آدم عَلَیْہِ السَّلَام کےممنوعہ درخت کا پھل کھا لینے کا بیان ہے،اس کی تفصیل درج ذیل ہے۔

حضرت آدم عَلَیْہِ السَّلَام کو ابلیس کی دشمنی کے بارے خبر:

اللہ تعالیٰ نے جنت میں حضرت آدم عَلَیْہِ السَّلَام کو ابلیس کے بارے میں متنبہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اے آدم! عَلَیْہِ السَّلَام ،یہ ابلیس تیرا اور تیری بیوی کا دشمن ہے، تو یہ تم دونوں کو جنت سے نکلوا نہ دے ، اگر ایسا ہوا تو تم مشقت میں پڑجاؤگے یعنی جنت سے نکل کر زمین پر جانا پڑے گا اور پھر وہاں اپنی غذا اور خوراک کے لئے زمین جوتنے ، کاشتکاری کرنے ، دانہ نکالنے ، پیسنے ، پکانے کی محنت میں مبتلا ہو نا پڑے گا،چنانچہ سورۂ طٰہٰ میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے : یٰۤاٰدَمُ اِنَّ هٰذَا عَدُوٌّ لَّكَ وَ لِزَوْجِكَ فَلَا یُخْرِجَنَّكُمَا مِنَ الْجَنَّةِ فَتَشْقٰى(۱۱۷)(5) ترجمہ :اے آدم! بیشک یہ تیرا اور تیری بیوی کا دشمن ہے تو یہ ہرگز تم دونوں کو جنت سے نہ نکال دے ورنہ تو مشقت میں پڑجائے گا۔

حضرت آدم عَلَیْہِ السَّلَام سے جنتی نعمتوں کی اہمیت کا بیان:

انسان کو پیٹ بھر کر کھانا اورسیر ہونے کے لئے پانی مل جائے نیزتن ڈھانپنے کے لیے کپڑ ااوردھوپ سے بچنے کےلئے درختوں کا سایہ میسر آجائےتو یہ بڑی نعمتیں ہیں۔حضرت آدم عَلَیْہِ السَّلَام کو یہ نعمتیں جنت میں بغیر کسی محنت اور مشقت کے حاصل تھیں اور انسان کو ان نعمتوں کی قدراس وقت ہوتی ہے جب اسے یہ نعمتیں میسر نہ ہوں ،اس لیے اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم عَلَیْہِ السَّلَام کو شیطان کی دشمنی سے خبردار کرنے کے ساتھ ان کے سامنے جنتی نعمتوں کی اہمیت بھی بیان فرمائی کہ جنت میں آپ نہ بھوک محسوس کریں گے نہ پیاس،نہ اس میں بے لباس ہوں گے اور نہ آپ کودھوپ لگے گی، الغرض ہر طرح کا عیش و راحت جنت میں موجود ہے اور ا س میں محنت اور کمائی کرنے سے بالکل امن ہے اور اگر آپ جنت سے چلے گئے تو ان تمام نعمتوں کے حصول کے لئے آپ کو محنت و مشقت کرنا پڑے گی اس لیے آپ ابلیس کے وسوسوں سے بچ کر رہیں ۔ چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: اِنَّ لَكَ اَلَّا تَجُوْ عَ فِیْهَا وَ لَا تَعْرٰىۙ(۱۱۸) وَ اَنَّكَ لَا تَظْمَؤُا فِیْهَا وَ لَا تَضْحٰى(۱۱۹) (6) ترجمہ:بیشک تیرے لیے جنت میں یہ ہے کہ نہ تو بھوکا ہوگا اور نہ ہی ننگا ہوگا۔اور یہ کہ نہ کبھی تو اس میں پیاسا ہوگا اور نہ تجھے دھوپ لگے گی۔ اہلِ جنت کا کھانا پینا بھوک پیاس کی وجہ سے نہ ہو گا کیونکہ جنت میں بھوک اور پیاس اصلاً نہ ہو گی اور نہ ہی وہاں زندہ رہنے کے لیے کھانے پینے کی حاجت ہو گی بلکہ جنت کے تمام کھانے اور مشروبات صرف لذت کے لیے ہوں گے اور جنتی کا جب جو چیز کھانے پینے کا دل چاہے گا وہ فوراً حاضر ہو جائے گی۔

حضرت آدم عَلَیْہِ السَّلَام کو مخصوص درخت کے پاس جانے کی ممانعت:

ابلیس کو ذلیل و رسوا کر کے جنت سے نکال دینے اور حضرت حوا رَضِیَ اللہُ عَنْہَا کی تخلیق کے بعد اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم عَلَیْہِ السَّلَام اور ان کی زوجہ کو جنت میں ہی رہنے کا حکم دیا اور کسی رکاوٹ کے بغیر کہیں سے بھی کھانے کی اجازت دی البتہ ایک خاص درخت کے قریب جانے سے منع کر دیا۔ چنانچہ سورۂ بقرہ میں ہے: یٰۤاٰدَمُ اسْكُنْ اَنْتَ وَ زَوْجُكَ الْجَنَّةَ وَ كُلَا مِنْهَا رَغَدًا حَیْثُ شِئْتُمَا۪-وَ لَا تَقْرَبَا هٰذِهِ الشَّجَرَةَ فَتَكُوْنَا مِنَ الظّٰلِمِیْنَ(۳۵) (7) ترجمہ:اے آدم!تم اورتمہاری بیوی جنت میں رہو اوربغیر روک ٹوک کے جہاں تمہارا جی چاہے کھاؤ البتہ اس درخت کے قریب نہ جانا ورنہ حد سے بڑھنے والوں میں شامل ہوجاؤ گے۔ سورۂ اعراف کی آیت نمبر19 میں بھی یہی بات مذکور ہےاوریہاں جس درخت کے قریب جانے کی ممانعت فرمائی گئی وہ گندم کا درخت تھا یا کوئی اور،اس کا حقیقی علم اللہ تعالیٰ کو ہی ہے۔

حضرت آدم عَلَیْہِ السَّلَام اور وسوسۂ شیطان:

حضرت آدم عَلَیْہِ السَّلَام کو سجدہ نہ کرنے کی وجہ سے شیطان مردود ہوا تھا ،اس لیے اس نے اپنے دل میں کینہ و حسد پال لیا ، انتقام کے متعلق سوچتا رہا اور آپ عَلَیْہِ السَّلَام کو نقصان پہنچانے کی تاک میں رہا،چنانچہ موقع ملنے پراس نے حضرت آدم عَلَیْہِ السَّلَام کو وسوسہ ڈالا اور کہنے لگا: اے آدم! عَلَیْہِ السَّلَام ،کیا میں تمہیں ایک ایسے درخت کے بارے میں بتاؤں جس کا پھل کھانے والے کو دائمی زندگی حاصل ہو جاتی ہے اور کیا میں تمہیں ایسی بادشاہت کے متعلق بتادوں جو کبھی فنا نہ ہوگی اور اس میں زوال نہ آئے گا۔یہ کہہ کر شیطان نے اللہ تعالیٰ کی جھوٹی قسم کھا تے ہوئے حضرت آدم عَلَیْہِ السَّلَام سے کہا:اس درخت میں یہ تاثیر ہے کہ اس کا پھل کھانے والا فرشتہ بن جاتا ہے یا ہمیشہ کی زندگی حاصل کرلیتا ہے اور یوں وسوسوں کے ذریعے دونوں کو اس درخت سے کھانے کی طرف لے آیا ۔ حضر ت آدم عَلَیْہِ السَّلَام کے دل میں چونکہ اللہ تعالیٰ کے نام کی عظمت انتہا درجے کی تھی اس لئے آپ عَلَیْہِ السَّلَام کو گمان بھی نہ تھا کہ اللہ تعالیٰ کی قسم کھا کر کوئی جھوٹ بھی بول سکتا ہے، نیز جنت قربِ الٰہی کا مقام تھا اور حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو بھی اُس مقامِ قرب میں رہنے کا اشتیاق تھا اور فرشتہ بننے یا ہمیشہ کی زندگی مل جانے سے یہ مقام حاصل ہوسکتا تھااس لئے آپ نے شیطان کی قسم کا اعتبار کر لیا۔پھر حضرت حوا رَضِیَ اللہُ عَنْہَا اورحضرت آدم عَلَیْہِ السَّلَام نے اس درخت کا پھل کھالیا۔ حضرت آدم عَلَیْہِ السَّلَام کو پھل کھانے سے جو منع کیا گیا تھا اس ممانعت کو محض مکروہِ تنزیہی سمجھتے ہوئے اس میں سے کھایا تھا،یا پھر خاص ایک معین درخت کی ممانعت سمجھتے ہوئے اسی جنس کے دوسرے درخت سے کھایا تھا لیکن بہرحال یہ ایک اجتہادی خطا تھی جس میں گناہ نہیں ہوتا لیکن وہ بہرحال خطا ضرور ہوتی ہے۔ قرآن مجید میں حکایت کا یہ حصہ ان الفاظ کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ چنانچہ سورۂ طہٰ میں ہے: فَوَسْوَسَ اِلَیْهِ الشَّیْطٰنُ قَالَ یٰۤاٰدَمُ هَلْ اَدُلُّكَ عَلٰى شَجَرَةِ الْخُلْدِ وَ مُلْكٍ لَّا یَبْلٰى(۱۲۰) (8) ترجمہ:تو شیطان نے اسے وسوسہ ڈالا،کہنے لگا:اے آدم! کیا میں تمہیں ہمیشہ رہنے کے درخت اور ایسی بادشاہت کے متعلق بتادوں جو کبھی فنا نہ ہوگی۔ اورسورۂ اعراف میں ہے: فَوَسْوَسَ لَهُمَا الشَّیْطٰنُ لِیُبْدِیَ لَهُمَا مَاوٗرِیَ عَنْهُمَا مِنْ سَوْاٰتِهِمَا وَ قَالَ مَا نَهٰىكُمَا رَبُّكُمَا عَنْ هٰذِهِ الشَّجَرَةِ اِلَّاۤ اَنْ تَكُوْنَا مَلَكَیْنِ اَوْ تَكُوْنَا مِنَ الْخٰلِدِیْنَ(۲۰) وَ قَاسَمَهُمَاۤ اِنِّیْ لَكُمَا لَمِنَ النّٰصِحِیْنَۙ(۲۱) فَدَلّٰىهُمَا بِغُرُوْرٍ (9) ترجمہ:پھر شیطان نے انہیں وسوسہ ڈالا تاکہ ان پر ان کی چھپی ہوئی شرم کی چیزیں کھول دے اورکہنے لگاتمہیں تمہارے رب نے اس درخت سے اسی لیے منع فرمایا ہے کہ کہیں تم فرشتے نہ بن جاؤ یا تم ہمیشہ زندہ رہنے والے نہ بن جاؤ۔اور ان دونوں سے قسم کھاکر کہا کہ بیشک میں تم دونوں کا خیر خواہ ہوں۔ تو وہ دھوکا دے کر ان دونوں کو اُتار لایا۔

