30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں
حضرت ارمیا عَلَیْہِ السَّلَام
آپ عَلَیْہِ السَّلَام بنی اسرائیل کے انبیاء میں سے ایک ہیں،آپ نے بنی اسرائیل کو بخت نصر جیسے ظالم بادشاہ کے مسلط ہونے سے ڈرایا اور رب تعالیٰ کی نافرمانیاں چھوڑ دینے کا حکم دیا لیکن بنی اسرائیل نے آپ عَلَیْہِ السَّلَام کی تکذیب کی جس کی سزا میں یہ بخت نصر کے مظالم کا شکار ہو گئے ۔یہاں ایک باب میں آپ عَلَیْہِ السَّلَام کی مختصر سیرت بیان کی گئی ہے، تفصیل ذیلی سطور میں ملاحظہ فرمائیں۔
باب:1
حضرت ارمیا عَلَیْہِ السَّلَام کا تعارف
نام ونسب:
آپ عَلَیْہِ السَّلَام کا نام ’’ارمیا بن حلقیا‘‘ہے۔ آپ عَلَیْہِ السَّلَام لاوی بن حضرت یعقوب عَلَیْہِ السَّلَام کی اولاد میں سے ہیں۔(1)
اللہ تعالیٰ کے محبوب بندے:
حضرت عبداللہ بن عبد الرحمن سے مروی ہے کہ حضرت ارمیا عَلَیْہِ السَّلَام نے بارگاہِ الٰہی میں عرض کی: اے میرے رب! کون سا بندہ تجھے سب سے زیادہ محبوب ہے؟ارشاد فرمایا: وہ لوگ جو مجھے کثرت سے یاد کرتے ہیں،جو میرے ذکر میں مشغولیت کی وجہ سے مخلوق کو یا دنہیں کرتے۔جنہیں نہ فنا کے وسوسے ستاتے ہیں اور نہ وہ اپنی جانوں کو ہمیشہ رہنے کا آسرا دیتے ہیں،جب دنیوی عیش وعشرت ان کے سامنے پیش کیا جاتا ہے تو وہ بے قرار ہو جاتے ہیں اور جب عیش وعشرت ہٹا لیا جائے تواس سے خوش ہو جاتے ہیں،یہی وہ لوگ ہیں جنہیں میں اپنی محبت اوران کے تصور سے زیادہ نعمتیں عطا کرتا ہوں۔(2)
بنی اسرائیل کو نصیحت اور ان کی بربادی:
حضرت ارمیا عَلَیْہِ السَّلَام بنی اسرائیل کو( گناہوں سے)توبہ کا حکم دیتے اور (باز نہ آنے کی صورت میں) بخت نصر (جیسے ظالم بادشاہ کے مسلط ہونے)سے ڈراتے تھے لیکن بنی اسرائیل ان کی نصیحت پر کوئی توجہ نہ دیتے ،(مسلسل تنبیہ و نصیحت کرتے رہنے کے باجود)جب آپ عَلَیْہِ السَّلَام نے دیکھا کہ یہ لوگ کسی صورت اپنے گناہوں سے باز نہیں آ ئیں گے توآپ عَلَیْہِ السَّلَام ان سے جدا ہو گئے یہاں تک بخت نصر نے حملہ کر کے انہیں تباہ و برباد اور بیت المقدس کو ویران کر دیا۔(3)
بعض روایات میں یہ بھی ہے جب حضر ت ارمیا عَلَیْہِ السَّلَام نے بنی اسرائیل کو رب تعالیٰ کا پیغام پہنچایا اور بنی اسرائیل نے اس پیغام میں وعید و عذاب کی بات سنی تو وہ بھڑک اٹھے ،حضرت ارمیا عَلَیْہِ السَّلَام کو جھٹلایا ، ان پر طرح طرح کے الزام لگائے اور انہیں مجنون کہتے ہوئے پکڑ کر قید کر دیا اور ہاتھ پاؤں میں زنجیریں ڈال دیں ،اس وقت اللہ تعالیٰ نے بخت نصر کو بنی اسرائیل کی طرف بھیج دیا جس کے لشکروں نے بنی اسرائیل کے قلعے محاصرے میں لے لیے،جب محاصرہ طویل ہوا تو مجبور ہو کر بنی اسرائیل نے ہتھیار ڈال دئیے ،اس کے بعد بخت نصر کی فوجوں نے قتل و غارت گری کا بازار گرم کر دیا، ہزاروں کو تہہ تیغ کیا ،گھوڑوں کی ٹاپوں تلے روندا، مسجد بیت المقدس کواجاڑا اور تورات کو جلادیا۔
