Null
دعوت اسلامی کی دینی خدمات دیگر ممالک میں بھی دیکھئے
ہسٹری

مخصوص سرچ

30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں

Seerat ul Anbiya | سیرتُ الانبیاء

book_icon
سیرتُ الانبیاء
            
باب:4

سیرتِ عیسٰی عَلَیْہِ السَّلَام کے اہم واقعات

بنی اسرائیل کو تبلیغ و نصیحت:

جب اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام کو بنی اسرائیل کی طرف رسول بنا کر بھیجا تو آپ عَلَیْہِ السَّلَام نے ان سے ارشاد فرمایا: اَنِّیْ قَدْ جِئْتُكُمْ بِاٰیَةٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ ﳐ اَنِّیْۤ اَخْلُقُ لَكُمْ مِّنَ الطِّیْنِ كَهَیْــٴَـةِ الطَّیْرِ فَاَنْفُخُ فِیْهِ فَیَكُوْنُ طَیْرًۢا بِاِذْنِ اللّٰهِۚ-وَ اُبْرِئُ الْاَكْمَهَ وَ الْاَبْرَصَ وَ اُحْیِ الْمَوْتٰى بِاِذْنِ اللّٰهِۚ-وَ اُنَبِّئُكُمْ بِمَا تَاْكُلُوْنَ وَ مَا تَدَّخِرُوْنَۙ-فِیْ بُیُوْتِكُمْؕ-اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیَةً لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَۚ(۴۹) وَ مُصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیَّ مِنَ التَّوْرٰىةِ وَ لِاُحِلَّ لَكُمْ بَعْضَ الَّذِیْ حُرِّمَ عَلَیْكُمْ وَ جِئْتُكُمْ بِاٰیَةٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ۫-فَاتَّقُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوْنِ(۵۰) اِنَّ اللّٰهَ رَبِّیْ وَ رَبُّكُمْ فَاعْبُدُوْهُؕ-هٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِیْمٌ(۵۱) (1) ترجمہ : کہ میں تمہارے رب کی طرف سے تمہارے پاس ایک نشانی لایا ہوں ،وہ یہ کہ میں تمہارے لئے مٹی سے پرندے جیسی ایک شکل بناتاہوں پھر اس میں پھونک ماروں گا تو وہ اللہ کے حکم سے فوراً پرندہ بن جائے گی اور میں پیدائشی اندھوں کو اور کوڑھ کے مریضوں کو شفا دیتا ہوں اور میں اللہ کے حکم سے مُردوں کو زندہ کرتا ہوں اور تمہیں غیب کی خبر دیتا ہوں جو تم کھاتے ہو اور جو اپنے گھروں میں جمع کرتے ہو، بیشک ان باتوں میں تمہارے لئے بڑی نشانی ہے اگر تم ایمان رکھتے ہو۔ اورمجھ سے پہلے جو توریت کتاب ہے اس کی تصدیق کرنے والا بن کرآیا ہوں اور اس لئے کہ تمہارے لئے کچھ وہ چیزیں حلال کردوں جو تم پر حرام کی گئی تھیں اور میں تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے نشانی لے کر آیا ہوں تو اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔ بیشک اللہ میرااور تمہارا سب کا رب ہے تو اسی کی عبادت کرو۔ یہی سیدھا راستہ ہے۔ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام تورات کے کتابُ اللہ اور حق ہونے کی تصدیق کیلئے تشریف لائے تھے اور اس کے بعض احکام کو منسوخ فرمانے بھی چنانچہ بعض وہ چیزیں جو شریعت ِموسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام میں حرام تھیں جیسے اونٹ کاگوشت اورکچھ پرندے تو آپ عَلَیْہِ السَّلَام نے انہیں حلال فرما دیا۔ ایک موقع پر آپ عَلَیْہِ السَّلَام نے بنی اسرائیل کویوں بھی نصیحت فرمائی: قَدْ جِئْتُكُمْ بِالْحِكْمَةِ وَ لِاُبَیِّنَ لَكُمْ بَعْضَ الَّذِیْ تَخْتَلِفُوْنَ فِیْهِۚ-فَاتَّقُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوْنِ(۶۳) اِنَّ اللّٰهَ هُوَ رَبِّیْ وَ رَبُّكُمْ فَاعْبُدُوْهُؕ-هٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِیْمٌ(۶۴) (2) ترجمہ : میں تمہارے پاس حکمت لے کر آیا ہوں اور میں اس لئے (آیا ہوں) تاکہ میں تم سے بعض وہ باتیں بیان کردوں جن میں تم اختلاف رکھتے ہو تو اللہ سے ڈرو اور میرا حکم مانو۔ بیشک اللہ میرا بھی رب ہے اور تمہارا بھی رب ہے تو اس کی عبادت کرو، یہ سیدھا راستہ ہے۔

حضور اقدس صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی بشارت:

حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام کے بعد ہمارے نبی حضرت محمد صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے علاوہ کسی اور نبی نے نہیں آنا تھا اس لئے آپ عَلَیْہِ السَّلَام کی بعثت و رسالت کے مقاصد میں سے ایک بنیادی مقصد نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی تشریف آوری کی خوش خبری سنانا بھی تھا چنانچہ آپ عَلَیْہِ السَّلَام نے اپنی قوم سے فرمایا: یٰبَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰهِ اِلَیْكُمْ مُّصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیَّ مِنَ التَّوْرٰىةِ وَ مُبَشِّرًۢا بِرَسُوْلٍ یَّاْتِیْ مِنْۢ بَعْدِی اسْمُهٗۤ اَحْمَدُؕ- (3) ترجمہ : اے بنی اسرائیل! میں تمہاری طرف اللہ کا رسول ہوں، اپنے سے پہلی کتاب تورات کی تصدیق کرنے والا ہوں اور اس عظیم رسول کی بشارت دینے والا ہوں جو میرے بعد تشریف لائیں گے ان کا نام احمد ہے۔ اس آیت سے معلوم ہو اکہ حضور انور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا ذکرآپ کی تشریف آوری سے پہلے ہی مشہور ہو چکا تھاکیونکہ بنی اسرائیل کو باقاعدہ بتا دیا گیا تھا اور کثیر روایات اور قرآنی آیات سے بھی یہ بات واضح ہے۔

امتِ مصطفیٰ کے اوصاف کا تذکرہ:

حضرت کعب احبار رَضِیَ اللہُ عَنْہ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ حواریوں نے حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام سے عرض کی:یاروح اللہ ! کیا ہمارے بعد کوئی اور امت بھی ہے؟ارشادفرمایا: ہاں ،احمد مجتبیٰ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی اُمت ہے ،وہ لوگ حکمت والے ، علم والے، نیکوکار اور متقی ہوں گے اور فقہ میں انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ السَّلَام کے نائب ہوں گے ، اللہ تعالیٰ سے تھوڑے رزق پر راضی رہنے والے ہوں گے اور اللہ تعالیٰ ان سے تھوڑے عمل پر راضی ہوگا۔(4)

آسمان سے نزولِ دستر خوان کی عرض اور جوابِ عیسیٰ:

ایک بار حواریوں نے حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام سے عرض کی: یٰعِیْسَى ابْنَ مَرْیَمَ هَلْ یَسْتَطِیْعُ رَبُّكَ اَنْ یُّنَزِّلَ عَلَیْنَا مَآىٕدَةً مِّنَ السَّمَآءِؕ- (5) ترجمہ : اے عیسیٰ بن مریم! کیا آپ کا رب ایسا کرے گا کہ ہم پر آسمان سے ایک دستر خوان اُتار دے؟ اس سے ان کی مراد یہ تھی کہ کیا اللہ تعالیٰ اس بارے میں آپ کی دعا قبول فرمائے گا؟ یہ مراد نہیں تھی کہ کیا آپ کا رب عَزَّ وَجَلَّ ایسا کرسکتا ہے یا نہیں ؟ کیونکہ وہ حضرات اللہ تعالیٰ کی قدرت پر ایمان رکھتے تھے۔ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام نے فرمایا: اِتَّقُوا اللّٰهَ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ(۱۱۲) (6) ترجمہ : اللہ سے ڈرو، اگر ایمان رکھتے ہو۔ یعنی اگر ایمان رکھتے ہو تو اللہ عَزَّ وَجَلَّ سے ڈرو اور تقویٰ اختیار کرو تاکہ یہ مراد حاصل ہو جائے۔ بعض مفسرین نے کہا: اس کے معنیٰ یہ ہیں کہ تمام اُمتوں سے نرالا سوال کرنے میں اللہ عَزَّ وَجَلَّ سے ڈرو یا یہ معنی ہیں کہ جب اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی کمالِ قدرت پرایمان رکھتے ہو تو ایسے سوال نہ کرو جن سے تَرَدُّد کا شبہ گزر سکتا ہو۔(7)

حواریوں کی درخواست:

حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام نے جب انہیں خدا خوفی کا حکم دیا تو انہوں نے عرض کی: نُرِیْدُ اَنْ نَّاْكُلَ مِنْهَا وَ تَطْمَىٕنَّ قُلُوْبُنَا وَ نَعْلَمَ اَنْ قَدْ صَدَقْتَنَا وَ نَكُوْنَ عَلَیْهَا مِنَ الشّٰهِدِیْنَ(۱۱۳)(8) ترجمہ : ہم یہ چاہتے ہیں کہ اس میں سے کھائیں اور ہمارے دل مطمئن ہوجائیں اور ہم آنکھوں سے دیکھ لیں کہ آپ نے ہم سے سچ فرمایا ہے اور ہم اس پر گواہ ہوجائیں۔ حواریوں کے اس جواب نے واضح کردیا کہ انہوں نے قدرتِ الٰہی میں شک و شبہ کی وجہ سے سابقہ مطالبہ نہیں کیا بلکہ اس کا مقصد کچھ اور تھا۔

حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام کی دعا:

حواریوں کی اِس درخواست پر حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام نے انہیں تیس روزے رکھنے کا حکم دیا اور فرمایا جب تم ان روزوں سے فارغ ہوجاؤ گے تو اللہ تعالیٰ سے جو دعا کرو گے قبول ہوگی۔ انہوں نے روزے رکھ کر دسترخوان اُترنے کی دعا کی۔ اُس وقت حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام نے بھی غسل فرمایا ، موٹا لباس پہنا، دو رکعت نماز ادا کی ،سرِ مبارک جھکایا اور رو کر اس طرح دعا کی۔(9) اَللّٰهُمَّ رَبَّنَاۤ اَنْزِلْ عَلَیْنَا مَآىٕدَةً مِّنَ السَّمَآءِ تَكُوْنُ لَنَا عِیْدًا لِّاَوَّلِنَا وَ اٰخِرِنَا وَ اٰیَةً مِّنْكَۚ-وَ ارْزُقْنَا وَ اَنْتَ خَیْرُ الرّٰزِقِیْنَ(۱۱۴) (10) ترجمہ : اے اللہ ! اے ہمارے رب! ہم پر آسمان سے ایک دسترخوان اُتار دے جو ہمارے لئے اور ہمارے بعد میں آنے والوں کے لئے عید اور تیری طرف سے ایک نشانی ہوجائے اور ہمیں رزق عطا فرما اور تو سب سے بہتر رزق دینے والا ہے۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ جس روز اللہ تعالیٰ کی خاص رحمت نازل ہو اُس دن کو عید بنانا، خوشی منانا اور شکرِ الٰہی بجالانا صالحین کا طریقہ ہے اس لئے حضور پر نور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی ولادتِ مبارکہ کے دن عید منانا اور میلاد شریف پڑھ کر شکرِ الٰہی بجالانا اور فرحت و سُرور کا اظہار کرنا مستحسن و محمود اور اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے مقبول بندوں کا طریقہ ہے۔

دعائے عیسیٰ کی قبولیت اور ایک تنبیہ:

اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام کی دعا قبول کی اور فرمایا: اِنِّیْ مُنَزِّلُهَا عَلَیْكُمْۚ-فَمَنْ یَّكْفُرْ بَعْدُ مِنْكُمْ فَاِنِّیْۤ اُعَذِّبُهٗ عَذَابًا لَّاۤ اُعَذِّبُهٗۤ اَحَدًا مِّنَ الْعٰلَمِیْنَ۠(۱۱۵) (11) ترجمہ : بیشک میں وہ تم پر اُتارتا ہوں پھر اس کے بعد جو تم میں سے کفر کرے گا تو بیشک میں اسے وہ عذاب دوں گا کہ سارے جہان میں کسی کو نہ دوں گا۔

دستر خوان کا نزول:

اللہ تعالیٰ کے حکم سے چند فرشتے ایک دستر خوان لے کر آسمان سے اترے جس میں سات مچھلیاں اور سات روٹیاں تھیں۔(12)اس حوالے سے تفاسیر میں دیگر روایتیں بھی ہیں۔

بنی اسرائیل کو تاکید اور نافرمانی پر سزا:

دستر خوان نازل ہونے کے بعد حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام نے بنی اسرائیل کو حکم دیا کہ خوب پیٹ بھر کر کھاؤ لیکن خبردار! اس میں کسی قسم کی خیانت نہ کرنا اور کل کے لئے ذخیرہ بنا کر نہ رکھنا۔ بنی اسرائیل کے کچھ لوگوں نے آپ عَلَیْہِ السَّلَام کے حکم کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اس میں خیانت بھی کرڈالی اور کل کے لئے ذخیرہ بنا کر بھی رکھ لیا۔ اس نافرمانی کی وجہ سےان پر اللہ تعالیٰ کا عذاب یوں آیا کہ وہ رات کو سوئے تو اچھے خاصے تھے لیکن صبح اٹھے تو مسخ ہو کر کچھ خنزیر اور کچھ بندر بن گئے۔پھر حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام نے ان لوگوں کی موت کی دعا مانگی تو تیسرے دن یہ لوگ مر گئے۔ (13) قرآنِ پاک میں ہے: لُعِنَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا مِنْۢ بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ عَلٰى لِسَانِ دَاوٗدَ وَ عِیْسَى ابْنِ مَرْیَمَؕ-ذٰلِكَ بِمَا عَصَوْا وَّ كَانُوْا یَعْتَدُوْنَ(۷۸) (14) ترجمہ : بنی اسرائیل میں سے کفر کرنے والوں پر داؤد اور عیسیٰ بن مریم کی زبان پرسے لعنت کی گئی۔ یہ لعنت اس وجہ سے تھی کہ انہوں نے نافرمانی کی اور وہ سرکشی کرتے رہتے تھے۔ اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں کے منہ سے نکلی ہوئی نقصان و ہلاکت کی دعا دنیا و آخرت میں رسوائی اور بربادی کا سبب بن سکتی ہے،لہذا ایسے کاموں سے بچتے رہنا چاہئے جو ان کی ناراضی کا سبب بنیں۔

بنی اسرائیل کے کافروں پر لعنت کا ایک اور اہم سبب:

بنی اسرائیل کے کفار پرلعنت کا ایک اہم سبب یہ بھی تھا کہ انہوں نے برائی ہوتی دیکھ کر ایک دوسرے کو اس سے منع کرنا چھوڑ دیا تھا،جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: كَانُوْا لَا یَتَنَاهَوْنَ عَنْ مُّنْكَرٍ فَعَلُوْهُؕ-لَبِئْسَ مَا كَانُوْا یَفْعَلُوْنَ(۷۹) (15) ترجمہ : وہ ایک دوسرے کو کسی برے کام سے منع نہ کرتے تھے جو وہ کیا کرتے تھے۔ بیشک یہ بہت ہی برے کام کرتے تھے۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود رَضِیَ اللہُ عَنْہ سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: جب بنی اسرائیل گناہوں میں مبتلا ہوئے تو اُن کے علماء نے پہلے تو انہیں منع کیا، جب وہ باز نہ آئے تو پھر وہ علماء بھی اُن سے مل گئے اور کھانے پینے اُٹھنے بیٹھنے میں اُن کے ساتھ شامل ہوگئے اُن کی اس نافرمانی اور سرکشی کا یہ نتیجہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد اورحضرت عیسٰی عَلَیْہِمَا السَّلَام کی زبان سے اُن پر لعنت اُتاری۔(16) اس سے معلوم ہوا کہ برائی سے لوگوں کو روکنا واجب اور گناہ سے منع کرنے سے باز رہنا سخت گناہ ہے۔اس سے ان علماء اور بطورِ خاص ان پیروں کواپنے طرزِ عمل پر غور کرنے کی حاجت ہے کہ جواپنے ماننے والوں یا مریدین و معتقدین میں علانیہ گناہ ہوتے دیکھ کر اور یہ جانتے ہوئے بھی کہ میرے منع کرنے سے لوگ گناہ سے باز آ جائیں گے پھر بھی مداہنت کرتے ہوئے خاموش رہتے ہیں۔

موت کی کڑواہٹ :

منقول ہے کہ بنی اسرائیل حضرت سام بن نوح کی قبر پر حاضر ہوئے اورحضرت عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام کی بارگاہ میں عرض کی: اے روحُ اللہ !آپ اللہ تعالیٰ سے دعا فرمائیں کہ وہ اس قبروالے کو زندہ فرمائے تاکہ ہم اس سے موت کے بارے میں پوچھ سکیں۔آپ عَلَیْہِ السَّلَام نے دعا فرمائی تو اللہ تعالیٰ نے انہیں زندہ فرمادیا، وہ کھڑے ہوئے تو حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام نے دیکھا کہ ان کے سر اور داڑھی کے بال سفیدتھے ۔آپ عَلَیْہِ السَّلَام نے دریافت فرمایا:یہ بڑھاپا تو آپ کے زمانے میں نہیں تھا؟انہوں نے جواب دیا: جب میں نے ندا سُنی توگمان ہوا کہ شاید قیامت قائم ہو گئی ہے، اس کی ہیبت سے میرے سر اور داڑھی کے بال سفید ہو گئے ہیں ۔حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام نے پوچھا: اس دارِ فنا سے کوچ کئے ہوئے کتنی مدت ہوگئی ہے ؟جواب دیا:مجھے اس دنیا سے رخصت ہوئے چار ہزار سال گزر چکے ہیں لیکن موت کی کڑواہٹ ابھی تک مجھ سے دور نہیں ہوئی۔(17)

حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام کا مدد طلب كرنا اور حواریوں کااعلان:

حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام ایک عرصے تک بنی اسرائیل کو تبلیغ و نصیحت فرماتے رہے اور انہیں اپنی نبوت و رسالت کی صداقت پر معجزات بھی دکھائے،جب آپ عَلَیْہِ السَّلَام نے دیکھا کہ اتنی روشن آیات اور معجزات سے بھی یہودیوں پر کوئی اثر نہیں ہوا اور یہ ایمان لانے کی بجائے اپنے کفر پر نہ صرف قائم ہیں بلکہ آپ عَلَیْہِ السَّلَام کو قتل کرنے کا ارادہ بھی رکھتے ہیں کیونکہ انہوں نے پہچان لیا تھا کہ آپ عَلَیْہِ السَّلَام ہی وہ مسیح ہیں جن کی تورات میں بشارت دی گئی ہے اور آپ عَلَیْہِ السَّلَام ان کا دین منسوخ کردیں گے۔یہ صورت حال دیکھ کرایک دن آپ عَلَیْہِ السَّلَام نے لوگوں کو مخاطب کر کے فرمایا: مَنْ اَنْصَارِیْۤ اِلَى اللّٰهِؕ- (18) ترجمہ : اللہ کی طرف ہو کر کون میرا مددگار ہوتا ہے؟ حواریوں نے عرض کی: نَحْنُ اَنْصَارُ اللّٰهِۚ-اٰمَنَّا بِاللّٰهِۚ-وَ اشْهَدْ بِاَنَّا مُسْلِمُوْنَ(۵۲) رَبَّنَاۤ اٰمَنَّا بِمَاۤ اَنْزَلْتَ وَ اتَّبَعْنَا الرَّسُوْلَ فَاكْتُبْنَا مَعَ الشّٰهِدِیْنَ(۵۳) (19) ترجمہ : ’’ہم اللہ کے دین کے مددگار ہیں۔ ہم اللہ پر ایمان لائے ہیں اور آپ اس پر گواہ ہوجائیں کہ ہم یقیناً مسلمان ہیں۔ اے ہمارے رب! ہم اس کتاب پر ایمان لائے جو تو نے نازل فرمائی اورہم نے رسول کی اِتّباع کی پس ہمیں گواہی دینے والوں میں سے لکھ دے۔