درخت کا پھل کھانے کے بعد حضرت آدم وحوا کا حال:

ابلیس کے وسوسہ دلانے کے بعد جب حضرت آدم عَلَیْہِ السَّلَام اور حضرت حوا رَضِیَ اللہُ عَنْہَا نے اس درخت میں سے کھالیاتوان کے جنتی لباس اتر گئے اور ان پر ان کی شرم کے مقام ظاہر ہوگئے اور وہ اپنا ستر چھپانے اور جسم ڈھانکنے کے لئے جنت کے پتے اپنے اوپر چپکانے لگے ۔ درخت کا پھل کھانےکی صورت میں حضرت آدم عَلَیْہِ السَّلَام سے اپنے رب تعالیٰ کے حکم میں لغزش واقع ہوئی اوروہ جو شیطان نے جھوٹ بول کر پھل کھانے کے فوائد بیان کئے تھے وہ سب لاحاصل رہے یعنی نہ فرشتہ بنے، اورنہ ہی دائمی زندگی ملی ، گویا جو مقصد چاہا تھا وہ نہ پایا ۔قرآن مجید میں دو مقامات پر حکایت کا یہ پہلو بیان کیا گیا ہے ،چنانچہ سورۂ اعراف میں ہے: فَلَمَّا ذَاقَا الشَّجَرَةَ بَدَتْ لَهُمَا سَوْاٰتُهُمَا وَ طَفِقَا یَخْصِفٰنِ عَلَیْهِمَا مِنْ وَّرَقِ الْجَنَّةِ (10) ترجمہ:پھر جب انہوں نے اس درخت کا پھل کھایا تو ان کی شرم کے مقام ان پر کھل گئے اور وہ جنت کے پتے ان پر ڈالنے لگے۔ اور سورۂ طہٰ میں ہے: فَاَكَلَا مِنْهَا فَبَدَتْ لَهُمَا سَوْاٰتُهُمَا وَ طَفِقَا یَخْصِفٰنِ عَلَیْهِمَا مِنْ وَّرَقِ الْجَنَّةِ٘-وَ عَصٰۤى اٰدَمُ رَبَّهٗ فَغَوٰى۪ۖ(۱۲۱) (11) ترجمہ:تو ان دونوں نے اس درخت میں سے کھالیا تو ان پر ان کی شرم کے مقام ظاہر ہوگئے اور وہ جنت کے پتے اپنے اوپر چپکانے لگے اور آدم سے اپنے رب کے حکم میں لغزش واقع ہوئی تو جو مقصد چاہا تھا وہ نہ پایا۔