حضرت وہب بن منبہ فرماتے ہیں :جب بخت نصر قتل و غارت گری سے فارغ ہوا تو اسے بتایا گیا کہ ان لوگوں میں ایک شخص تھے جو انہیں ان مصائب سے ڈرایا کرتے اور تمہارے مسلط ہونے کی خبر دیا کرتے تھے ،وہ ان سے فرماتے تھے کہ تم (یعنی بخت نصر)ان کے جنگجو لوگوں کو قتل کر دو گے ،بوڑھوں، بچوں ، عورتوں اور کمزور لوگوں کو قیدی بنا لو گے ان کی مسجدیں گرا دو گےاور کنیسے جلا دو گے ۔ لیکن انہوں نے نصیحت حاصل کرنے کی بجائے انہیں جھٹلایا،ان پر الزام لگائے ،انہیں مارا اور انہیں قید کر دیا۔بخت نصر نے حکم دیا کہ انہیں قید سے نکال کر میرے سامنے پیش کیا جائے ۔جب آپ عَلَیْہِ السَّلَام تشریف لائے تو بخت نصر نے پوچھا: کیا آپ اس قوم کو ان مصائب سے ڈراتے تھے جو انہیں پہنچے ہیں؟ارشاد فرمایا: ہاں۔ بخت نصر نے کہا:آپ کو یہ کہاں سے معلوم ہوا؟ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ نے مجھے ان کی طرف رسول بنا کر بھیجا لیکن انہوں نے مجھے جھٹلایا۔ بخت نصر نے کہا:انہوں نے آپ کو جھٹلایا ، مارا اور قید کیا؟ارشاد فرمایا: ہاں۔ بخت نصر نے کہا:وہ لوگ کتنے برے ہیں جنہوں نے اپنے نبی کو جھٹلا دیا اور اپنے رب کے پیغام کو نہ مانا۔کیا آپ میرے ساتھ ملنا چاہیں گے تاکہ میں آپ کو عزت و منصب دوں اور اگر آپ چاہیں تو اپنی سر زمین میں ہی قیام فرمائیں ، میری طرف سے آپ کو امان ہے۔حضرت ارمیا عَلَیْہِ السَّلَام نے فرمایا: میں ہمیشہ سے ہی اللہ تعالیٰ کی حفاطت و امان میں ہوں اور اس سے لمحہ بھر بھی نہیں نکلا،اگر بنی اسرائیل اپنے رب تعالیٰ کا حکم مان لیتے تو وہ نہ تجھ سے ڈرتے اور نہ کسی اور سے اور نہ ہی تو ان پر مسلط ہو سکتاتھا۔ یہ سن کر بخت نصر نے آپ عَلَیْہِ السَّلَام کو چھوڑ دیا۔اس کے بعد آپ بیت المقدس میں ہی قیام پزیر ہو گئے ۔(4)
اس واقعہ سے معلوم ہو اکہ گناہوں او ر نافرمانیوں کے سبب ظالم و جابر حکمران کی صورت میں بھی عذاب الٰہی مسلط ہو سکتا ہے لہذا مسلمانوں کو چاہئے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی اطاعت و فرمانبرداری کو مضبوطی سے تھام لیں تاکہ ظالم حکمران کی شکل میں عذابِ الٰہی سے محفوظ رہیں۔