اللہ تعالیٰ کی طرف سے تسلی:

دوسری طرف اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام سے فرمایا: یٰعِیْسٰۤى اِنِّیْ مُتَوَفِّیْكَ وَ رَافِعُكَ اِلَیَّ وَ مُطَهِّرُكَ مِنَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا وَ جَاعِلُ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْكَ فَوْقَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْۤا اِلٰى یَوْمِ الْقِیٰمَةِۚ-ثُمَّ اِلَیَّ مَرْجِعُكُمْ فَاَحْكُمُ بَیْنَكُمْ فِیْمَا كُنْتُمْ فِیْهِ تَخْتَلِفُوْنَ(۵۵) (20) ترجمہ : اے عیسیٰ! میں تمہیں پوری عمر تک پہنچاؤں گا اور تجھے اپنی طرف اٹھالوں گا اور تجھے کافروں سے نجات عطاکروں گا اور تیری پیروی کرنے والوں کو قیامت تک تیرے منکروں پر غلبہ دوں گا پھر تم سب میری طرف پلٹ کر آؤ گے توجن باتوں میں تم جھگڑتے تھے ان باتوں کا میں تمہارے درمیان فیصلہ کردوں گا۔ یہاں ایک بات قابلِ توجہ ہے کہ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام کو ماننے والوں سے مراد ہے’’ان کو صحیح طور پر ماننے والے‘‘اور صحیح ماننے والے یقیناً صرف مسلمان ہیں کیونکہ یہودی تو ویسے ہی حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام کے دشمن ہیں اور عیسائی انہیں خدا مانتے ہیں تو یہ’’ماننا‘‘تو بدترین قسم کا’’نہ ماننا‘‘ہے کہ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام فرمائیں کہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے سوا کسی کو معبود نہ مانو اور یہ کہیں ، نہیں ، ہم توآپ کو بھی معبود مانیں گے۔

حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام کی آسمان پر تشریف آوری:

ایمان لانے والوں کے علاوہ باقی تمام یہودی اپنے کفر پر جمے رہے یہاں تک کہ جوشِ عداوت میں ان یہودیوں نے آپ عَلَیْہِ السَّلَام کو شہید کرنے کا جو خفیہ منصوبہ بنایا تھااس پر عمل کرتے ہوئے ایک شخص کو آپ عَلَیْہِ السَّلَام کے مکان میں بھیج دیا۔ اللہ تعالیٰ نے اس شخص کو حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام کا ہم شکل بنا دیا اور حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام کو ایک بدلی کے ساتھ بھیجا جس نے آپ عَلَیْہِ السَّلَام کو آسمان کی طرف اٹھالیا۔ آپ عَلَیْہِ السَّلَام کی والدہ جوشِ محبت میں آپ کے ساتھ چمٹ گئیں تو آپ نے فرمایا: امی جان! اب قیامت کے دن ہماری اور آپ کی ملاقات ہو گی اور بدلی نے آپ کو آسمان پر پہنچا دیا۔ یہ واقعہ بیت المقدس میں شب قدر کی مبارک رات میں وقوع پذیر ہوا۔ اس وقت آپ کی عمر شریف علامہ جلال الدین سیوطی کے بقول33 سال کی تھی۔(21)

یہودیوں کا اپنے ہی بندے کو قتل کرنا:

جب بھیجا ہوا شخص بہت دیر تک مکان سے باہر نہ نکلا تو یہودیوں نے مکان میں جا کر دیکھا اور یہ شخص چونکہ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام کا ہم شکل ہو چکا تھااس لیے انہوں نے اسے ہی حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام سمجھ کرسولی دےدی لیکن پھر خود بھی حیران تھے کہ ہمارا آدمی کہا ں گیا، نیز اس کا چہرہ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام جیسا تھا اور ہاتھ پاؤں مختلف۔(22)اسی وجہ سے وہ شک میں پڑگئے اور یقینی طور پر کچھ نہیں کہہ سکتے تھے کہ وہ مقتول کون ہے؟ بعض کہتے کہ یہ مقتول حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام ہیں اور بعض کہتے کہ یہ چہرہ تو حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام کا ہے لیکن جسم حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام کا نہیں ،لہٰذا یہ وہ نہیں ہیں۔ یہودیوں کی پیروی میں آج کل قادیانی بھی اسی شک و انکار میں گرفتا ر ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں یہ واقعہ ان الفاظ کے ساتھ بیان فرمایا ہے : وَ قَوْلِهِمْ اِنَّا قَتَلْنَا الْمَسِیْحَ عِیْسَى ابْنَ مَرْیَمَ رَسُوْلَ اللّٰهِۚ-وَ مَا قَتَلُوْهُ وَ مَا صَلَبُوْهُ وَ لٰكِنْ شُبِّهَ لَهُمْؕ-وَ اِنَّ الَّذِیْنَ اخْتَلَفُوْا فِیْهِ لَفِیْ شَكٍّ مِّنْهُؕ-مَا لَهُمْ بِهٖ مِنْ عِلْمٍ اِلَّا اتِّبَاعَ الظَّنِّۚ-وَ مَا قَتَلُوْهُ یَقِیْنًۢاۙ(۱۵۷) بَلْ رَّفَعَهُ اللّٰهُ اِلَیْهِؕ-وَ كَانَ اللّٰهُ عَزِیْزًا حَكِیْمًا(۱۵۸) (23) ترجمہ : اور ان کے اس کہنے کی وجہ سے کہ ہم نے مسیح عیسیٰ بن مریم اللہ کے رسول کو شہید کیا حالانکہ انہوں نے نہ تواسے قتل کیا اور نہ اسے سولی دی بلکہ ان (یہودیوں ) کے لئے (عیسیٰ سے ) ملتا جلتا (ایک آدمی) بنادیا گیا اور بیشک یہ (یہودی) جو اس عیسیٰ کے بارے میں اختلاف کر رہے ہیں ضرور اس کی طرف سے شبہ میں پڑے ہوئے ہیں ( حقیقت یہ ہے کہ) سوائے گمان کی پیروی کے ان کواس کی کچھ بھی خبر نہیں اور بیشک انہوں نے اس کو قتل نہیں کیا۔ بلکہ اللہ نے اسے اپنی طرف اٹھالیا تھا اور اللہ غالب حکمت والا ہے۔ خلاصۂ کلام یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام یہودیوں کے ہاتھوں شہید نہیں ہوئے اور اللہ تعالیٰ نے آپ عَلَیْہِ السَّلَام کوصحیح سلامت زندہ آسمان پر اٹھا لیا، جو یہ عقیدہ رکھے کہ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام قتل ہو گئے اور سولی پر چڑھائے گئے جیسا کہ عیسائیوں کا عقیدہ ہے تو وہ شخص کافر ہے کیونکہ قرآن مجید میں صاف صاف مذکور ہے کہ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام نہ قتل کیے گئے اور نہ سولی پر لٹکائے گئے۔

حضرت مریم رَضِیَ اللہُ عَنْہَا کی وفات:

حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام کے آسمان پر تشریف لے جانے کے بعد حضرت مریم رَضِیَ اللہُ عَنْہَا نے 6سال دنیا میں رہ کر وفات پائی۔(24)

حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام کےآسمان پر اٹھائے جانے کے بعد عیسائیوں کا حال:

عیسائیوں سے بھی اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولوں عَلَیْہِمُ السَّلَام پر ایمان لانے کاعہد لیا گیا تھا لیکن حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام کے بعد وہ بھی انجیل میں دی گئی نصیحتوں کا بڑا حصہ بھلا بیٹھے اور عہد شکنی کی تو اللہ تعالیٰ نے ان کے درمیان قیامت کے دن تک کے لئے دشمنی اور بغض ڈال دیا۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے: وَ مِنَ الَّذِیْنَ قَالُوْۤا اِنَّا نَصٰرٰۤى اَخَذْنَا مِیْثَاقَهُمْ فَنَسُوْا حَظًّا مِّمَّا ذُكِّرُوْا بِهٖ۪-فَاَغْرَیْنَا بَیْنَهُمُ الْعَدَاوَةَ وَ الْبَغْضَآءَ اِلٰى یَوْمِ الْقِیٰمَةِؕ-وَ سَوْفَ یُنَبِّئُهُمُ اللّٰهُ بِمَا كَانُوْا یَصْنَعُوْنَ(۱۴) (25) ترجمہ : اور جنہوں نے دعویٰ کیا کہ ہم نصاریٰ ہیں ان سے ہم نے عہد لیا تو وہ ان نصیحتوں کا بڑا حصہ بھلا بیٹھے جو انہیں کی گئی تھی تو ہم نے ان کے درمیان قیامت کے دن تک کے لئے دشمنی اور بغض ڈال دیا اور عنقریب اللہ انہیں بتادے گا جو کچھ وہ کرتے تھے۔ حضرت قتادہ رَضِیَ اللہُ عَنْہ نے کہا کہ جب عیسائیوں نے کتابِ الٰہی (انجیل) پر عمل کرنا ترک کیا اور رسولوں کی نافرمانی کی، فرائض ادا نہ کئے اورحدود ِ الٰہی کی پرواہ نہ کی تو اللہ تعالیٰ نے ان کے درمیان عداوت ڈال دی۔(26)جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ یہ فرقوں میں بٹ گئے اور ایک دوسرے کو تباہ کرنے لگے چنانچہ دو عالمی عظیم جنگیں اور ان کی تباہیاں انہی صاحبان کی حرکتوں اور دشمنیوں سے ہوئیں۔

وفات سے پہلے یہودی اور عیسائی حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام پر ایمان لائیں گے:

ارشادِباری تعالیٰ ہے: وَ اِنْ مِّنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ اِلَّا لَیُؤْمِنَنَّ بِهٖ قَبْلَ مَوْتِهٖۚ-وَ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ یَكُوْنُ عَلَیْهِمْ شَهِیْدًاۚ(۱۵۹) (27) ترجمہ : کوئی کتابی ایسا نہیں جو اس کی موت سے پہلے ان پر ایمان نہ لے آئے گااور قیامت کے دن وہ (عیسیٰ) ان پر گواہ ہوں گے۔ اس آیت مبارکہ میں دو باتیں بیان کی گئی ہیں ۔پہلی بات کی تفسیر میں چند اقوال ہیں۔ (1)یہود ونصاریٰ کو اپنی موت کے وقت جب عذاب کے فرشتے نظر آتے ہیں تو وہ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام پر ایمان لے آتے ہیں اور اس وقت کا ایمان مقبول و معتبر نہیں۔ (28)یہ قول ضعیف ہے۔ (2) آیت کے معنیٰ یہ ہیں کہ ہر کتابی اپنی موت سے پہلے اللہ تعالیٰ یا نبی اکرم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم پر ایمان لے آئے گا لیکن موت کے وقت کا ایمان مقبول نہیں ، اور اس سے کچھ نفع نہ ہوگا۔ (29) (3)حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام کی وفات سے پہلے ہر یہودی اور عیسائی اور وہ افراد جو غیرِ خدا کی عبادت کرتے ہوں گے حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام پر ایمان لے آئیں گے حتّٰی کہ اس وقت ایک ہی دین ، دینِ اسلام ہو گا۔ اور یہ اس وقت ہو گا کہ جب آخری زمانے میں آپ عَلَیْہِ السَّلَام آسمان سے زمین پر نزول فرمائیں گے۔ اُس وقت حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام شریعتِ محمدیہ کے مطابق حکم کریں گے اور دینِ محمدی کے اماموں میں سے ایک امام کی حیثیت میں ہوں گے اور عیسائیوں نے ان کے متعلق جو گمان باندھ رکھے ہیں انہیں باطل فرمائیں گے، دینِ محمدی کی اشاعت کریں گے اوراس وقت یہود و نصارٰی کو یا تو اسلام قبول کرنا ہو گا یا قتل کر ڈالے جائیں گے، جزیہ قبول کرنے کا حکم حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام کے نازل ہونے تک ہے۔ (30) اس قول سے معلوم ہوا کہ ابھی حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام کی وفات نہیں ہوئی کیونکہ آپ عَلَیْہِ السَّلَام کی وفات سے پہلے سارے اہلِ کتاب آپ عَلَیْہِ السَّلَام پر ایمان لائیں گے،حالانکہ ابھی یہودی آپ عَلَیْہِ السَّلَام پر ایمان نہیں لائے۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام قریبِ قیامت زمین پر تشریف لائیں گے۔یہ بھی معلوم ہوا کہ آپ عَلَیْہِ السَّلَام کی اس آمد پر سارے یہودی آپ عَلَیْہِ السَّلَام پر ایمان لے آئیں گے اس طرح کہ سب آپ عَلَیْہِ السَّلَام کے اللہ عَزَّ وَجَلَّ کا بندہ اور اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی طرف سے ایک کلمہ ہونے کا اقرار کر کے مسلمان ہو جائیں گے۔ دوسری بات یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام قیامت کے دن یہودیوں ،عیسائیوں اور اہلِ ایمان کی گواہی دیں گے۔یہود یوں پر گواہی یہ ہو گی کہ انہوں نے آپ عَلَیْہِ السَّلَام کی تکذیب کی اور آپ عَلَیْہِ السَّلَام کے حق میں زبانِ طعن دراز کی اور عیسائیوں پر یہ گواہی دیں گے کہ اُنہوں نے آپ عَلَیْہِ السَّلَام کو رب ٹھہرایا اور خدا عَزَّ وَجَلَّ کا شریک جانا جبکہ اہلِ کتاب میں سے جو لوگ ایمان لے آئیں گے ان کے ایمان کی بھی آپ عَلَیْہِ السَّلَام شہادت دیں گے۔

روزِقیامت احساناتِ الٰہی کی یاد دہانی :

اللہ تعالیٰ نے دنیا میں حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام پر جو احسانات فرمائے ان کی یاد دہانی قیامت کے دن بھی فرمائے گا، چنانچہ اس دن اللہ تعالیٰ آپ عَلَیْہِ السَّلَام سے اس طرح فرمائے گا: یٰعِیْسَى ابْنَ مَرْیَمَ اذْكُرْ نِعْمَتِیْ عَلَیْكَ وَ عَلٰى وَ الِدَتِكَۘ-اِذْ اَیَّدْتُّكَ بِرُوْحِ الْقُدُسِ- تُكَلِّمُ النَّاسَ فِی الْمَهْدِ وَ كَهْلًاۚ-وَ اِذْ عَلَّمْتُكَ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَ وَ التَّوْرٰىةَ وَ الْاِنْجِیْلَۚ-وَ اِذْ تَخْلُقُ مِنَ الطِّیْنِ كَهَیْــٴَـةِ الطَّیْرِ بِاِذْنِیْ فَتَنْفُخُ فِیْهَا فَتَكُوْنُ طَیْرًۢا بِاِذْنِیْ وَ تُبْرِئُ الْاَكْمَهَ وَ الْاَبْرَصَ بِاِذْنِیْۚ-وَ اِذْ تُخْرِ جُ الْمَوْتٰى بِاِذْنِیْۚ-وَ اِذْ كَفَفْتُ بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ عَنْكَ اِذْ جِئْتَهُمْ بِالْبَیِّنٰتِ فَقَالَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا مِنْهُمْ اِنْ هٰذَاۤ اِلَّا سِحْرٌ مُّبِیْنٌ(۱۱۰) (31) ترجمہ : اے مریم کے بیٹے عیسیٰ! اپنے اوپر اور اپنی والدہ پر میرا وہ احسان یاد کر، جب میں نے پاک روح سے تیری مدد کی۔تو گہوارے میں اور بڑی عمر میں لوگوں سے باتیں کرتا تھا اور جب میں نے تجھے کتاب اور حکمت اور توریت اور انجیل سکھائی اور جب تو میرے حکم سے مٹی سے پرندے جیسی صورت بناکر اس میں پھونک مارتا تھا تو وہ میرے حکم سے پرندہ بن جاتی اور تو میرے حکم سے پیدائشی نابینا اور سفید داغ کے مریض کوشفا دیتا تھااور جب تو میرے حکم سے مردوں کو زندہ کر کے نکالتااور جب میں نے بنی اسرائیل کو تم سے روک دیا۔ جب تو ان کے پاس روشن نشانیاں لے کر آیا تو ان میں سے کافروں نے کہا: یہ تو کھلا جادو ہے۔

روزِ قیامت عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام اور اللہ تعالیٰ کے درمیان مکالمہ:

قیامت کے دن حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام اور حضرت مریم رَضِیَ اللہُ عَنْہَا کو خداماننے والوں کی سرزنش کے لئے اللہ تعالیٰ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام سے فرمائے گا: یٰعِیْسَى ابْنَ مَرْیَمَ ءَاَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُوْنِیْ وَ اُمِّیَ اِلٰهَیْنِ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِؕ- (32) ترجمہ : اے مریم کے بیٹے عیسیٰ! کیا تم نے لوگوں سے کہا تھا کہ اللہ کے سوا مجھے اور میری ماں کو معبود بنالو؟ اس خطاب کو سن کر حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام کانپ جائیں گے اورعرض کریں گے: سُبْحٰنَكَ مَا یَكُوْنُ لِیْۤ اَنْ اَقُوْلَ مَا لَیْسَ لِیْۗ-بِحَقٍّ ﳳ-اِنْ كُنْتُ قُلْتُهٗ فَقَدْ عَلِمْتَهٗؕ-تَعْلَمُ مَا فِیْ نَفْسِیْ وَ لَاۤ اَعْلَمُ مَا فِیْ نَفْسِكَؕ-اِنَّكَ اَنْتَ عَلَّامُ الْغُیُوْبِ(۱۱۶) (33) ترجمہ : (اے اللہ !)تو پاک ہے۔ میرے لئے ہرگز جائز نہیں کہ میں وہ بات کہوں جس کا مجھے کوئی حق نہیں۔اگر میں نے ایسی بات کہی ہوتی توتجھے ضرور معلوم ہوتی۔تو جانتا ہے جو میرے دل میں ہے اور میں نہیں جانتا جو تیرے علم میں ہے۔ بیشک تو ہی سب غیبوں کا خوب جاننے والا ہے۔ یہاں حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام کے لفظ لفظ سے ان کی عاجزی و بندگی اور خدا کی عظمت و شان کا اقرار و اظہار معلوم ہوتا ہے۔ اس کے بعد پھر عرض کریں گے: مَا قُلْتُ لَهُمْ اِلَّا مَاۤ اَمَرْتَنِیْ بِهٖۤ اَنِ اعْبُدُوا اللّٰهَ رَبِّیْ وَ رَبَّكُمْۚ-وَ كُنْتُ عَلَیْهِمْ شَهِیْدًا مَّا دُمْتُ فِیْهِمْۚ-فَلَمَّا تَوَفَّیْتَنِیْ كُنْتَ اَنْتَ الرَّقِیْبَ عَلَیْهِمْؕ-وَ اَنْتَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ شَهِیْدٌ(۱۱۷) (34) ترجمہ : میں نے تو ان سے وہی کہا تھا جس کا تو نے مجھے حکم دیا تھا کہ اللہ کی عبادت کرو جو میرا بھی رب ہے اور تمہا ر ا بھی رب ہے اور میں ان پر مطلع رہا جب تک ان میں رہا، پھر جب تو نے مجھے اٹھالیا تو تُو ہی ان پر نگاہ رکھتا تھااور تو ہرشے پر گواہ ہے۔ یہاں ایک بات قابلِ توجہ ہے کہ آیتِ مبارکہ میں’’ تَوَفَّیْتَنِیْ ‘‘کے لفظ سے قادیانی حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام کی وفات پر اِستِدلال کرتے ہیں اور یہ استدلال بالکل غلط ہے کیونکہ لفظ’’ تَـوَ فّٰی ‘‘موت کے لئے خاص نہیں بلکہ اس کا معنی ہے کسی چیز کو پورے طور پر لینا خواہ وہ بغیر موت کے ہو۔ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام مزید عرض کریں گے: اِنْ تُعَذِّبْهُمْ فَاِنَّهُمْ عِبَادُكَۚ-وَ اِنْ تَغْفِرْ لَهُمْ فَاِنَّكَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَكِیْمُ(۱۱۸) (35) ترجمہ : اگر تو انہیں عذاب دے تو وہ تیرے بندے ہیں اور اگر تو انہیں بخش دے تو بیشک تو ہی غلبے والا، حکمت والا ہے۔ آپ عَلَیْہِ السَّلَام کو معلوم ہوگا کہ قوم میں بعض لوگ کفر پر قائم رہے، بعض شرفِ ایمان سے مشرف ہوئے اس لئے آپ عَلَیْہِ السَّلَام کی بارگاہِ الٰہی عَزَّ وَجَلَّ میں یہ عرض ہے کہ’’ان میں سے جو کفرپر قائم رہے اُن پر تو عذاب فرمائے تو بالکل حق و بجا اور عدل وانصاف ہے کیونکہ انہوں نے حجت تمام ہونے کے بعد کفراختیار کیا اور جو ایمان لائے انہیں تو بخشے تو تیرا فضل وکرم ہے اور تیرا ہر کام حکمت ہے۔ متعلقات