حضرت آدم و حوا کو ندائے الٰہی:

درخت کا پھل کھانے کے بعدحضرت آدم عَلَیْہِ السَّلَام اور حضرت حوا رَضِیَ اللہُ عَنْہَا کو اللہ تعالیٰ نے عظمت و جلال سےخطاب فرمایا: اَلَمْ اَنْهَكُمَا عَنْ تِلْكُمَا الشَّجَرَةِ وَ اَقُلْ لَّكُمَاۤ اِنَّ الشَّیْطٰنَ لَكُمَا عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ(۲۲) (12) ترجمہ:کیا میں نے تمہیں اس درخت سے منع نہیں کیا تھا؟ اور میں نے تم سے یہ نہ فرمایا تھا کہ شیطان تمہارا کھلا دشمن ہے؟ مفسرین فرماتے ہیں کہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم عَلَیْہِ السَّلَام اور حضرت حوا رَضِیَ اللہُ عَنْہَا پر ممنوعہ کام کرنے پر عتاب فرمایا اور کھلے دشمن شیطان کے دھوکے میں آنے پر تنبیہ فرمائی اوراس عتاب کا مقصدبیان کرتے ہوئےعلامہ احمد صاوی رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں: حضرت آدم عَلَیْہِ السَّلَام سے جو کچھ ہوا یہ اگرچہ حقیقی طور پر معصیت نہیں ،اس کے باوجود آپ عَلَیْہِ السَّلَام پر عتاب فرمایا گیا کیونکہ عام نیک لوگوں کی نیکیاں مقرب بندوں کے نزدیک گناہ کا درجہ رکھتی ہیں (مراد یہ ہے کہ حضرت آدم عَلَیْہِ السَّلَام سے وہ کام ہوا جو ان کی شان کے لائق نہ تھا اس لئے عتاب فرمایا گیا )اور یہ چیز حضرت آدم عَلَیْہِ السَّلَام کی عصمت کے منافی نہیں کیونکہ جان بوجھ کر حکم الٰہی کی نافرمانی کرنا انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ السَّلَام کے حق میں محال ہے ،البتہ یہ ممکن ہے کہ ان سے اجتہاد میں خطا ہو جائے یا اللہ تعالیٰ کی طرف سے انہیں بھلا دیا جائے۔ نیز ممنوعہ درخت کا پھل کھانے میں اللہ تعالیٰ کی کچھ تکوینی حکمتیں بھی تھیں چنانچہ علامہ صاوی رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں :درخت کا پھل کھانے میں متعدد حکمتیں تھیں جیسے مخلوق کا وجود میں آنا اور دنیا کا آباد ہونا وغیرہ اوراس عظیم حکمت کیلئے اللہ تعالیٰ نے انہیں(اپنا حکم ) بھلا دیا۔ (13)

حضرت آدم و حوا کا اعترافِ خطاء:

حضرت آدم عَلَیْہِ السَّلَام اور حضرت حوا رَضِیَ اللہُ عَنْہَا نے اپنی خطا کا اعتراف کرتے ہوئے بارگاہِ الٰہی میں عرض کی: رَبَّنَا ظَلَمْنَاۤ اَنْفُسَنَاٚ- وَ اِنْ لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَ تَرْحَمْنَا لَنَكُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ(۲۳) (14) ترجمہ:اے ہمارے رب! ہم نے اپنی جانوں پر زیادتی کی اور اگر تو نے ہماری مغفرت نہ فرمائی اور ہم پر رحم نہ فرمایا تو ضرور ہم نقصان والوں میں سے ہوجائیں گے۔ بعض علماء کے نزدیک اعترافِ خطا جنت میں ہوا اور بعض علماء کے نزدیک زمین پرآمد کے بعد ہوا۔نیز اِس آیت میں اپنی جانوں پر زیادتی کرنے سے مراد’’ گناہ کرنا‘‘ نہیں بلکہ اپنا نقصان کرنا ہے اور وہ اس طرح کہ جنت کی رہائش چھوڑ کر زمین پر آنا پڑا اور وہاں کی آرام کی زندگی کی جگہ یہاں مشقت کی زندگی اختیار کرنا پڑی۔ متعلقات اس واقعہ سے متعلق 6 اہم باتیں ملاحظہ ہوں:

ابلیس حسد کی وجہ سے حضرت آدم عَلَیْہِ السَّلَام کا دشمن بنا:

علامہ اسماعیل حقی رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں :جب ابلیس نے حضرت آدم عَلَیْہِ السَّلَام پر اللہ تعالیٰ کا انعام واکرام دیکھا تو وہ ان سے حسد کرنے لگا اور اس حسد کی بنا پر وہ آپ عَلَیْہِ السَّلَام کا دشمن بن گیا۔اس سے معلوم ہوا کہ جسے کسی سے حسدہو تو وہ اس کا دشمن بن جاتا ، اس کی ہلاکت چاہتا اور اسے خراب کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ (15)

حضرت آدم عَلَیْہِ السَّلَام کو کس جنت میں رکھا گیا:

حضرت آدم عَلَیْہِ السَّلَام اسی مشہور جنت میں رکھے گئے تھے جو بعدِ قیامت نیکوں کو عطا ہو گی ،وہ کو ئی دنیاوی باغ نہ تھا اور اس کی بڑی واضح دلیل یہ ہے کہ قرآن میں ہی اللہ تعالیٰ نے فرمادیا کہ اس جنت میں نہ تمہیں دھوپ پہنچے گی اور نہ ہی بھوک پیاس اور یہ صفات باغات ِ جنت کی ہیں جبکہ دنیوی باغ خواہ کتنا ہی گھنا کیوں نہ ہو اس میں دھوپ ضرور ہوتی ہے، یہ نہیں ہوتا ہے پوراباغ ڈھکا ہوا ہواور اس میں اصلاً دھوپ نہ آئے۔

انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ السَّلَام کو ظالم کہنا کیسا ؟

حضرت آدم عَلَیْہِ السَّلَام نے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں توبہ و دعا کے وقت ’’h ‘‘ کہا یعنی ہم نے اپنی جانوں پر زیادتی کی اور اللہ تعالیٰ نے بھی آدم عَلَیْہِ السَّلَام کو ایسے ہی الفاظ سے تنبیہ فرمائی تھی لیکن یہاں یہ اہم مسئلہ یاد رہے کہ مخلوق میں سے کسی کا انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ السَّلَام کو ظالم کہنا گستاخی اورتوہین ہے اورجو انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ السَّلَام کو ظالم کہے وہ کافر ہے۔ اللہ تعالیٰ توخالق اور مالک و مولیٰ ہے، وہ اپنے بندوں کے بارے میں جو چاہے فرمائے ،کسی دوسرے کی کیا مجال کہ وہ انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ السَّلَام سے متعلق کوئی خلافِ ادب کلمہ زبان پر لائے اور اللہ تعالیٰ کے اس طرح کے خطابات کو اپنی جرأت و بیباکی کی دلیل بنائے۔ اس بات کویوں سمجھیں کہ بادشاہ کے ماں باپ بادشاہ کو ڈانٹیں اور یہ دیکھ کر شاہی محل کا جمعدار بھی بادشاہ کو انہی الفاظ میں ڈانٹنے لگے تو اس احمق کا کیا انجام ہوگا؟ ہمیں تو انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ السَّلَام اور محبوبانِ خدا کی تعظیم و توقیر اور ادب و اطاعت کا حکم دیا گیا ہے اور ہم پر یہی لازم ہے۔

شیطان کے وسوسہ ڈالنے پر ایک سوال اور اس کا جواب:

یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے ابلیس کو مردود کر کے جنت سے نکال دیا تھاتو وہ حضرت آدم عَلَیْہِ السَّلَام کو وسوسہ ڈالنے کےلیے جنت میں کیسے پہنچ گیا؟مفسرین نے اس سوال کے متعدد جوابات دئیے ہیں: (1)ابلیس سانپ کے منہ میں بیٹھ کر جنت میں داخل ہو گیا تھا۔(2)دوسراقول یہ ہے کہ ابلیس جنت میں داخل نہیں ہوا بلکہ یوں ہوا تھا کہ بعض اوقات حضرت آدم عَلَیْہِ السَّلَام اور حضرت حوا رَضِیَ اللہُ عَنْہَا بابِ جنت کے قریب تشریف لے جاتے تھے اور ابلیس جنت سے باہر دروازے کےپاس کھڑاہوتا تھا،یہاں اس نےقریب آ کر حضرت آدم عَلَیْہِ السَّلَام کو وسوسہ ڈالا۔ (3)ابلیس نے زمین پر رہتے ہوئے ہی حضرت آدم عَلَیْہِ السَّلَام کو جنت میں وسوسہ ڈال دیاتھا کیونکہ اسے اتنی طاقت ملی ہوئی تھی۔ان سب کی حقیقت اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے۔

حضرت آدم عَلَیْہِ السَّلَام کی عصمت کا بیان:

اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم عَلَیْہِ السَّلَام کو تاکیدی حکم دیا تھا کہ وہ ممنوعہ درخت کے پاس نہ جائیں لیکن یہ حکم انہیں پوری طرح یاد نہ رہا اور آپ عَلَیْہِ السَّلَام ممنوعہ درخت کے پاس چلے گئے، لیکن اس عمل میں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کا قصد نہ تھا، جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: وَ لَقَدْ عَهِدْنَاۤ اِلٰۤى اٰدَمَ مِنْ قَبْلُ فَنَسِیَ وَ لَمْ نَجِدْ لَهٗ عَزْمًا۠(۱۱۵) (16) ترجمہ:اور بیشک ہم نے آدم کو اس سے پہلے تاکیدی حکم دیا تھا تو وہ بھول گیا اور ہم نے اس کا کوئی مضبوط ارادہ نہ پایاتھا ۔ اس آیت میں صراحت ہے کہ حضرت آدم عَلَیْہِ السَّلَام نے جان بوجھ کر ممنوعہ درخت سے نہیں کھایا بلکہ اس کی وجہ اللہ تعالیٰ کا حکم پوری طرح یاد نہ رہنا تھا اور جو کام سہواً ہو وہ نہ گناہ ہوتا ہے اور نہ ہی اس پر کوئی مؤاخذہ ہوتا ہے۔اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں: قرآن عظیم کے عرف میں اطلاقِ معصیت ’’عمد‘‘ (یعنی جان بوجھ کر کرنے )ہی سے خاص نہیں، قَالَ اللہُ تَعَالٰی ’’وَ عَصٰۤى اٰدَمُ رَبَّه ‘‘ آدم نے اپنے رب کی معصیت کی۔(17)حالانکہ خود فرماتا ہے:’’ فَنَسِیَ وَ لَمْ نَجِدْ لَهٗ عَزْمًا ‘‘آدم بھول گیا ہم نے اس کا قصد نہ پایا۔(18)لیکن سہو نہ گناہ ہے نہ اس پر مؤاخذہ۔ (19) اورعلامہ احمد صاوی رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں :حضرت آدم عَلَیْہِ السَّلَام سے لغزش کا واقع ہونا ارادے اور نیت سے نہ تھا بلکہ آپ عَلَیْہِ السَّلَام کا ارادہ اور نیت حکم کو پورا کرنے اوراس چیز سے بچنے کا تھا جو جنت سے نکال دئیے جانے کا سبب بنے،لہٰذا کسی شخص کے لئے تاویل کے بغیر حضرت آدم عَلَیْہِ السَّلَام کی طرف نافرمانی کی نسبت کرنا جائز نہیں۔ اللہ تعالیٰ حضرت آدم عَلَیْہِ السَّلَام سے راضی ہے اورآپ عَلَیْہِ السَّلَام نبوت سے پہلے اور نبوت کے بعد بھی اللہ تعالیٰ کے کسی حکم کی مخالفت کرنے سے معصوم ہیں ۔ (20) نیزانبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ السَّلَام کے بارے میں ہمیں کیا عقیدہ رکھنا چاہئے اس کی وضاحت کرتے ہوئے اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں : مسلمان ہمیشہ یہ بات ذہن نشین رکھیں کہ حضرات انبیائے کرام عَلَیْہِمُ السَّلَام کبیرہ گناہوں سے مطلقاً اور گناہِ صغیرہ کے عمداً ارتکاب، اور ہر ایسے امر سے جو مخلوق کے لیے باعثِ نفرت ہو اور مخلوقِ خدا اِن کے باعث اُن سے دور بھاگے، نیز ایسے افعال سے جو وجاہت و مروت اور معزز لوگوں کی شان اور مرتبہ کے خلاف ہیں قبل ِنبوت اور بعدِ نبوت بالاجماع معصوم ہیں۔(21)