حضرت دانیال عَلَیْہِ السَّلَام
آپ عَلَیْہِ السَّلَام بنی اسرائیل کے انبیاء میں سے ہیں ۔جب بخت نصر نے حملہ کر کے بنی اسرائیل کو قتل و قید کیا تو آپ عَلَیْہِ السَّلَام بھی قید ہونے والوں میں شامل تھے۔آپ کی تبلیغ و نصیحت سے بنی اسرائیل اپنی بد اعمالی سے تائب ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو دوبارہ غلبہ عطا فرما دیا۔قرآن کریم میں آپ عَلَیْہِ السَّلَام کا تذکرہ صراحت کے ساتھ موجود نہیں ہے،البتہ احادیث و آثار وغیرہ میں آپ عَلَیْہِ السَّلَام کا مختصر ذکر خیر ملتا ہے،یہاں آپ عَلَیْہِ السَّلَام کی سیرت دو ابواب میں بیان کی گئی ہے،جس کی تفصیل درج ذیل ہے:
باب:1
حضرت دانیال عَلَیْہِ السَّلَام کا تعارف
نام مبارک:
آپ عَلَیْہِ السَّلَام کا نام ’’دانیال‘‘ہے۔
ولادت:
جس علاقے میں حضرت دانیال عَلَیْہِ السَّلَام کی ولادت ہوئی اس کے بادشاہ کو نجومیوں نے بتایا: آج کی رات تیری سلطنت میں فلاں فلاں اوصاف والا ایک ایسا بچہ پیدا ہو گا جو تیری سلطنت کو تباہ و برباد کر دے گا۔یہ سن کر بادشاہ نے قسم کھائی کہ وہ آج کی رات پیدا ہونے والے ہر بچے کو قتل کر دے گا۔جب حضرت دانیال عَلَیْہِ السَّلَام کی ولادت ہوئی تو بادشاہ کے سپاہیوں نے آپ عَلَیْہِ السَّلَام کو پکڑ کر شیر کی کچھار میں ڈال دیا لیکن قدرتِ الٰہی سے شیرو ں نے آپ عَلَیْہِ السَّلَام کو کچھ بھی نہ کہا بلکہ شیر اور شیرنی آپ عَلَیْہِ السَّلَام کے مبارک تلوے چاٹتے رہے آپ عَلَیْہِ السَّلَام کی والدہ (گھبرائی ہوئی) کچھار کے پاس آئیں تو آپ نے دیکھا کہ شیر اور شیرنی میرے نور نظر کے تلوے چاٹ رہے ہیں (تو یہ دیکھ کر آپ مطمئن اور پر سکون ہو گئیں )یوں اللہ تعالیٰ نے آپ عَلَیْہِ السَّلَام کو قتل سے نجات بخشی یہاں تک کے آپ عَلَیْہِ السَّلَام جوانی کی عمر کو پہنچ گئے۔(5)
حضرت دانیال عَلَیْہِ السَّلَام کی انگوٹھی:
آپ عَلَیْہِ السَّلَام کے پاس ایک انگوٹھی تھی جس کے نگینے پر دو شیروں کی تصویر تھی ، درمیان میں ایک شخص تھے جن کے تلوے شیر چاٹ رہے تھے۔حضرت ابو موسیٰ اشعری رَضِیَ اللہُ عَنْہ نے جب تُستَر شہر فتح کیا تو وہاں سے آپ کو یہ انگوٹھی بھی ملی ،اس کے بارے میں وہاں کے اہل علم سے پوچھا تو انہوں نے کہا:اس انگوٹھی کے نگینے پر اللہ تعالیٰ نے حضرت دانیال عَلَیْہِ السَّلَام اوران کے تلوے چاٹنے والے دو شیروں کی صورت نقش فرما دی تھی تاکہ اللہ تعالیٰ کا یہ انعام ہمیشہ حضرت دانیال عَلَیْہِ السَّلَام کے پیش نظر رہے۔ (6)
امتِ مصطفیٰ کی تعریف:
حضرت قتادہ رَضِیَ اللہُ عَنْہ فرماتے ہیں:ہمیں بتایا گیا ہے کہ حضرت دانیال عَلَیْہِ السَّلَام نے محمد مصطفیٰ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی امت کی تعریف کی اور فرمایا:وہ ایسی نماز پڑھنے والے ہوں گے کہ اگر ویسی نماز حضرت نوح عَلَیْہِ السَّلَام کی قوم پڑھ لیتی تو وہ غرق نہ ہو تی ،یا قوم عاد کے لوگ پڑھ لیتے تو ان پر خشک آندھی کا عذاب نہ بھیجا جاتایاثمودقبیلے کے لوگ پڑھ لیتے تو انہیں ہولناک چیخ اپنی گرفت میں نہ لیتی۔حضرت قتادہ رَضِیَ اللہُ عَنْہ فرماتے ہیں:(اے مسلمانو!)نماز پڑھنا تم پر لاز م ہے کیونکہ یہ اہلِ ایمان کے اچھے اخلاق میں سے ایک خُلق بھی ہے۔(7)
بنی اسرائیل کا پہلا فساد اور اس کا انجام:
تورات میں بنی اسرائیل کو بتا دیا گیا تھا کہ
لَتُفْسِدُنَّ فِی الْاَرْضِ مَرَّتَیْنِ وَ لَتَعْلُنَّ عُلُوًّا كَبِیْرًا(۴) (8)
ترجمہ :ضرور تم زمین میں دومرتبہ فساد کرو گے اور تم ضرور بڑا تکبرکرو گے۔
چنانچہ جب پہلے فساد کا وقت آیا تواس کا ظہور یوں ہوا کہ بنی اسرائیل تورات کے احکام کی مخالفت کرنے لگے، اطاعتِ الٰہی سے منہ موڑ لیا،غرور و تکبر اور کمزوروں پر ظلم و ستم شروع کر دیا اور انبیاءِ کرام عَلَیْہِ السَّلَام کو شہید کرنے لگے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی سزا میں شہر بابل کے ظالم و جابر حکمران بخت نصر کو بنی اسرائیل پر مسلط کر دیا،اس نے بنی اسرائیل کے علماء کو قتل کیا ، تورات کو جلایا ، مسجد بیت المقدس کو خراب اور ویران کیا اور بنی اسرائیل کے ستّر ہزارافراد کو گرفتار کر لیا۔اس واقعہ کا ذکر قرآن پاک میں ان الفاظ سے کیا گیا ہے:
فَاِذَا جَآءَ وَعْدُ اُوْلٰىهُمَا بَعَثْنَا عَلَیْكُمْ عِبَادًا لَّنَاۤ اُولِیْ بَاْسٍ شَدِیْدٍ فَجَاسُوْا خِلٰلَ الدِّیَارِ وَ كَانَ وَعْدًا مَّفْعُوْلًا(۵) (9)
ترجمہ :پھر جب ان دو مرتبہ میں سے پہلی بار کا وعدہ آیا توہم نے تم پر اپنے بندے بھیجے جو سخت لڑائی والے تھے تو وہ شہروں کے اندر تمہاری تلاش کےلئے گھس گئے اور یہ ایک وعدہ تھا جسے پورا ہونا تھا۔
حضرت دانیال عَلَیْہِ السَّلَام اور دو شیر:
حضرت علی کَرَّمَ اللہُ وَجْہَہُ الْکَرِیْم فرماتے ہیں:بخت نصر حضرت دانیال عَلَیْہِ السَّلَام کے پاس آیا تو انہیں بھی قید میں ڈالنے کا حکم دیا،پھر اس نے دو شیر منگوائے جنہیں ایک خشک کنویں میں پھینکا اور حضرت دانیال عَلَیْہِ السَّلَام کو بھی اسی کنویں میں ڈال کر اوپر سے کنویں کا منہ بند کر دیا، پھر پانچ دن بعد اسے کھولا تو یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ حضرت دانیال عَلَیْہِ السَّلَام کھڑے ہو کر نماز ادا فرما رہے ہیں اور دونوں شیر کنویں کے ایک کونے میں بیٹھے ہیں ،ان شیروں نے حضرت دانیال عَلَیْہِ السَّلَام کو کچھ بھی نہ کہا۔بخت نصر نے کہا:مجھے بتائیں کہ آپ نے کیا پڑھا جس سے یہ شیر آپ سے دور رہے۔ارشاد فرمایا: میں نے یہ کہا تھا:
تمام تعریفیں اس اللہ تعالیٰ کے لیے ہیں جو اپنا ذکر کرنے والے کو بھولتا نہیں۔سب تعریفیں اس اللہ تعالیٰ کے لیے ہیں جو اسے نا مراد نہیں کرتا جس نے اسے پکارا۔ ہر تعریف اس اللہ تعالی کے لیے ہے جواپنے اوپر بھروسہ کرنے والے کو کسی اور کے سپرد نہیں کرتا۔ ہر تعریف اس اللہ تعالیٰ کے لیے ہے جو ہماری تمام کوششیں ناکام ہونے کے باوجود بھی ہماری امیدوں کا مرکز ہے ۔تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جو اس وقت بھی ہماری امید گاہ ہو تا ہے جب ہم اپنے اعمال کے سبب برے گمانوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ سب تعریفیں اس اللہ تعالیٰ کے لیے ہیں جو ہمارے کرب و الم کے لمحات میں ہماری تکلیف دور کر دیتا ہے۔سبھی تعریفیں اس اللہ تعالیٰ کے لیے ہیں جو نیکی کا بہترین صلہ عطا فرماتا ہے۔ تمام تعریفیں اس اللہ تعالیٰ کے لیے ہیں جو صبر کی جزا نجات کی صورت میں عطا کرتا ہے۔(10)
حضرت دانیال عَلَیْہِ السَّلَام کے لیے کھانے کا انتظام:
جب اس کنویں میں آپ عَلَیْہِ السَّلَام کو بھوک پیاس محسوس ہوئی تو اللہ تعالیٰ نے ملک شام میں حضرت ارمیا عَلَیْہِ السَّلَام کو وحی فرمائی کہ حضرت دانیال عَلَیْہِ السَّلَام کے لیے کھانے پینے کا انتظام کریں، انہوں نے عرض کی: اے میرے رب! میں ارضِ مقدس میں ہوں جبکہ حضرت دانیال عَلَیْہِ السَّلَام عراق کے شہر بابل میں ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے وحی فرمائی: ہم نے جس چیز کا حکم دیا ہے اسے تیار کرو، ہم اسے بھیج دیں گے جو تمہیں اور تمہارے تیار کردہ کھانے پینے کے سامان کو اٹھا کر بابل پہنچا دے۔چنانچہ جب حضرت ارمیا عَلَیْہِ السَّلَام نے کھانا تیار کر لیاتو اللہ تعالیٰ نے ایک فرشتہ بھیجا جس نے حضرت ارمیا عَلَیْہِ السَّلَام اور آپ کے تیار کردہ کھانے پینے کی چیزوں کو کنویں کے کنارےپر پہنچا دیا۔گڑھے کے کنارے پر کسی کی موجودگی کا احساس ہوا تو حضرت دانیال عَلَیْہِ السَّلَام نے پوچھا: کون ہے؟ آپ عَلَیْہِ السَّلَام نے فرمایا: میں ارمیا ہوں۔ حضرت دانیال عَلَیْہِ السَّلَام نے فرمایا: کیسے آنا ہوا؟ فرمایا: مجھے اللہ تعالیٰ نے بھیجا ہے۔ حضرت دانیال عَلَیْہِ السَّلَام نے پوچھا: میرے رب نے مجھے یاد کیا ہے؟حضرت ارمیا عَلَیْہِ السَّلَام نے جواب دیا: جی ہاں۔ (11)
