30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں
حضرت محمد صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
سید الانبیاء،احمد مجتبیٰ،حبیب خدا،محمد مصطفیٰ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم وہ عظیم ہستی ہیں جن کی سیرت اور اوصاف کا بیان چند صفحات میں ممکن نہیں بلکہ اس کے لیے ہزارہا صفحات بھی ناکافی ہیں، کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے:
زندگیاں ختم ہوئیں اور قلم ٹوٹ گئے پر تیرے اوصاف کا اک باب بھی پورا نہ ہوا
آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی سیرت طیبہ کےلئے اِنْ شَاءَ اللہ ایک جداگانہ کتاب لکھی جائے گی ، یہاں صرف تکمیلِ عدد کے لیے سیرتِ مبارکہ کا مختصر خلاصہ ملاحظہ ہو،یہ خلاصہ حضرت علامہ عبد المصطفیٰ اعظمی کی مشہور کتاب ’’سیرتِ مصطفیٰ‘‘ اور دیگر علماءِ کرام کے مضامین سے اخذ کیاگیا ہے۔
نسب نامہ:
آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کےوالد ماجد کا نام عبد اللہ اور والدہ کا آمِنہ ہے۔والد کی طرف سے نسب یوں ہے:محمد بن عبداللہ بن عبد المطلب بن ہاشم بن عبدِمناف بن قُصَی بن کلاب بن مرہ بن کعب بن لوی بن غالب بن فہر بن مالک بن نضر بن کنانہ بن خزیمہ بن مدرکہ بن الیاس بن مضر بن نزار بن معد بن عدنان۔(1) والدہ کی طرف سے نسب یوں ہے:محمد بن آمِنہ بنتِ وہب بن عبدِ مناف بن زہرہ بن کلاب بن مرہ ۔(2)
یہاں دو باتیں قابلِ توجہ ہیں : (1)حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے والدین کا نسب نامہ ’’ کلاب بن مرہ ‘‘ پر مل جاتا ہے اور آگے چل کردونوں سلسلے ایک ہو جاتے ہیں۔(2)’’ عدنان‘‘ تک کا نسب نامہ صحیح سندوں کے ساتھ ثابت ہے،اس کے بعد ناموں میں بہت اختلاف ہے،حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم جب بھی اپنا نسب نامہ بیان فرماتے تو ’’عدنان‘‘ تک ہی ذکر فرماتے تھے،البتہ اس پر تمام مؤرخین کا اتفاق ہے کہ ’’عدنان‘‘ حضرت اسماعیل عَلَیْہِ السَّلَام کی اولاد میں سے ہیں، اور حضرت اسماعیل عَلَیْہِ السَّلَام حضرت ابراہیم عَلَیْہِ السَّلَام کے فرزند ارجمند ہیں۔
خاندانی شرافت:
حضورِاکرم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا خاندان اور نسب،عظمت و شرافت میں دنیا کے تمام خاندانوں سے اشرف و اعلیٰ ہے اور یہ وہ حقیقت ہے جس کا آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے بدترین دشمن بھی کبھی انکار نہ کر سکے۔ چنانچہ حضرت ابو سفیان رَضِیَ اللہُ عَنْہ نے جب وہ کفر کی حالت میں تھے ،بادشاہِ روم ہر قل کے بھرے دربار میں اس حقیقت کا اقرار کیا کہ ’’ ھُوَ فِیْنَاذُوْنَسَبٍ ‘‘ یعنی نبی اکرم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ہم میں سےاعلیٰ ترین خاندان والے ہیں۔ (3)
برکاتِ نبوت کا ظہور:
جب آفتابِ رسالت کے طلوع کا زمانہ قریب آ گیا تواطراف عالم میں بہت سے عجیب و غریب واقعات کا ظہور ہوا،چنانچہ اصحابِ فیل کی ہلاکت کا واقعہ، ناگہاں بارانِ رحمت سے سرزمینِ عرب کا سر سبز و شاداب ہو جانا،اور برسوں کی خشک سالی دور ہو کر پورے ملک میں خوشحالی کا دور دورہ ہو جانا، بتوں کا منہ کے بل گر پڑنا، فارس کے مجوسیوں کی ایک ہزار سال سے جلائی ہوئی آگ کا ایک لمحہ میں بجھ جانا، شام اور کوفہ کے درمیان وادی ’’سماوہ‘‘ کی خشک ندی کا اچانک جاری ہو جانا،حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی والدہ کے بدن سے ایک ایسے نور کا نکلنا جس سے’’بُصریٰ‘‘کے محل روشن ہو گئے۔یہ سب واقعات اسی سلسلہ کی کڑیاں ہیں جو حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی تشریف آوری سے پہلے ہی ’’بشارت‘‘ بن کر عالمِ کائنات کو سرورِ دو جہاں صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی آمد کی خوشخبری دینے لگے ۔