حضرت آدم عَلَیْہِ السَّلَام کی طرف نافرمانی کی نسبت کرنے کا شرعی حکم:

تلاوتِ قرآنِ کریم یا قراء تِ حدیثِ پاک کے سوا اپنی طرف سے حضرت آدم عَلَیْہِ السَّلَام یا کسی بھی نبی کی طرف معصیت کی نسبت کرنا (مثلاً فلاں نبی نے گناہ کیا یا فلاں نبی گناہگار ہے کہنا)سخت حرام بلکہ علماءِ کرام رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِم کی ایک جماعت نے اُسے کفر بتایا ہے۔اعلیٰ حضرت امام اَحمد رَضا خان رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں:غیرِتلاوت میں اپنی طرف سے سیِّدُنا آدم عَلَیْہِ السَّلَام کی طرف نافرمانی و گناہ کی نسبت حرام ہے۔ائمَّۂ دین نے اس کی تصریح فرمائی بلکہ ایک جماعتِ عُلَمائے کرام نے اُسے کفر بتایا۔ مولیٰ کو شایاں ہے کہ اپنے محبوب بندوں کو جس عبارت سے تعبیر(یعنی جو چاہے) فرمائے (مگر)دوسرا کہے تو اُس کی زبان گدی کے پیچھے سے کھینچی جائے ’’ لِلّٰهِ الْمَثَلُ الْاَعْلٰى ‘‘( اللہ کی شان سب سے بلند۔) (22) بلاتشبیہ یوں خیال کرو کہ زید نے اپنے بیٹے عمرو کو اس کی کسی لغزش یا بھول پر متنبہ (یعنی خبر دار) کرنے، ادب دینے، حَزم وعزم و احتیاطِ اتم سکھانے کے لئے مثلاًبیہودہ، نالائق، احمق، وغیرہا الفاظ سے تعبیر کیا (کہ)باپ کو اس کا اختیار تھا۔ اب کیا عمرو کا بیٹا بکر یا غلام خالد انھیں الفاظ کوسند بنا کر اپنے باپ اور آقا عمرو کو یہ الفاظ کہہ سکتا ہے؟ حاشا! (ہرگز نہیں )اگر کہے گا(تو)سخت گستاخ ومردودو ناسزا ومستحقِ عذاب و تعزیر وسزا ہو گا۔جب یہاں یہ حالت (یعنی عام باپ بیٹوں کا یہ معاملہ )ہے تو اللہ عَزَّوَجَلَّ کی ریس کر کے انبیاء عَلَیْہِمُ السَّلام کی شان میں ایسے لفظ کا بکنے والا کیونکر سخت شدید و مدید عذابِ جہنم وغضبِ الٰہی کا مستحق نہ ہوگا۔ وَالْعِیاذُ بِاللہِ تعالٰی ۔۔۔۔ امام ابو عبداللہ محمد عبدری ابن الحاج مدخل میں فرماتے ہیں:ہمارے علماء رَحِمَہُمُ اللہُ تعالٰی فرماتے ہیں کہ جو شخص انبیاء عَلَیْہِمُ السَّلام میں سے کسی نبی کے بارے میں غیرِ تلاوت و حدیث میں یہ کہے کہ انہوں نے نافرمانی یا خلاف ورزی کی تو اس کا یہ کہنا کفر ہے۔ اس(طرح کی باتوں)سے ہم خدا کی پناہ مانگتے ہیں۔ (23)