حضرت دانیال عَلَیْہِ السَّلَام کے مکاشفات اور خوابوں کی تعبیر:
آپ عَلَیْہِ السَّلَام کشف میں اعلیٰ مقام اور خواب کی تعبیر بیان کرنے میں بہت مہارت رکھتے تھے ۔عہد نامہ قدیم میں بھی آپ عَلَیْہِ السَّلَام کے مکاشفات اورخوابوں کی تعبیر کا ذکر موجود ہے جن میں سے ایک خواب کا خلاصہ یہ ہے کہ بابل کے بادشاہ بخت نصر نے ایک پریشان کن خواب دیکھا اور صبح اٹھا تو اسے وہ خواب بھی یاد نہ رہا جس سے وہ مزید پریشان ہو گیا۔ بادشاہ نے حضرت دانیال عَلَیْہِ السَّلَام سے پوچھا: کیا آپ مجھے میرا خواب اور اس کی تعبیر بتا سکتے ہیں۔ حضرت دانیال عَلَیْہِ السَّلَام نے فرمایا:اے بادشاہ !تو جس راز کے بارے میں پوچھ رہا ہے اسے کوئی دانش مند،جادو گر اور نجومی نہیں بتا سکتا۔ہاں!آسمان کا مالک ایسا خدا ہے جو پوشیدہ رازکو ظاہر کرتا ہے۔اس خدا نےبخت نصر کو اس کے خواب میں وہ بتادیا جو ہونے والا ہے ۔اے بادشاہ! تو اپنے بستر پر لیٹے مستقبل کے بارے میں سوچ رہا تھا(اسی حال میں تجھے نیند آگئی )اور پوشیدہ چیزوں کو ظاہر کرنے والے خدا نے تجھے وہ کچھ دکھا دیا جو مستقبل میں ہونے والا ہے ۔خدا نے وہ راز مجھے بھی بتا دیا ہے ۔اے بادشاہ!خواب میں تو نے اپنے سامنے ایک بڑی مورتی کھڑی دیکھی۔یہ بہت بڑی،چمکدار اورہیبت ناک تھی ۔اس کا سر خالص سونے کا،سینہ اور بازو چاندی کے ،پیٹ اور رانیں تانبے کی بنی ہوئی تھیں۔اس کی پنڈلیاں لوہے کی جبکہ قدم لوہے اور مٹی سے بنے تھے۔جب تم اس مورتی کی جانب دیکھ رہے تھے تو تمہاری نظروں کے سامنے پتھر کا ایک ٹکڑا گر پڑا حالانکہ اسے کسی شخص نے کاٹا نہیں تھا۔پھر وہ ٹکڑا اس مورتی کے پیروں سے ٹکرایا تو پیر ٹکڑوں میں بٹ گئے ۔پھر مٹی، تانبا،چاندی اور سونا بھی چور چور ہو گئے ،اس مورتی کے ٹکڑے کھیت میں بھوسے کی مانند پڑے تھے ،پھر ہوا ان ٹکڑوں کو اڑا کر لے گئی اور وہاں کچھ بھی نہ بچا۔پھر پتھر کا وہ ٹکڑا ایک بڑے پہاڑ کی شکل میں بدل گیا اور ساری زمین پر چھا گیا۔اے بادشاہ! یہ تو رہا تمہارا خواب اور اب ہم تمہیں اس کی تعبیر بتاتے ہیں۔اے بادشاہ! تمہیں آسمان کے مالک خدا نے سلطنت، اختیار، شان و شوکت اور قوت عطا کی ہے ۔تم جنگل کے جانوروں اور پرندوں پر حکومت کرتے ہو خواہ وہ کہیں بھی ہو ں۔اے بادشاہ!اس مورتی کی اوپر جو سونے کا سر تھا اس سے مراد تم ہو۔چاندی کے حصے سے مراد تمہارے بعد آنے والی سلطنت ہے جو تمہاری سلطنت کی طرح بڑی نہ ہو گی۔