ولادتِ باسعادت:
آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی تاریخِ ولادت سے متعلق مختلف اقوال ہیں ،ان میں سے مشہور قول یہی ہے کہ اصحابِ فیل کے واقعہ سے 55 دن بعد 12ربیع الاول مطابق 20 ا پر یل 571 ء کو آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ، پاکیزہ بدن، ناف بریدہ، ختنہ کئے اور خوشبو میں بسے ہوئے، مکۂ مکرمہ کی مقدس سرزمین پر اپنے والد ماجد کے مکان عالیشان میں جلوہ گر ہوئے اور پیدا ہوتے ہی سجدہ فرمایا۔
آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے چچا ابو لہب کی لونڈی’’ ثُویبہ‘‘ خوشی میں دوڑتی ہوئی گئی اورابو لہب کو بھتیجا پیدا ہونے کی خوشخبری دی تو اُس نے اِس خوشی میں شہادت کی انگلی کے اشارہ سے ’’ ثُویبہ‘‘ کو آزاد کر دیا جس کا ثمرہ ابو لہب کو یہ ملاکہ اس کی موت کے بعد اس کے گھر والوں نے اسے خواب میں دیکھااور حال پوچھا،تو اس نے اپنی انگلی اٹھا کر کہا: تم لوگوں سے جدا ہونے کے بعد مجھے کچھ(کھانے پینے کو) نہیں ملا سوائے اس کے کہ ’’ثُویبہ‘‘کو آزاد کرنے کی وجہ سے اس انگلی کے ذریعہ کچھ پانی پلا دیا جاتاہوں۔(4)
سُبْحَانَ اللہ ! حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی ولادت کی خوشی منانے پر ابولہب جیسا ازلی بد بخت اور بدترین کافر بھی اچھا صلہ ملنے سے محروم نہ رہا تواس مسلمان کا کیا حال ہو گا جو آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی محبت سے سرشار ہو کر شریعت کی حدود میں رہتے ہوئے ولادتِ مصطفیٰ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خوشی منائے اور اپنا مال خرچ کرےگا۔
نام مبارک:
جب آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی ولادت ہوئی اس وقت آپ کے دادا حضرت عبد المطلب رَضِیَ اللہُ عَنْہ طوافِ کعبہ میں مشغول تھے۔ خوشخبری سن کر آپ خوشی خوشی حرمِ کعبہ سے اپنے گھر آئے اور والہانہ جوشِ محبت میں اپنے پوتے کو سینے سے لگا لیا۔ پھر کعبہ میں لے جا کر خیروبرکت کی دعا مانگی اور ’’محمد‘‘نام رکھا۔(5)
دودھ پینے کازمانہ:
سب سے پہلے حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ابو لہب کی لونڈی ’’ ثویبہ‘‘ کا دودھ نوش فرمایا ،پھر اپنی والدہ ماجدہ حضرت آمنہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا کے دودھ سے سیراب ہوتے رہے، پھر حضرت حلیمہ سعدیہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا آپ کو اپنے ساتھ لے گئیں اور اپنے قبیلہ میں رکھ کر آپ کو دودھ پلاتی رہیں اور انہیں کے پاس آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے دودھ پینے کا زمانہ گزرا۔(6)
بچپن کی ادائیں:
آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا جھولا فرشتوں کے ہلانے سے ہلتا اور جھولے میں چاند کی طرف انگلی اٹھا کر جس طرف اشارہ فرماتے چاند اسی طرف جھک جاتا تھا۔
چاند جھک جاتا جدھر اٹھتی تھی انگلی مہد میں کیا ہی چلتا تھا اشاروں پر کھلونا نور کا
بچوں کی عادت کے مطابق کبھی بھی آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے کپڑوں میں بول و براز نہیں فرمایا، بلکہ ہمیشہ ایک معین وقت پر رفعِ حاجت فرماتے۔ جب آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اپنے پاؤں پر چلنے کے قابل ہوئے تو باہر نکل کر بچوں کو کھیلتے ہوئے دیکھتے مگر خود کھیل کود میں شریک نہ ہوتے۔ لڑکے آپ کو کھیلنے کے لئے بلاتے تو آپ فرماتے : مجھے کھیلنے کے لئے پیدا نہیں کیا گیا ۔