عیسائیوں میں فرقہ بندی:

جب حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام آسمان پر زندہ تشریف لے گئے تو آپ کے بعد عیسائی مختلف فرقوں میں تقسیم ہو گئے ،چنانچہ سورہِ مریم میں ہے: فَاخْتَلَفَ الْاَحْزَابُ مِنْۢ بَیْنِهِمْۚ-فَوَیْلٌ لِّلَّذِیْنَ كَفَرُوْا مِنْ مَّشْهَدِ یَوْمٍ عَظِیْمٍ(۳۷) (36) ترجمہ : پھر گروہوں کا آپس میں اختلاف ہوگیا تو کافروں کے لئے خرابی ہے ایک بڑے دن کی حاضری سے۔ اور سورۂ زخرف میں ہے : فَاخْتَلَفَ الْاَحْزَابُ مِنْۢ بَیْنِهِمْۚ-فَوَیْلٌ لِّلَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مِنْ عَذَابِ یَوْمٍ اَلِیْمٍ(۶۵) (37) ترجمہ : پھر وہ گروہ آپس میں مختلف ہوگئے تو ظالموں کے لئے ایک درد ناک دن کے عذاب کی خرابی ہے۔ یہ فرقہ بندی عیسائیوں میں ایک یہودی نے پیدا کی جس کا نام بَوْلَسْ تھا، اُس نے اُنہیں گمراہ کرنے کے لیے کفریہ عقیدوں کی تعلیم دی۔(38)

عیسائی فرقوں کے عقائد اور ان کا رد:

عیسائی درج ذیل چار بڑے فرقوں میں تقسیم ہوئے، (1)یعقوبیہ:اس فرقے کے لوگ کہتے تھے کہ مریم نے اِلٰہ یعنی معبود کوجنا اور یہ بھی کہتے کہ اِلٰہ یعنی معبود نے عیسیٰ کی ذات میں حُلول کرلیا اور وہ اُن کے ساتھ مُتَّحِد ہوگیا تو عیسیٰ اِلٰہ (معبود) ہو گئے۔(39) مَعَاذَ اللہ ثُمَّ مَعَاذَ اللہ ۔انہوں نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام کی بھی توہین کی کہ وہ تو اپنے آپ کو رب عَزَّ وَجَلَّ کا بندہ کہتے تھے اور یہ انہیں جھٹلا کر انہی کو رب کہنے لگے۔اس فرقے کے رد میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: لَقَدْ كَفَرَ الَّذِیْنَ قَالُوْۤا اِنَّ اللّٰهَ هُوَ الْمَسِیْحُ ابْنُ مَرْیَمَؕ-وَ قَالَ الْمَسِیْحُ یٰبَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ اعْبُدُوا اللّٰهَ رَبِّیْ وَ رَبَّكُمْؕ-اِنَّهٗ مَنْ یُّشْرِكْ بِاللّٰهِ فَقَدْ حَرَّمَ اللّٰهُ عَلَیْهِ الْجَنَّةَ وَ مَاْوٰىهُ النَّارُؕ-وَ مَا لِلظّٰلِمِیْنَ مِنْ اَنْصَارٍ(۷۲) (40) ترجمہ : بیشک وہ لوگ کافر ہوگئے جنہوں نے کہا کہ اللہ وہی مسیح مریم کا بیٹا ہے حالانکہ مسیح نے تو یہ کہا تھا: اے بنی اسرائیل ! اللہ کی بندگی کرو جو میرا بھی رب ہے اور تمہارا بھی رب ہے۔ بیشک جو اللہ کا شریک ٹھہرائے تو اللہ نے اس پر جنت حرام کردی اور اس کا ٹھکانہ دوزخ ہے اور ظالموں کا کوئی مددگار نہیں۔ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا: لَقَدْ كَفَرَ الَّذِیْنَ قَالُوْۤا اِنَّ اللّٰهَ هُوَ الْمَسِیْحُ ابْنُ مَرْیَمَؕ-قُلْ فَمَنْ یَّمْلِكُ مِنَ اللّٰهِ شَیْــٴًـا اِنْ اَرَادَ اَنْ یُّهْلِكَ الْمَسِیْحَ ابْنَ مَرْیَمَ وَ اُمَّهٗ وَ مَنْ فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًاؕ-وَ لِلّٰهِ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ مَا بَیْنَهُمَاؕ-یَخْلُقُ مَا یَشَآءُؕ-وَ اللّٰهُ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ(۱۷) (41) ترجمہ : بیشک وہ لوگ کافر ہوگئے جنہوں نے کہا کہ اللہ ہی مسیح بن مریم ہے۔ تم فرما دو: اگر اللہ مسیح بن مریم کواور اس کی ماں اور تمام زمین والوں کو ہلاک کرنے کا ارادہ فرمالے تو کون ہے جو اللہ سے بچانے کی طاقت رکھتا ہے؟ اور آسمانوں اور زمین کی اور جو کچھ ان کے درمیان ہے سب کی بادشاہت اللہ ہی کے لئے ہے۔ وہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے اور اللہ ہر شے پر قادرہے۔ اس آیت میں حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام کی الوہیت کی کئی طرح تردید ہے۔ (1)حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام کو موت آسکتی ہے، اور جسے موت آ سکتی ہے وہ خدا نہیں ہو سکتا۔ (2)آپ عَلَیْہِ السَّلَام ماں کے شکم سے پیدا ہوئے، اور جس میں یہ صفات ہوں وہ اللہ نہیں ہو سکتا۔ (3) اللہ تعالیٰ تمام آسمانی اور زمینی چیزوں کا مالک ہے اور ہر چیز رب عَزَّ وَجَلَّ کا بندہ ہے، اگرکسی میں اللہ تعالیٰ نے حلول کیا ہوتا تووہ اللہ کا بندہ نہ ہوتا حالانکہ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام خود ا س بات کا اقرار کرتے ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کے بندے ہیں۔ (4) اللہ تعالیٰ خالق مطلق ہے، اپنی مرضی سے مخلوق پیدا فرماتا ہے۔ اگر عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام میں اُلُوہیت ہوتی تو آپ عَلَیْہِ السَّلَام بھی اپنی مرضی سےمخلوق پیدا کرنے کی طاقت رکھتے حالانکہ آپ میں ایسی طاقت نہ تھی اور پرندوں کی مورتیاں بنا کر ان میں پھونک مار کر اڑانا اپنی مرضی و مشیت سے نہ تھا بلکہ خاص اذن ِ الٰہی سے تھا۔ ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا: مَا الْمَسِیْحُ ابْنُ مَرْیَمَ اِلَّا رَسُوْلٌۚ-قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُؕ-وَ اُمُّهٗ صِدِّیْقَةٌؕ-كَانَا یَاْكُلٰنِ الطَّعَامَؕ-اُنْظُرْ كَیْفَ نُبَیِّنُ لَهُمُ الْاٰیٰتِ ثُمَّ انْظُرْ اَنّٰى یُؤْفَكُوْنَ(۷۵) (42) ترجمہ : مسیح بن مریم تو صرف ایک رسول ہے۔ اس سے پہلے بہت سے رسول گزرچکے ہیں اور اس کی ماں صدیقہ (بہت سچی) ہے۔وہ دونوں کھانا کھاتے تھے دیکھو تو ہم ان کے لئے کیسی صاف نشانیاں بیان کرتے ہیں پھر دیکھو وہ کیسے پھرے جاتے ہیں ؟ یعنی حضرت عیسیٰ بن مریم عَلَیْہِ السَّلَام تو ایک رسول ہیں خدا نہیں، لہٰذا اُنہیں خدا ماننا غلط ،باطل اور کفرہے۔ ان سے پہلے بھی بہت سے رسول گزرچکے ہیں اور وہ رسول بھی معجزات رکھتے تھے، یہ معجزات اُن کی نبوت کی صداقت کی دلیل تھے نہ کہ خدا ہونے کی۔ اِسی طرح حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام بھی رسول ہیں اُن کے معجزات بھی ان کی نبوت کی دلیل ہیں نہ کہ خدا ہونے کی۔ لہٰذا اُنہیں رسول ہی ماننا چاہئے کیونکہ جب دیگر انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ السَّلَام کو معجزات کی بنا پر خدا نہیں مانتے توعیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام کو بھی خدا نہ مانو۔حضرت مریم رَضِیَ اللہُ عَنْہَا بہت سچی ہیں جو اپنے رب عَزَّ وَجَلَّ کے کلمات اور اس کی کتابوں کی تصدیق کرنے والی ہیں تو تم بھی ان کی پیروی کرو،نیز حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام اور ان کی والدہ دونوں کھانا کھاتے تھے جبکہ معبود کھانے سے پاک ہوتا ہے اور کھانا کھانا بھی معبود نہ ہونے کی دلیل ہے کیونکہ معبودغذا کا محتاج نہیں ہوسکتا تو جو جسم رکھے ،غذا کھائےاوراُس جسم میں تَحلیل واقع ہو کہ غذا ایک نظام سے گزر کر بدن کا حصہ بنے مثلاً خون، گوشت وغیرہ میں اضافہ کرےتو وہ کیسے معبود ہوسکتا ہے؟ (2) ملکانیہ:بعض مفسرین کے نزدیک یہ فرقہ بھی وہی عقائد رکھتا تھا جو یعقوبیہ فرقے کے تھے البتہ تفسیر مدارک میں سورۂ مریم کی آیت37 کے تحت عیسائیوں کے تین فرقوں کا ذکر ہے اور اس میں ملکانیہ فرقے کے بارے میں لکھاہے کہ یہ کہتا تھا کہ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام اللہ تعالیٰ کے بندے ، مخلوق ا ور نبی ہیں۔(43) اورصدرالافاضل مفتی نعیم الدین مراد آبادی نے بھی خزائن العرفان میں اسی مقام پر تین فرقوں کا ذکر کیا ہے اور ملکانیہ فرقے کا عقیدہ بیان کرنے کے بعد لکھا ہے کہ یہ فرقہ مومن تھا۔(44) (3)نسطوریہ:اس فرقے کے لوگ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام کو خدا کا بیٹا کہتے تھے۔ان کے تردید میں ارشاد فرمایا: مَا كَانَ لِلّٰهِ اَنْ یَّتَّخِذَ مِنْ وَّلَدٍۙ-سُبْحٰنَهٗؕ-اِذَا قَضٰۤى اَمْرًا فَاِنَّمَا یَقُوْلُ لَهٗ كُنْ فَیَكُوْنُؕ(۳۵) (45) ترجمہ : اللہ کیلئے لائق نہیں کہ وہ کسی کو اپنا بیٹا بنائے ، وہ پاک ہے ۔ جب وہ کسی کام کا فیصلہ فرماتا ہے تو اسے صرف یہ فرماتا ہے ،’’ہوجا‘‘تو وہ فوراً ہوجاتا ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ کی شان کے لائق نہیں کہ وہ کسی کواپنا بیٹا بنائے اور اللہ تعالیٰ عیسائیوں کے لگائے گئے بہتان سے پاک ہے۔ اس کی شان تو یہ ہے کہ جب وہ کسی کام کا فیصلہ فرماتا ہے تواسے صرف یہ فرماتا ہے،’’ہوجا‘‘تو وہ کام فوراً ہوجاتا ہے، اور جو ایسا قادرِ مُطْلَق ہو اسے بیٹے کی کیا حاجت ہے اور اسے کسی کا باپ کس طرح قرار دیا جا سکتا ہے۔ (4)مرقوسیہ:اس فرقے کا عقیدہ یہ تھا کہ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام تین میں سے تیسرے ہیں،اور اس جملے کا کیا مطلب ہے اس میں بھی ان میں اختلاف تھا ،بعض تین اُقْنُوم (یعنی وجود) مانتے تھے اور کہتے تھے کہ باپ،بیٹا، روحُ القدس تین ہیں اورباپ سے ذاتِ خدا، بیٹے سے حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام اورروحُ القدس سے ان میں حلول کرنے والی حیات مراد ہے گویا کہ اُن کے نزدیک اِلٰہ تین تھے اور اس تین کو ایک بتاتے تھے۔بعض کہتے تھے کہ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام ناسُوتِیَّت (یعنی انسانیت) اور اُلُوہِیَّت کے جامع ہیں، ماں کی طرف سے اُن میں ناسوتیت آئی اور باپ کی طرف سے الوہیت آئی۔ ان کے رد میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: لَقَدْ كَفَرَ الَّذِیْنَ قَالُوْۤا اِنَّ اللّٰهَ ثَالِثُ ثَلٰثَةٍۘ-وَ مَا مِنْ اِلٰهٍ اِلَّاۤ اِلٰهٌ وَّاحِدٌؕ-وَ اِنْ لَّمْ یَنْتَهُوْا عَمَّا یَقُوْلُوْنَ لَیَمَسَّنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا مِنْهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ(۷۳) اَفَلَا یَتُوْبُوْنَ اِلَى اللّٰهِ وَ یَسْتَغْفِرُوْنَهٗؕ-وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۷۴)(46) ترجمہ : بیشک وہ لوگ کافر ہوگئے جنہوں نے کہا : بیشک اللہ تین (معبودوں ) میں سے تیسرا ہے حالانکہ عبادت کے لائق تو صرف ایک ہی معبود ہے اور اگریہ لوگ اس سے باز نہ آئے جو یہ کہہ رہے ہیں تو جو اِن میں کافر رہیں گے ان کو ضرور دردناک عذاب پہنچے گا۔ تو یہ کیوں اللہ کی بارگاہ میں توبہ نہیں کرتے اورکیوں اس سے مغفرت طلب نہیں کرتے؟ حالانکہ اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔

عیسائیوں کو عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام کے بارے میں حد سے نہ بڑھنے کی تاکید:

اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں عیسائیوں کو تاکید فرمائی ہے کہ وہ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام کے بارے میں افراط وتفریط سے باز رہیں ، انہیں خدا اور خدا کا بیٹا بھی نہ کہیں اور حلول (یعنی خدا ان کے اندر اترا ہواہے)اور اِتّحاد(یعنی خدا اور عیسیٰ مل کر ایک ہوگئے ہیں) کے دعوے کرکے غلو نہ کریں یعنی حد سے نہ بڑھیں، بلکہ ان کے بارے میں یہ عقیدہ رکھیں کہ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام حضرت مریم رَضِیَ اللہُ عَنْہَا کے بیٹے ہیں ،ان کے لیے اس کے سوا اورکوئی نسب نہیں ، صرف اللہ تعالیٰ کے رسول اور اس کا ایک کلمہ ہیں جو رب تعالیٰ نے حضرت مریم رَضِیَ اللہُ عَنْہَا کی طرف بھیجا اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک خاص روح ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: عِیْسَى ابْنُ مَرْیَمَ رَسُوْلُ اللّٰهِ وَ كَلِمَتُهٗۚ-اَلْقٰىهَاۤ اِلٰى مَرْیَمَ وَ رُوْحٌ مِّنْهُ٘-فَاٰمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رُسُلِهٖ ۚ۫-وَ لَا تَقُوْلُوْا ثَلٰثَةٌؕ-اِنْتَهُوْا خَیْرًا لَّكُمْؕ-اِنَّمَا اللّٰهُ اِلٰهٌ وَّاحِدٌؕ-سُبْحٰنَهٗۤ اَنْ یَّكُوْنَ لَهٗ وَلَدٌۘ-لَهٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الْاَرْضِؕ-وَ كَفٰى بِاللّٰهِ وَكِیْلًا۠(۱۷۱) (47) ترجمہ : اے کتاب والو! اپنے دین میں حد سے نہ بڑھو اور اللہ پر سچ کے سوا کوئی بات نہ کہو۔ بیشک مسیح ، مریم کا بیٹا عیسیٰ صرف اللہ کا رسول اور اس کا ایک کلمہ ہے جو اس نے مریم کی طرف بھیجا اور اس کی طرف سے ایک خاص روح ہے تو اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لاؤ اور نہ کہو (کہ معبود) تین ہیں۔ (اِس سے) باز رہو، (یہ) تمہارے لئے بہتر ہے۔ صرف اللہ ہی ایک معبود ہے ، وہ پاک ہے اس سے کہ اس کی کوئی اولاد ہو۔اسی کا ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے اور اللہ کافی کارساز ہے۔ عقل مند انسان خود ہی غور کر لے آسمان و زمین میں جو کچھ ہے سب اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہے،جتنے انسان ہیں سب اسی کے بندے اور مملوک ہیں انہی میں حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام اور حضرت مریم رَضِیَ اللہُ عَنْہَا بھی داخل ہیں اور جب یہ بھی بندے اور مملوک ہیں تو ان کا بیٹا اور بیوی ہونا کیسے مُتَصَوَّر ہو سکتا ہے؟ بلا شُبہ اللہ تعالیٰ ان سب بیہودہ باتوں سے پاک اور مُنَزّہ ہے۔

خود کو اعمال سے بے نیاز جاننا غلط ہے:

یہودیوں اور عیسائیوں کا ایک عقیدہ یہ تھا کہ ہم تو اللہ تعالیٰ کے بیٹے اور اس کے پیارے ہیں۔ان کے اس قول کا مطلب یہ تھا کہ ہم خدا عَزَّ وَجَلَّ کو ایسے پیارے ہیں جیسے بیٹا باپ کو کیونکہ بیٹا کتنا ہی برا ہو مگر باپ کو پیارا ہوتا ہے، ایسے ہی ہم ہیں، یہاں بیٹے سے مراد اولاد نہیں کیونکہ وہ لوگ خود کو اس معنی میں خدا کا بیٹا نہ کہتے تھے۔ان کے رد میں ارشاد فرمایا: قُلْ فَلِمَ یُعَذِّبُكُمْ بِذُنُوْبِكُمْؕ-بَلْ اَنْتُمْ بَشَرٌ مِّمَّنْ خَلَقَؕ-یَغْفِرُ لِمَنْ یَّشَآءُ وَ یُعَذِّبُ مَنْ یَّشَآءُؕ-وَ لِلّٰهِ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ مَا بَیْنَهُمَا٘-وَ اِلَیْهِ الْمَصِیْرُ(۱۸) (48) ترجمہ : اے حبیب! تم فرما دو: (اگر ایسا ہے تو) پھر وہ تمہیں تمہارے گناہوں پر عذاب کیوں دیتا ہے؟ بلکہ تم (بھی) اس کی مخلوق میں سے (عام) آدمی ہو۔ وہ جسے چاہتا ہے بخش دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے سزا دیتا ہے اور آسمانوں اور زمین اور جو کچھ اس کے درمیان ہے سب کی سلطنت اللہ ہی کے لئے ہے اور اسی کی طرف پھرنا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اپنے آپ کو اعمال سے بے نیاز جاننا عیسائیوں کا عقیدہ ہے۔ آج کل بعض اہلِ بیت سے محبت کے دعوے دار اور بعض جاہل فقیر بھی یہی اعمال سے بے نیازی کا عقیدہ رکھتے ہیں۔ایسا عقیدہ بے دینی ہے کیونکہ قرآنِ کریم نے جگہ جگہ ایمان کے ساتھ اعمالِ صالحہ کا ذکر فرمایا۔

حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام زندہ ہیں:

حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام کے بارے میں مسلمانوں کا یہ عقیدہ ہے کہ آپ عَلَیْہِ السَّلَام کی ابھی تک وفات نہیں ہوئی ۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام سے فرمایا: یٰعِیْسٰۤى اِنِّیْ مُتَوَفِّیْكَ وَ رَافِعُكَ اِلَیَّ وَ مُطَهِّرُكَ مِنَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا وَ جَاعِلُ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْكَ فَوْقَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْۤا اِلٰى یَوْمِ الْقِیٰمَةِۚ-ثُمَّ اِلَیَّ مَرْجِعُكُمْ فَاَحْكُمُ بَیْنَكُمْ فِیْمَا كُنْتُمْ فِیْهِ تَخْتَلِفُوْنَ(۵۵) (49) ترجمہ : اے عیسیٰ! میں تمہیں پوری عمر تک پہنچاؤں گا اور تجھے اپنی طرف اٹھالوں گا اور تجھے کافروں سے نجات عطاکروں گا اور تیری پیروی کرنے والوں کو قیامت تک تیرے منکروں پر غلبہ دوں گا پھر تم سب میری طرف پلٹ کر آؤ گے توجن باتوں میں تم جھگڑتے تھے ان باتوں کا میں تمہارے درمیان فیصلہ کردوں گا۔ مرزائیوں نے آیت ِپاک کے ان الفاظ ’’اِنِّیْ مُتَوَفِّیْكَ‘‘کوبنیاد بنا کر یہود و نصاریٰ کی پیروی میں حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام کی وفات کا دعویٰ کیا اور یہ سراسر غلط ہے کیونکہ پہلی بات تو یہ ہے کہ تَوَفّٰی کا حقیقی معنی ہے’’پورا کرنا‘‘ جیسے قرآن پاک میں ہے: وَ اِبْرٰهِیْمَ الَّذِیْ وَفّٰۤىۙ(۳۷) (50) ترجمہ : اور ابراہیم کے جس نے (احکام کو)پوری طرح ادا کیا۔ اور یہ موت کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے، لیکن یہ ا س کا مجازی معنی ہے اور جب تک کوئی واضح قرینہ موجود نہ ہو اس وقت تک لفظ کا حقیقی معنی چھوڑ کر مجازی معنی مراد نہیں لیا جا سکتا، اور یہاں کوئی ایسا قرینہ موجود نہیں کہ تَوَفّٰی کا معنی موت کیا جائے بلکہ ا س کا حقیقی معنی مراد لینے پر واضح قرائن بھی موجود ہیں اور وہ قرائن احادیثِ مبارکہ ہیں جن میں یہ بیان ہے کہ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام زندہ آسمان پر اٹھائے گئے اور قربِ قیامت میں واپس تشریف لائیں گے۔ لہٰذا اس آیت سے حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام کی وفات ثابت نہیں ہوتی۔ دوسرے نمبر پر بالفرض اگر تَوَفّٰی کا معنیٰ ’’وفات دینا‘‘ہی ہے تو اس سے یہ کہاں ثابت ہوا کہ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام وفات پاچکے ہیں۔ صرف یہ فرمایا ہے کہ ’’اے عیسیٰ! میں تجھے وفات دوں گا‘‘ تو یہ بات تو ہم بھی مانتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام بھی وفات پائیں گے، یہ معنی نہیں ہے کہ ہم نے تجھے فوت کردیا۔ اب یہ بات کہ آیت میں تَوَفّٰی یعنی وفات دینے کاپہلے تذکرہ ہے اور اٹھائے جانے کا بعد میں اور چونکہ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام اٹھائے جاچکے ہیں لہٰذا ان کی وفات بھی پہلے ثابت ہوگئی تو اس کا جواب یہ ہے کہ آیت میں’’مُتَوَفِّیْكَ ‘‘اور’’رَافِعُكَ ‘‘کے درمیان میں’’واؤ‘‘ہے اور عربی زبان میں ’’واؤ‘‘ ترتیب کیلئے نہیں آتی کہ جس کا مطلب یہ نکلے کہ وفات پہلے ہوئی اور اٹھایا جانا بعد میں ، جیسے قرآن پاک میں حضرت مریم رَضِیَ اللہُ عَنْہَا سے فرمایا گیا: وَ اسْجُدِیْ وَ ارْكَعِیْ (51) ترجمہ : اور سجدہ اور رکوع کر۔ یہاں سجدے کا پہلے تذکرہ ہے اور رکوع کا بعد میں ، تو کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ حضرت مریم رَضِیَ اللہُ عَنْہَا رکوع بعد میں کرتی تھیں اور سجدہ پہلے ، ہر گز نہیں۔ لہٰذا جیسے یہاں’’واؤ‘‘ کا آنا ترتیب کیلئے نہیں ہے ایسے ہی مذکورہ بالا آیت میں’’واؤ‘‘ترتیب کیلئے نہیں ہے۔ باب:5

احادیث میں حضرت عیسٰی عَلَیْہِ السَّلَام کا تذکرہ

کثیر احادیث میں آپ عَلَیْہِ السَّلَام کا ذکرِ خیر کیا گیا ہے ، یہاں ان میں سے10 احادیث ملاحظہ ہوں

پیدائش کے وقت شیطان حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام کو نہ چھو سکا:

حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ عَنْہ سے روایت ہے،نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: اولادِ آدم میں کوئی ایسا نہیں جسے پیدائش کے وقت شیطان چھوتا نہ ہو، وہ بچہ شیطان کے چھونے سے ہی چیخ کر روتاہےسوائے حضرت مریم رَضِیَ اللہُ عَنْہَا اور ان کے فرزند(حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام ) کے۔ (52) یاد رہے کہ ولادت کے وقت حضور اکرم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو بھی شیطان نہیں چھو سکا تھا اور تحقیق سے یہ بات ثابت ہے کہ حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم عام بچوں کی طرح روتے ہوئے پیدا نہیں ہوئے تھے۔

چور کے جواب پر حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام کا طرزِ عمل:

حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ عَنْہ سے روایت ہے، رسولاللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا:حضرت عیسیٰ بن مریم عَلَیْہِ السَّلَام نے ایک شخص کو چوری کرتے ہوئے دیکھا تو اس سے کہا: کیا تو نے چوری کی؟اس نے جواب دیا: بالکل نہیں،اس کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں۔حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام نے فرمایا: میں اللہ تعالیٰ پر ایمان لایا اور میری آنکھوں نے دھوکہ کھایا۔(53)

شبِ معراج حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام سے ملاقات:

حضرت مالک بن صَعْصَعَہ رَضِیَ اللہُ عَنْہ سے روایت ہے،حضور اقدس صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے (معراج والی طویل حدیث میں)ارشاد فرمایا: پھر ہم دوسرے آسمان پر گئے، کہا گیا: یہ کون ہیں؟فرمایا: جبریل۔کہا گیا: آپ کے ساتھ کون ہیں؟فرمایا: محمد مصطفیٰ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ۔کہا گیا: انہیں بلایا گیا ہے؟ فرمایا: ہاں، کہا گیا: انہیں خوش آمدید ہو اور آنے والے کیا ہی اچھے ہیں۔اس کے بعد میں حضرت عیسی اور یحییٰ عَلَیْہِمَا السَّلَام کے پاس آیا۔انہوں نے کہا: بھائی اور نبی کی طرف سے آپ کو خوش آمدید ہو۔ (54) مسلم شریف کی روایت میں ہے:پھر ہم دوسرے آسمان پر گئے ،حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام نے دروازہ کھولنے کا فرمایا تو کہا گیا:آپ کون ہیں؟فرمایا:جبریل۔کہا گیا:آپ کے ساتھ کون ہیں؟ فرمایا: محمد صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ۔کہا گیا:کیا انہیں بلایا گیا ہے؟فرمایا:بیشک انہیں بلایا گیا ہے،چنانچہ ہمارے لیے دروازہ کھول دیا گیا تو میری ملاقات دو خالہ زاد یعنی حضرت عیسیٰ بن مریم اور حضرت یحیٰ بن زکریا عَلَیْہِمَا السَّلَام سے ہوئی، انہوں نے خوش آمدید کہا اور میرے لیے دعائے خیر کی۔(55) یہاں ایک بات یاد رہے کہ حضرت یحیٰ عَلَیْہِ السَّلَام حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام کی والدہ کی خالہ کے فرزند تھےاور حدیث پاک میں عزت و تکریم کی بنا پر مجازاً دونوں انبیاءِ کرام عَلَیْہِمَا السَّلَام کو خالہ زاد کہا گیا ہے جیسے ہمارے ہاں رواج ہے کہ والدہ کی خالہ اور ماموں کو بچے بھی خالہ اور ماموں کہہ دیتے ہیں۔

قربِ قیامت میں نزولِ عیسیٰ کا بیان:

رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا :حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام میری امت پر خلیفہ ہو کر نازل ہوں گے، صلیب توڑیں گے،خنزیروں کو قتل کریں گے، چالیس سال رہیں گے، نکاح فرمائیں گے، اولاد ہوگی اور پھر آپ عَلَیْہِ السَّلَام کا وصال ہوگا۔ وہ امت کیسے ہلاک ہو جس کا اوّل میں ہوں اور آخر حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام اور وسط میں میرے اہلِ بیت میں سے حضرت مہدی رَضِیَ اللہُ عَنْہ ۔ (56) حضرت جابر بن عبد اللہ رَضِیَ اللہُ عَنْہُمَا سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشادفرمایا: میری امت کی ایک جماعت حق پر قیامت تک لڑتی رہے گی۔فرمایا: تب حضرت عیسیٰ بن مریم عَلَیْہِ السَّلَام نازل ہوں گے تو اس جماعت کا امیر کہے گا: آئیے! ہمیں نماز پڑھائیے۔ آپ عَلَیْہِ السَّلَام فرمائیں گے: نہیں۔ تم میں سے بعض بعض پر امیر ہیں، یہ اللہ کی طرف سے اس امت کے احترام کی وجہ سے ہوگا۔(57) حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ عَنْہ سے روایت ہے،نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: انبیاء عَلَیْہِمُ السَّلَام علاتی بھائی ہیں(یعنی)ان کا دین ایک ہے اور مائیں( یعنی شرعی احکام) مختلف ہیں ۔ میں لوگوں میں حضرت عیسیٰ بن مریم عَلَیْہِ السَّلَام سے قریب تر ہوں کیونکہ میرے اور ان کے درمیان کوئی نبی نہیں۔وہ یقیناً نازل ہونے والے ہیں، جب تم انہیں دیکھو تو پہچان لینا، وہ رنگے ہوئے دو کپڑوں میں، سرخ وسفید رنگ والے اوردرمیانے قد کے مرد ہوں گے،ان کے بال سیدھے اور ایسے ہوں گے گویا کہ ان کے سر سے قطرے ٹپک رہے ہیں اگرچہ انہوں نے پانی استعمال نہیں کیا، وہ صلیب کو توڑدیں گے اور خنزیر کو قتل کردیں گے، جزیہ ختم اور(لوگوں کو دین اسلام کی طرف بلا کر) تمام ادیان منسوخ فرما دیں گے(یعنی جزیہ دے کر اپنے دین پر باقی رہنے کی اجازت بھی ختم ہوجائے گی) حتی کہ اس وقت اسلام کے سوا کوئی دین نہ ہو گا اور اللہ آپ کے زمانے میں مسیح دجال کذاب کو ہلاک فرما دے گا اور زمین میں ایسا امن قائم ہوگا کہ اونٹ اورشیر، چیتے اور گائے، بھیڑیے اور بکریاں ایک ساتھ چراگاہ میں چریں گے، بچے سانپوں کے ساتھ کھیلیں گے، کوئی بھی ایک دوسرے کو نقصان نہ پہنچائے گا،جتنا عرصہ اللہ تعالیٰ چاہے گاآپ زمین میں رہیں گے پھر وفات پا جائیں گے اور مسلمان آپ کی نماز جنازہ پڑھ کر دفنا دیں گے۔(58) حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ عَنْہ سے روایت ہے ، رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا:حضرت عیسیٰ بن مریم عَلَیْہِ السَّلَام ضرور انصاف کے ساتھ فیصلہ کرنے والے اور عادل حکمران بن کر اتریں گے ۔وہ ضرور اس راستے سے حج یا عمرہ یا دونوں کی نیت کرتے ہوئے گزریں گے ،وہ ضرور میرے روضے پر آکر مجھے سلام کریں گے اور میں ان کے سلام کا جواب دوں گا۔حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ عَنْہ فرماتے تھے: اے میرے بھتیجو! اگر تم انہیں دیکھو تو ابو ہریرہ کاسلام عرض کر دینا۔(59)

نارِ جہنم سے محفوظ لوگ:

حضرت ثوبان رَضِیَ اللہُ عَنْہ سے روایت ہے،نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: میری امت کے دو گروہوں کو اللہ تعالی نے آگ سے محفوظ فرما دیا ہے۔ایک وہ گروہ جو ہند میں جہاد کرے گا اور دوسرا وہ گروہ جوحضرت عیسٰی بن مریم عَلَیْہِ السَّلَام کے ساتھ ہو گا۔(60)

روزِ قیامت مخلوق کی رہنمائی:

حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ عَنْہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے (شفاعت والی طویل حدیث میں )ارشاد فرمایا: (موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام فرمائیں گے)تم لوگ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام کے پاس جاؤ۔ تو لوگ آپ عَلَیْہِ السَّلَام کی بارگاہ میں حاضر ہو کر عرض کریں گے: اے عیسیٰ! عَلَیْہِ السَّلَام ، آپ اللہ کے رسول ہیں، آپ نے جھولے میں لوگوں سے کلام کیا، آپ اس کا کلمہ ہیں جو اس نے جنابِ مریم میں ڈالا اور آپ اس کی طرف سے خاص روح ہیں، آپ ہمارے لیے اپنے رب کے پاس شفاعت کیجیے، کیا آپ نہیں دیکھتے کہ ہم کس حال میں ہیں؟ کیا آپ نہیں دیکھتے کہ ہمیں کیا پہنچا ہے؟یہ سن کر حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام ان سے کہیں گے: میرے رب نے آج ایسا غضب کیا ہے کہ ایسا غضب نہ اس سے پہلے کیا اور نہ ہی آج کے بعد کرے گا، سو مجھے اپنی فکر ہے، مجھے اپنی فکر ہے، تم میرے سوا کسی اور کے پاس چلےجاؤ ،تم محمد مصطفیٰ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے پاس چلے جاؤ۔(61)
1…پ۳،اٰل عمران:۴۹-۵۱. 2… پ۲۵،الزخرف:۶۳، ۶۴. 3…پ۲۸،الصف:۶. 4… خازن،الصف،تحت الاٰیة:۶، ۴/۲۶۲. 5… پ۷،المائدة:۱۱۲. 6… پ۷،المائدة:۱۱۲. 7…خازن،المائدة،تحت الاٰية:۱۱۲ ،۱/۵۳۹،ملتقطاً. 8… پ۷،المائدة:۱۱۳. 9… خازن،المائدة،تحت الاٰية:۱۱۲ ،۱/۵۳۹. 10… پ۷،المائدة:۱۱۴. 11…پ۷،المائدة:۱۱۵. 12… جلالین،المائدة،تحت الاٰیة:۱۱۵،ص۱۱۱. 13… جمل،المائدة،تحت الاٰیة:۱۱۵،۲/۳۰۴،ملتقطاً. 14… پ۶،المائدة:۷۸. 15…پ۶،المائدة:۷۹. 16… ترمذی،کتاب التفسیر،باب ومن سورة المائدة، ۵/۳۵، حدیث:۳۰۵۸. 17… قرطبی، اٰل عمران، تحت الاٰیة:۵۰، ۲/۷۴، الجزء الرابع، ملتقطاً. 18…پ۳،اٰل عمران:۵۲ . 19…پ۳،اٰل عمران:۵۲، ۵۳. 20…پ۳،اٰل عمران:۵۵. 21… جمل، اٰل عمران، تحت الاٰیة:۵۷، ۱/۴۲۷. 22… مدارک،النساء،تحت الاٰية:۱۵۷، ص۲۶۳-۲۶۴. 23…پ۶،النساء:۱۵۷، ۱۵۸. 24… تفسیر جمل، اٰل عمران، تحت الاٰیة:۵۷، ۱/۴۲۷. 25…پ۶،المائدة:۱۴. 26…خازن،المائدة،تحت الاٰية:۱۴، ۱/۴۷۷. 27…پ۶،النساء:۱۵۹. 28… قرطبی،النساء،تحت الاٰية:۱۵۹، ۳/۲۹۸، الجزء الخامس، جلالین،النساء،تحت الاٰية:۱۵۹، ص۹۱. 29… بغوی،النساء،تحت الاٰية:۱۵۹، ۱/۳۹۷. 30…خازن،النساء،تحت الاٰية:۱۵۹، ۱/۴۴۸-۴۴۹، ملتقطاً. 31…پ۷،المائدة:۱۱۰. 32…پ۷،المائدة:۱۱۶. 33… پ۷،المائدة:۱۱۶. 34… پ۷،المائدة:۱۱۷. 35…پ۷،المائدة:۱۱۸. 36… پ۱۶،مریم:۳۷. 37… پ۲۵،الزخرف: ۶۵. 38… خازن،النساء،تحت الاٰية:۱۷۱، ۱/۴۵۴، ملتقطاً. 39…خازن،المائدة،تحت الاٰية:۷۲، ۱/۵۱۴. 40…پ۶،المائدة:۷۲. 41…پ۶،المائدة:۱۷. 42… پ۶،المائدة:۷۵. 43… مدارک،مریم،تحت الاٰیة:۳۷، ص۶۷۳. 44…خزائن العرفان،مریم،تحت الاٰیۃ:۳۷، ص۵۷۴۔ 45…پ۱۶،مریم:۳۵. 46…پ۶،المائدة:۷۳، ۷۴. 47…پ۶،النساء:۱۷۱. 48… پ۶،المائدة:۱۸. 49…پ۳،اٰل عمران:۵۵. 50… پ۲۷،النجم:۳۷. 51…پ۳،اٰل عمران:۴۳. 52… بخاری،کتاب احادیث الانبیاء،باب قول اللہ تعالی: واذکر فی الکتاب مریم۔۔۔الخ، ۲/۴۵۳، حدیث:۳۴۳۱. 53… مسلم،کتاب الفضائل،باب فضائل عیسی، ص۹۹۰، حدیث:۶۱۳۷. 54… بخاری،کتاب بدء الخلق،باب ذکر الملائکة، ۲/۳۸۰، حدیث:۳۲۰۷. 55… مسلم،کتاب الایمان،باب الاسراء برسول اللہ...الخ، ص۸۷، حدیث:۴۱۱. 56… مدارک،اٰل عمران،تحت الاٰية:۵۵، ص۱۶۳، ابن عساکر،ذکر من اسمہ عیسٰی،عیسٰی بن مریم، ۴۷/۵۲۲. 57… مسلم،کتاب الایمان، باب نزول عیسی...الخ، ص۸۳، حدیث:۳۹۵. 58… مسند امام احمد،مسند ابی ہریرة، ۳/۴۳۵، حدیث:۹۶۳۸. 59… مستدرک حاکم،کتاب تواریخ المتقدمین من الانبیاء والمرسلین، ہبوط عیسی علیہ السلام...الخ، ۳/۴۹۰، حدیث:۴۲۱۸. 60…نسائی،کتاب الجہاد، غزوة الہند، ص۵۱۷، حدیث:۳۱۷۲. 61… مسلم،کتاب الایمان، باب ادنی اہل الجنة منزلة فیہا، ص۱۰۶، حدیث:۴۸۰.

کتاب کا موضوع

کتاب کا موضوع

Sirat-ul-Jinan

صراط الجنان

موبائل ایپلیکیشن

Marfatul Quran

معرفۃ القرآن

موبائل ایپلیکیشن

Faizan-e-Hadees

فیضانِ حدیث

موبائل ایپلیکیشن

Prayer Time

پریئر ٹائمز

موبائل ایپلیکیشن

Read and Listen

ریڈ اینڈ لسن

موبائل ایپلیکیشن

Islamic EBooks

اسلامک ای بک لائبریری

موبائل ایپلیکیشن

Naat Collection

نعت کلیکشن

موبائل ایپلیکیشن

Bahar-e-Shariyat

بہار شریعت

موبائل ایپلیکیشن