درس و نصیحت

یہاں درس و نصیحت کے طور پر 3 باتیں ملاحظہ ہوں: حسد کی مذمت:حسد شیطانی کام ہے اور یہی وہ پہلا گناہ ہے جس کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی گئی ۔حسد کی تعریف یہ ہے کہ کسی کی دینی یا دنیاوی نعمت کے زوال(یعنی چھن جانے) کی تمنا کرنا یا یہ خواہش کرنا کہ فلاں شخص کو یہ یہ نعمت نہ ملے۔حسد اتنی خطر ناک باطنی بیماری ہے کہ اس سے ایمان جیسی عظیم دولت چھن جانے کے خطرات لاحق ہو جاتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس مذموم باطنی بیماری سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے، اٰمین۔ برائی کے اسباب کی روک تھام :حضرت آدم عَلَیْہِ السَّلَام کواصل ممانعت درخت کا پھل کھانے کی تھی لیکن اس کےلئے فرمایا:’’اس درخت کے قریب نہ جانا‘‘اس طرزِ خطاب سے علماء نے یہ مسئلہ نکالا ہے کہ اصل فعل کے ارتکاب سے بچانے کےلیے اس کے قریب جانے یا قریب لیجانے والی چیزوں سے بھی روکا جاتا ہے ۔ علمی اصطلاح میں اسے سدِّ ذرائع یعنی برائی کے اسباب کی روک تھام کہتے ہیں۔ سترِ عورت انسانی فطرت میں داخل ہے:حضرت آدم عَلَیْہِ السَّلَام اورحضرت حوا رَضِیَ اللہُ عَنْہَا نے لباس جدا ہوتے ہی پتوں سے اپنا بدن ڈھانپنا شروع کردیا ، یہ اس بات کی دلیل ہے کہ پوشیدہ اعضاء کا چھپانا انسانی فطرت میں داخل ہے۔ لہٰذا جو لوگ ننگے ہونے کو فطرت کہتے ہیں ان کی فطرتیں مسخ ہوچکی ہیں۔
1البحر المحیط، البقرة، تحت الاٰیة :۳۵، ۱/۳۰۷، تفسیر طبری، البقرة، تحت الاٰیة :۳۵، ۱/۲۶۷، خازن، البقرة، تحت الاٰیة :۳۵، ۱/۴۵، ملتقطاً. 2…پ۹، الاعراف :۱۸۹. 2… حاشیة الصاوی ، ۱/۵۲. 3… حاشیة الصاوی ، ۲/۳۵۵. 3 حاشیة الصاوی ، ۱/۵۲. 4 حاشیة الصاوی ، ۲/۳۵۵. 5…پ۱۶، طه :۱۱۷. 6پ ۱۶، طه :۱۱۸، ۱۱۹ . 7پ ۱، البقرة :۳۵ . 8پ ۱۶، طه :۱۲۰ . 9 پ ۸، الاعراف :۲۰ - ۲۲ . 10پ ۸، الاعراف :۲۲ . 11 پ ۱۶، طه :۱۲۱ . 12 پ ۸، الاعراف :۲۲ . 13صاوی ، الاعراف ، تحت الاٰیة :۲۳، ۲ / ۶۶۴ . 14 پ ۸، الاعراف :۲۳ . 15 روح البیان ، طه ، تحت الاٰیة :۱۱۷ - ۱۱۹، ۵ / ۴۳۶ . 16پ ۱۶، طه :۱۱۵ . 17 پ ۱۶، طه :۱۲۱ . 18 پ ۱۶، طه :۱۱۵ . 19… فتاویٰ رضویہ،۲۹/۴۰۰. 20… صاوی،طه، تحت الاٰیة:۱۲۱، ۴/۱۲۸۳. 21…فتاویٰ رضویہ،۲۹/۳۶۰، ملخصاً. 22… پ۱۴،النحل:۶۰. 23… فتاویٰ رضویہ، ۱/۱۱۱۹، ۱۱۲۰، الجزء الثانی، ملخصاً و ملتقطاً.

کتاب کا موضوع

کتاب کا موضوع

Sirat-ul-Jinan

صراط الجنان

موبائل ایپلیکیشن

Marfatul Quran

معرفۃ القرآن

موبائل ایپلیکیشن

Faizan-e-Hadees

فیضانِ حدیث

موبائل ایپلیکیشن

Prayer Time

پریئر ٹائمز

موبائل ایپلیکیشن

Read and Listen

ریڈ اینڈ لسن

موبائل ایپلیکیشن

Islamic EBooks

اسلامک ای بک لائبریری

موبائل ایپلیکیشن

Naat Collection

نعت کلیکشن

موبائل ایپلیکیشن

Bahar-e-Shariyat

بہار شریعت

موبائل ایپلیکیشن