پرورش:
جب حضوراقدس صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم حضرت حلیمہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا کے گھر سے مکہ مکرمہ پہنچ گئے اور اپنی والدہ محترمہ کے پاس رہنے لگے تو آپ کے والد ماجد کی باندی حضرت امِ ایمن رَضِیَ اللہُ عَنْہَا آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خاطر داری اور خدمت گزاری کرتیں ،یہی آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو کھانا کھلاتی، کپڑے پہناتی اور آپ کے کپڑے دھویا کرتی تھیں۔
جب حضوراقدس صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی عمر شریف 6 سال کی ہو گئی تو آپ کی والدہ ماجدہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو ساتھ لے کر مدینۂ منورہ تشریف لے گئیں۔حضرت امِ ایمن رَضِیَ اللہُ عَنْہَا بھی اس سفرمیں آپ کے ساتھ تھیں، وہاں سے واپسی پر ’’ابواء‘‘نامی گاؤں میں حضرت آمنہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا کی وفات ہو گئی اور وہیں ان کی تدفین ہوئی۔ حضرت امِ ایمن رَضِیَ اللہُ عَنْہَا آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو مکۂ مکرمہ لائیں اورحضرت عبدالمطلب کے سپرد کر دیا۔ دادا جان نے آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو اپنی آغوشِ تربیت میں انتہائی شفقت و محبت کے ساتھ پالااور حضرت امِ ایمن رَضِیَ اللہُ عَنْہَا بھی آپ کی خدمت کرتی رہیں۔ جب آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی عمر مبارک 8 سال کی ہو گئی توحضرت عبدالمطلب کا بھی انتقال ہو گیا۔ان کی وفات کے بعد آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے چچا ابوطالب نے آپ کو اپنی آغوشِ تربیت میں لے لیا اور حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی نیک خصلتوں اور دل لبھا دینے والی بچپن کی پیاری پیاری اداؤں نے ابوطالب کو آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا گرویدہ بنا دیا۔ابو طالب کا بیان ہے کہ میں نے کبھی بھی نہیں دیکھا کہ حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کسی وقت بھی کوئی جھوٹ بولے ہوں ،یا کبھی کسی کو دھوکہ دیا ہو، یا کبھی کسی کو کوئی ایذا پہنچائی ہو، یا بیہودہ لڑکوں کے پاس کھیلنے کے لئے گئے ہوں، یا کبھی کوئی خلافِ تہذیب بات کی ہو۔ ہمیشہ انتہائی خوش اخلاق، نیک اطوار، نرم گفتار، بلند کردار اور اعلیٰ درجہ کے پارسا اور پرہیز گار رہے۔
کاروباری مصروفیت:
تجارت آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا خاندانی پیشہ تھا،13سال کی عمر میں آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے پہلی بار اپنے چچا ابو طالب کے ساتھ ملکِ شام کاتجارتی سفر فرمایا، جبکہ تقریباً25سال کی عمر میں بغرضِ تجارت حضرتِ خدیجہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا کا مال لے کر اُن کے غلام میسرہ کے ساتھ ملکِ شام کا دوسرا سفراختیارکیا اور خوب نفع کما کر واپس تشریف لائے۔
جوانی میں غیر معمولی کردار:
حضور اقدس صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے بچپن کا زمانہ ختم ہوا اور جوانی کا زمانہ آیا تو بچپن کی طرح آپ کی جوانی بھی عام لوگوں سے نرالی تھی۔ آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا شباب مجسم حیا اور چال چلن عصمت و وقار کا کامل نمونہ تھا۔ اعلانِ نبوت سے پہلے بھی آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی ذات مبارکہ بہترین اخلاق و عادات کا مجموعہ تھی۔ سچائی، دیانتداری، وفاداری، عہد کی پابندی، بزرگوں کی عظمت، چھوٹوں پر شفقت، رشتہ داروں سے محبت، رحم و سخاوت ،قوم کی خدمت، دوستوں سے ہمدردی،عزیزوں کی غمخواری، غریبوں اور مفلسوں کی خبرگیری، دشمنوں کے ساتھ نیک برتاؤ، مخلوقِ خدا کی خیرخواہی، غرض تمام نیک خصلتوں اور اچھی اچھی باتوں میں آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اتنی بلند منزل پر پہنچے ہوئے تھے کہ دنیا کے بڑے سے بڑے انسانوں کیلئے وہاں تک رسائی ممکن نہیں ہے۔کم بولنا، فضول باتوں سے بچنا ، خندہ پیشانی اور خوش روئی کے ساتھ دوستوں اوردشمنوں سے ملنا، ہر معاملہ میں سادگی اور صفائی حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا خاص شیوہ تھا۔حرص، طمع، دغا، فریب، جھوٹ اور دیگر اخلاقی و معاشرتی خرابیوں سے حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی ذات گرامی پاک صاف رہی۔ آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی راست بازی اور امانت و دیانت کا لوگوں میں شہرہ تھا اور مکہ کے ہر چھوٹے بڑے کے دل میں آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے برگزیدہ اخلاق کااعتبار اور سب کی نظروں میں آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا ایک خاص وقار تھا۔
نکاح وازواجِ مطہرات:
آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نےچارسےزائد نکاح فرمائے اور یہ آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خصوصیت ہے، کسی امتی کے لیے ایک ہی وقت میں چار سے زائد عورتوں سے نکاح حلال نہیں۔ پہلا نکاح پچیس سال کی عمر میں حضرت خدیجہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا سے فر مایااور جب تک وہ حیات رہیں دوسرا نکاح نہ فرمایا،ان کی وفات کے بعد مزید ان خواتین کو آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی ازواج مطہرات بننے کا شرف حاصل ہوا (1)حضرتِ سَودَہ(2)حضرتِ عائشہ(3) حضرتِ حَفْصہ (4)حضرتِ اُمِّ سَلَمہ (5)حضرتِ اُمِّ حبیبہ (6) حضرت زینب بنتِ جَحش (7)حضرتِ زینب بنتِ خُزیمہ (8) حضرت میمونہ(9)حضرتِ جُویریہ (10) حضرتِ صَفِیّہ رَضِیَ اللہُ عَنْہُنَّ ۔ان کے علاوہ آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی تین باندیاں بھی تھیں جن کے نام یہ ہیں:(1)حضرتِ مارِیہ قِبْطِیَّہ (2) حضرتِ رَیحانہ (3)حضرتِ نفیسہ رَضِیَ اللہُ عَنْہُنَّ ۔
اولاد:
آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کےتین شہزادے:(1)حضرت قاسم(2)حضرت عبدُ اللہ اور (3) حضرت ابراہیم رَضِیَ اللہُ عَنْہُم اور چارشہزادیاں تھیں:(1)حضرتِ زینب (2) حضرتِ رُقیّہ(3)حضرتِ اُمّ کُلثوم (4)حضرتِ فاطمۃُ الزّہراء رَضِیَ اللہُ عَنْہُنَّ ۔آپ کی تمام اولاد مبارک حضرتِ خدیجہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا سے ہوئی البتہ حضرتِ ابراہیم رَضِیَ اللہُ عَنْہ حضرتِ ماریہ قبطیہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا کے شکمِ اطہر سے پیدا ہوئے۔
عبادت وریاضت اور پہلی وحی کا نزول:
جب حضورِانور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی مقدس زندگی کا چالیسواں سال شروع ہوا تو آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کامزاج مبارک خلوت پسند ہو گیا اورآپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم تنہائی میں جاکر خدا کی عبادت میں زیادہ سے زیادہ وقت گزارنے لگے۔تفکر و تدبر بڑھ گیا نیز آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو اچھے اچھے خواب نظر آنے لگے اور آپ کا ہر خواب اتنا سچا ہوتا کہ خواب میں جو کچھ دیکھتے اس کی تعبیر صبحِ صادق کی طرح روشن ہو کر ظاہر ہو جایا کرتی تھی۔