اس کے بعد ایک تیسری سلطنت آئے گی جو ساری زمین پر حکومت کرے گی۔تانبے کے حصے سے اس سلطنت کی طرف اشارہ ہے۔اس کے بعد ایک چوتھی حکومت آئے گی جو لوہے کی مانند مضبوط ہو گی ،جیسے لوہے سے چیزیں ٹوٹ کر چکنا چور ہو جاتی ہیں ایسے ہی یہ چوتھی حکومت دوسری سلطنتوں کے ٹکڑے کر کے انہیں کچل ڈالے گی۔اور جو تونے مورتی کے پیر لوہے اور مٹی سے بنے دیکھے، اس سے مراد یہ ہے کہ چوتھی حکومت ایک تقسیم شدہ حکومت ہو گی۔اس حکومت کا کچھ حصہ تو لوہے کی مانند مضبوط ہو گا اور کچھ مٹی کی طرح کمزور۔تم نے جو لوہے کو مٹی سے ملا ہوا دیکھا،اس سے مراد یہ ہے کہ جیسے لوہا اور مٹی کبھی آپس میں مل نہیں سکتے اسی طرح چوتھی حکومت کے لوگوں میں باہمی ہم آہنگی نہ ہو گی۔انہی دنوں میں آسمان کا مالک خداایک سلطنت قائم فرمائے گاجو ہمیشہ ہمیشہ رہے گی،اس میں تبدیلی اور زوال نہ آئے گا۔یہ تمام ممالک اور ان کے بادشاہوں پر غالب آ کر ان کی حکومتوں کا خاتمہ کر دے گی اور قیامت تک قائم رہے گی۔یہ اس پتھر کی تعبیر ہےجسے تو نے پہاڑ سے کسی توڑنے والے کے بغیرٹوٹتے دیکھا یہاں تک کہ اس نے لوہے ، تانبے اورچاندی سونے کو چکنا چور کر دیا۔(12)
بنی اسرائیل کی توبہ اور دانیال عَلَیْہِ السَّلَام کی حکمرانی :
بنی اسرائیل نے طویل عرصے تک بخت نصر کا ظلم و ستم اور قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں ،پھر ایک وقت ایسا آیا کہ یہ لوگ سچے دل سے رب تعالیٰ کی بارگاہ میں اپنی نافرمانیوں پر معافی کے طلبگار ہوئے ، اپنے گناہوں سے توبہ کی اورتکبر و فساد سے باز آ گئے تو اللہ تعالیٰ نے ان پر یوں کرم فرمایا کہ انہیں اپنے اوپر مسلط لوگوں پر غلبہ عطا کر دیا ، مال و دولت اوران کے بیٹوں سے ان کی مدد فرمائی اور ان کی تعداد کو بڑھا دیا۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:
ثُمَّ رَدَدْنَا لَكُمُ الْكَرَّةَ عَلَیْهِمْ وَ اَمْدَدْنٰكُمْ بِاَمْوَالٍ وَّ بَنِیْنَ وَ جَعَلْنٰكُمْ اَكْثَرَ نَفِیْرًا(۶) اِنْ اَحْسَنْتُمْ اَحْسَنْتُمْ لِاَنْفُسِكُمْ- وَ اِنْ اَسَاْتُمْ فَلَهَاؕ- (13)
ترجمہ : پھر ہم نے تمہاراغلبہ ان پر اُلٹ دیا اور مالوں اور بیٹوں کے ساتھ تمہاری مدد کی اور ہم نے تمہاری تعداد بھی زیادہ کردی۔اگر تم بھلائی کرو گے تو تم اپنے لئے ہی بہتر کرو گے اور اگر تم برا کرو گے تو تمہاری جانوں کےلئے ہی ہوگا۔