مکۂ مکرمہ سے تقریباً تین میل کی دوری پر ’’جبلِ حراء‘‘ نامی پہاڑ کے اُوپر ایک غارہے جسے’’غارِ حراء‘‘کہتے ہیں۔ آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اکثر کئی کئی دنوں کا کھانا پانی ساتھ لے کر اس غار کے پرسکون ماحول کے اندر خدا کی عبادت میں مصروف رہا کرتے ،جب کھانا پانی ختم ہو جاتا تو کبھی خود گھر پر آکر لے جاتے اور کبھی حضرت خدیجہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا کھانا پانی غار میں پہنچا دیا کرتی تھیں۔اسی غار میں آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم پر پہلی وحی نازل ہوئی۔ آج بھی یہ نورانی غار اپنی اصلی حالت میں موجوداور زیارت گاہ خلائق ہے۔
اِعلانِ نبوت ودعوتِ اِسلام:
چالیس سال کی عمر میں ہی آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اِعلانِ نبوت فرمایا، پھرتین سال تک پوشیدہ طورپر تبلیغِ اسلام کا فریضہ سرانجام دیتے رہے، خواتین میں سب سے پہلے آپ کی زوجہ حضرت خدیجۃُ الکبریٰ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا ،مَردوں میں سب سے پہلےحضرت ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ عَنْہ اور بچوں میں سب سے پہلےحضرت علیُّ المرتضیٰ شیرِخدا رَضِیَ اللہُ عَنْہ اسلام لائے، پھرحضرت عثمانِ غنی،حضرت زبیر بن عوام،حضرت عبدالرحمٰن بن عوف، حضرت سعد بن ابی وقاص حضرت طلحہ بن عُبَیدُ اللہ رَضِیَ اللہُ عَنْہُم بھی دامنِ اِسلام میں آگئے۔ تین سال کے بعدآپ نے رب تعالیٰ کے حکم سے اپنے قبیلے والوں کوجمع کرکے دعوتِ اسلام دی اور عذابِ الٰہی سے ڈرایا، لیکن انہوں نے دعوت قبول کرنے سے انکار کردیا اور ناراض ہوکر نہ صرف چلے گئے بلکہ آپ کے خلاف اَول فَول بکنے لگے۔
اعلانیہ دعوتِ اسلام اور کفار کا ظلم وستم:
اِعلانِ نبوت کے چوتھے سال آپ علانیہ طور پر دینِ اسلام کی تبلیغ اور شرک وبت پرستی کی کھلم کھلا برائی بیان فرمانے لگے جس کی وجہ سے کفار آپ کی مخالفت پر کمربستہ ہوگئے۔یہ لوگ خاندان بنو ہاشم کے انتقام اور لڑائی بھڑک اٹھنے کے خوف سے حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کوشہید تونہ کرسکے لیکن طرح طرح کی تکلیفوں اور ایذا رسانیوں سے آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم پر ظلم و ستم کا پہاڑ توڑنے لگے۔ چنانچہ سب سے پہلے توآپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے کاہن،جادوگر،شاعر،مجنون ہونے کا پروپیگنڈہ کرنے لگے۔ آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے پیچھے شریر لڑکوں کا غول لگا دیاجو راستوں میں آپ پر پھبتیاں کستے، گالیاں دیتے اور یہ دیوانہ ہے، یہ دیوانہ ہے ،کا شور مچا مچا کر آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے اوپر پتھر پھینکتے۔ کبھی کفارِ مکہ آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے راستوں میں کانٹے بچھاتےاورکبھی دھکے دیتے۔ رحمتِ عالم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے ساتھ ساتھ غریب مسلمانوں پر بھی کفارِ مکہ نے ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے۔
ہجرتِ حبشہ:
کفارِ مکہ نے جب اپنے ظلم و ستم سے مسلمانوں پر عرصۂ حیات تنگ کر دیا تو حضوراقدس صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے مسلمانوں کو ’’حبشہ‘‘ جا کر پناہ لینے کا حکم دیا۔حبشہ کے بادشاہ کا نام ’’اصحمہ‘‘ اور لقب ’’نجاشی‘‘تھا۔ یہ عیسائی دین کا پابند مگر بہت ہی انصاف پسند اور رحم دل تھااور تورات و انجیل وغیرہ آسمانی کتابوں کا بہت ہی ماہر عالم تھا۔اعلانِ نبوت کے پانچویں سال رجب کے مہینے میں گیارہ مرد اور چار خواتین نے حبشہ کی جانب ہجرت کی۔یہاں کفار مکہ کے مسلمان ہونے کی خبر سن کر کچھ حضرات واپس مکہ آئے لیکن خبر غلط نکلی ،جس کے بعد کچھ دوبارہ حبشہ چلے گئے اور کچھ مکہ میں ہی روپوش ہو گئے جنہیں کفار مکہ نے ڈھونڈ نکالا اور پہلے سے بھی زیادہ ان پر ظلم و ستم کرنے لگے، پھر کچھ عرصہ بعد حبشہ سے واپس آنے والے اور دیگر مظلوم مسلمانوں نے حبشہ کی طرف ہجرت کی ، یہ کل83 مرد اور 18 خواتین تھیں۔
شَعبِ ابی طالب میں محصوری:
آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے چچا حضرت حمزہ اورحضرت عمر رَضِیَ اللہُ عَنْہُمَا کے قبولِ اسلام سے دِینِ اسلام کو بہت تقویت ملی، لیکن پھر بھی کفارکی مخالفت ختم نہ ہوئی بلکہ دن بدن بڑھتی ہی گئی۔اعلانِ نبوت کے ساتویں سال کفارنے آپ کے خاندان والوں کا مکمل بائیکاٹ کر کے ایک پہاڑ کی گھاٹی تک محصورکردیا جسے ’’شعبِ ابی طالب‘‘ کہا جاتا ہے۔مسلسل تین سال تک حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اور خاندان بنو ہاشم ہوش ربا مصائب کو جھیلتے رہے یہاں تک کہ خود قریش کے کچھ رحم دل لوگوں کو بنو ہاشم کی ان مصیبتوں پررحم آگیااوران لوگوں نے اس ظالمانہ معاہدہ کو توڑنے کی تحریک اٹھائی جس کی ابو جہل نے مخالفت کی۔آخر میں حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی دی ہوئی غیبی خبر پر اس معاملے کا فیصلہ ہوا اور بنو ہاشم کو اس محصوری سے نجات ملی۔
غم کا سال:
حضورِاقدس صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ’’شعبِ ابی طالب‘‘ سے نکل کر اپنے گھر میں تشریف لائے اور چند ہی روز کفار قریش کے ظلم و ستم سے کچھ امان ملی تھی کہ گھاٹی سے باہر آنے کے آٹھ مہینے بعد ابو طالب کی وفات ہوگئی۔آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے قلب مبارک پر ابھی یہ زخم تازہ ہی تھا کہ ابو طالب کی موت کے تین یا پانچ دن بعد حضرت خدیجہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا بھی دنیا سے رحلت فرما گئیں۔ابو طالب كی اور حضرت خدیجہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا کی وفات سے آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے مددگار اور غمگسار دونوں ہی دنیا سے اٹھ گئے جس سے آپ کے قلبِ نازک پر اتنا عظیم صدمہ گزرا کہ آپ نے اس سال کا نام ’’عامُ الحزن‘‘ یعنی غم کا سال رکھ دیا۔
طائف وغیرہ کا سفر:
مکہ والوں کے عناد اور سرکشی کو دیکھتے ہوئے جب حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو ان لوگوں کے ایمان لانے کی امید نظر نہ آئی تو آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے تبلیغِ اسلام کے لئے مکہ کے قرب و جوار کی بستیوں کا رُخ کیا۔ چنانچہ اس سلسلہ میں طائف کا بھی سفر فرمایا۔ اس سفر میں حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے غلام حضرت زید بن حارثہ رَضِیَ اللہُ عَنْہ بھی آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے ہمراہ تھے۔ طائف میں بڑے بڑےمالدار اور رئیس لوگ رہتے تھے۔ ان رئیسوں میں عمرو کا خاندان تمام قبائل کا سردار شمار کیا جاتا تھا۔ یہ لوگ تین بھائی تھے:عبدیالیل،مسعود،حبیب۔ حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ان تینوں کے پاس تشریف لے گئے اور اسلام کی دعوت دی۔ ان تینوں نے اسلام قبول نہ کیا بلکہ انتہائی بیہودہ اور گستاخانہ جواب دیا۔ ان بدنصیبوں نے اسی پر بس نہیں کیابلکہ طائف کے شریر غنڈوں کو ابھاراکہ حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے ساتھ برا سلوک کریں ۔چنانچہ یہ شریر گروہ ہر طرف سے آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم پر ٹوٹ پڑا اور یہ شرپسند آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم پر پتھر برسانے لگے یہاں تک کہ آپ کے مقدس پاؤں زخموں سے لہولہان ہو گئےاور آپ کے موزے اور نعلین مبارک خون سے بھر گئے۔ جب آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم زخموں سے بے تاب ہو کر بیٹھ جاتے تو یہ ظالم انتہائی بے دردی کے ساتھ آپ کا بازو پکڑ کر اٹھاتے اورجب آپ چلنے لگتے تو پھر آپ پر پتھروں کی بارش کرتے اور ساتھ ساتھ طعنہ زنی کرتے، گالیاں دیتے، تالیاں بجاتےاور ہنسی اڑاتے۔ حضرت زید بن حارثہ رَضِیَ اللہُ عَنْہ دوڑ دوڑ کر حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم پر آنے والے پتھروں کو اپنے بدن پر لیتے تھے اور حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو بچاتے تھے یہاں تک کہ وہ بھی خون میں نہا گئے اور زخموں سے نڈھال ہو کر بے قابو ہو گئے۔ آخرکار آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے انگور کے ایک باغ میں پناہ لی۔ یہ باغ مکہ کے ایک مشہور کافر عتبہ بن ربیعہ کا تھا۔ حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا یہ حال دیکھ کر عتبہ بن ربیعہ اور اس کے بھائی شیبہ بن ربیعہ کو آپ پر رحم آگیا اور کافر ہونے کے باوجود خاندانی حمیت نے جوش مارا۔ چنانچہ ان دونوں کافروں نے حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو اپنے باغ میں ٹھہرایا اور اپنے نصرانی غلام عداس کے ہاتھ سے آپ کی خدمت میں انگور کا ایک خوشہ بھیجا۔ حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے بِسْمِ اﷲ پڑھ کر خوشہ کو ہاتھ لگایاتو عداس تعجب سے کہنے لگا: اس اطراف کے لوگ تو یہ کلمہ نہیں بولا کرتے۔ حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اس سے دریافت فرمایا کہ تمہارا وطن کہاں ہے؟ عداس نے کہا : میں شہر نینویٰ کا رہنے والا ہوں۔ آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا: وہ حضرت یونس بن متی عَلَیْہِ السَّلَام کا شہر ہے۔ وہ بھی میری طرح اللہ تعالیٰ کے پیغمبر تھے۔ یہ سن کر عداس آپ کے ہاتھ پاؤں چومنے لگا اور فوراً ہی آپ کا کلمہ پڑھ کر مسلمان ہو گیا۔
اہلِ مدینہ کا قبولِ اسلام:
حج کے موقع پر آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم مختلف علاقوں سے آئے ہوئے قبائل کو دعوتِ اسلام دیتے اورہر سال کچھ لوگ اِسلام قبول کرلیتے۔اعلانِ نبوت کے گیارہویں سال خزرج قبیلے کے 6 افراد نے اسلام قبول کیا،بارہویں سال 12 اشخاص نے قبولِ اسلام کی سعادت حاصل کی اور حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے بیعت ہوئے،تاریخِ اسلام میں اس بیعت کا نام ’’بیعتِ عقبہ اولیٰ ‘‘ہے۔تیرہویں سال مدینے سے آئے ہوئے 72افراد نے اِسلام قبول کیا اور بیعت کی،اسے ’’بیعتِ عقبہ ثانیہ ‘‘ کہتے ہیں۔اسلام قبول کرنے والوں نے واپس جاکر اپنے یہاں دعوتِ اسلام دینا شروع کردی اوررفتہ رفتہ شمعِ اسلام کی روشنی مدینہ سے قباتک گھر گھرپھیل گئی۔
ہجرتِ مدینہ:
اعلانِ نبوت کے تیر ہویں سال سرکارِ مدینہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے مسلمانوں کو ہجرت کر کے مدینۂ منورہ جانے کی اجازت عطا فر مائی اور بعد میں حضرتِ ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہُ عَنْہ کے ساتھ خود بھی ہجرت کرکے وہاں تشریف لے گئے۔
مدنی حیاتِ طیبہ:
ہجرت کے بعد آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے مدینۂ منورہ کو گیارہ سال شرفِ قیام بخشا، اِن سالوں پیش آنے والے مختلف اہم واقعات کا مختصر تذکرہ درج ذیل ہے۔
پہلا سال: مسجدِقُبا ومسجدِنبوی کی تعمیرکی گئی……پہلا جمعہ ادا فرمایا…… اذان واقامت کی ابتدا ہوئی۔
دوسرا سال:قبلہ تبدیل ہوا،یعنی بیت المقدس کے بجائے خانۂ کعبہ کی طرف منہ کرکے نماز پڑھنے کا حکم دیا گیا…… رمضان المبارک کے روزے فرض ہوئے……نمازِ عیدین و قربانی کا حکم دیاگیا…… حضرت فاطمہ زہرہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا کا حضرت علی رَضِیَ اللہُ عَنْہ کے ساتھ نکاح ہوا……مسلمانوں کو غزوۂ بدر میں فتحِ مبین حاصل ہوئی۔
تیسرا سال: کفار کے ساتھ غزوۂ اُحُد کا معرکہ ہوا…… ایک قول کے مطابِق اسی سال شراب کو حرام قرار دیا گیا۔
چوتھا سال:نمازِخوف کا حکم نازل ہوا…… حضرت امام حسین رَضِیَ اللہُ عَنْہ کی ولادت ہوئی…… آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے حضرتِ اُم سلمہ اور حضرتِ زینب بنتِ جحش رَضِیَ اللہُ عَنْہُمَا سے نکاح فرمایا…… نمازِ قصراور پردے کا حکم نازل ہوا۔
پانچواں سال:آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے حضرتِ جُویریہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا سے نکاح فرمایا ……غزوۂ احزاب یعنی غزوۂ خندق اور غزوۂ بنی مُصطَلق واقع ہوئے……تیمم کا حکم بھی اِسی سال نازل ہوا۔
چھٹا سال:صلح حدیبیہ اوربیعتِ رضوان واقع ہوئے……آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے مختلف بادشاہوں کے نام اسلام کی دعوت پرمشتمل خطوط روانہ فرمائے…… حبشہ کے بادشاہ حضرت نَجاشی رَضِیَ اللہُ عَنْہ نے اِسلام قبول کیا……اسی سال آپ پرجادو کیا گیا اور اس کے توڑ کیلئے سورۂ فلق اورسورۂ ناس نازل ہوئیں۔
ساتواں سال:غزوۂ خیبر اور غزوۂ ذاتُ الرّقاع واقع ہوئے……آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے حضرتِ اُمِّ حبیبہ،حضرتِ صَفیہ اورحضرتِ میمونہ رَضِیَ اللہُ عَنْہُنَّ سے نکاح فرمایا…… حضرت علیُّ المرتضیٰ رَضِیَ اللہُ عَنْہ کی نمازِعصرکیلئے آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی دعا سے سورج واپس پلٹا۔
آٹھواں سال:آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے لختِ جگرحضرت ابراہیم رَضِیَ اللہُ عَنْہ کی ولادت ہوئی…… غزوۂ حنین واقع ہوا……مکّۂ مکرّمہ فتح ہوا۔
نواں سال:شاہِ حبشہ حضرت نجاشی رَضِیَ اللہُ عَنْہ کا وصال ہوا……مختلف وُفود کی بارگاہِ رِسالت میں حاضری ہوئی …… حج کی فرضیت کا حکم نازل ہوا ……غزوۂ تبوک واقع ہوا جس کیلئے صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہُ عَنْہُم نے دِل کھول کر مالی معاونت کی ۔
دسواں سال: اللہ تعالیٰ کے حبیب صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے لخت جگرحضرت ابراہیم رَضِیَ اللہُ عَنْہ کا وصال ہوا…… اسی سال آپ نے حج ادا فرمایا جسے حجۃُ الوداع کہا جاتا ہے۔
گیارہواں سال:ہجرت کے گیارہویں سال،63 برس کی عمر میں آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا وِصال ِظاہری ہوااور حضرت عائشہ صِدّیقہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا کے حجرےمیں تدفین ہوئی ۔
1…بخاری، کتاب مناقب الانصار، باب مبعث النبی، ۲/۵۷۳.
2… سیرت النبویہ لابن ہشام،ص۴۸.
3…بخاری، کتاب بدء الوحی، ۱/۱۰، حدیث:۷.
4…بخاری، کتاب النکاح، باب وامہاتکم …الخ، ۳/ ۴۳۲،حدیث:۵۱۰۱، ملتقطاً.
5… سیرت مصطفی، ص۷۱.
6…مدارج النبوة،۲/۱۸-۱۹، ملخصاً.
کتاب کا موضوع
کتاب کا موضوع