اس غلبے کی صورت یوں ہوئی کہ جب ملک فارس کے ایک بادشاہ نے بابل پر حملہ کیا اوربخت نصر کی فوجوں کو شکست دے کر بابل فتح کر لیا۔ اللہ تعالیٰ نے ا س بادشاہ کے دل میں بنی اسرائیل کے لئے شفقت ڈال دی چنانچہ اس نے انہیں قید سے آزادکر دیا ، پھر انہیں ان کے وطن روانہ کر کے حضرت دانیال عَلَیْہِ السَّلَام کو ان کا بادشاہ مقرر کر دیا۔ (14)
حضرت دانیال عَلَیْہِ السَّلَام کی دعا:
حضرت ابو الاشعث احمری رَضِیَ اللہُ عَنْہ سے روایت ہے،حضور اکرم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا:بیشک حضرت دانیال عَلَیْہِ السَّلَام نے دعا فرمائی تھی کہ ان کی تدفین محمد مصطفیٰ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی امت کرے۔(15)
حضرت دانیال عَلَیْہِ السَّلَام کی تدفین:
آپ عَلَیْہِ السَّلَام کی یہ دعا قبول ہوئی اور بعدِ وفات آپ عَلَیْہِ السَّلَام کا جسمِ پاک صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ عَنْہُمْ کے زمانے تک ایک تابوت میں رہا۔ حضرتانس بن مالک رَضِیَ اللہُ عَنْہ فرماتے ہیں:جب صحابہ کرام رَضِیَ اللہُ عَنْہُمْ نے تُسْتَر کو فتح کیا تو وہاں تابوت میں ایک شخص کا جسم دیکھا۔ وہاں کے لوگ اس تابوت کے وسیلے سے غلبہ و بارش طلب کیا کرتے تھے۔ حضرت ابوموسیٰ اشعری رَضِیَ اللہُ عَنْہ نے امیر المومنین حضرت عمر بن خطاب رَضِیَ اللہُ عَنْہ کی طرف خط لکھا اور سارا واقعہ سنایا۔حضرت عمر رَضِیَ اللہُ عَنْہ نے جواب میں لکھا: یہ اللہ تعالیٰ کے نبیوں میں سے ایک نبی ہیں۔ان کے بدن پاک کو نہ آگ کھاتی ہے نہ زمین۔ تم اور تمہارا ایک ساتھی کوئی ایسی جگہ دیکھو جس کا تم دونوں کے علاوہ کسی کو علم نہ ہو، وہاں اس تابوت کو دفن کر دو۔چنانچہ حضرت ابو موسیٰ اشعری رَضِیَ اللہُ عَنْہ نے ایک گمنام جگہ پر ان کی تدفین فرما دی۔(16)
ایک روایت میں ہے کہ شام کی فتوحات کےدوران ’’تستر‘‘ کے مقام پر اسلامی لشکر کو حضرت دانیا ل عَلَیْہِ السَّلَام کا جسد اطہر ملا ، ان کے جسدِ مبارک کے ساتھ بہت سا مال بھی رکھا ہوا تھا اور ساتھ ہی یہ تحریر تھا’’ جو بھی اپنی حاجات کے لیےمخصوص وقت تک یہ مال لینا چاہے تو لے لے مگر وقت پر واپس کردے ورنہ اسے برص کی بیماری لگ جائےگی۔‘‘ حضرت ابو موسیٰ اشعری رَضِیَ اللہُ عَنْہ (حصولِ برکت کے لیے)ان سے لپٹ گئے اور جسدِ اطہر کو بوسہ دیا۔ پھر امیر المؤمنین حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ عَنْہ کو ان کے بارے میں ایک مکتوب روانہ کیا۔ آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہ نے حکم دیا کہ انہیں غسل وکفن دے کر ان کی نماز جنازہ بھی ادا کرو اور انہیں ویسے دفناؤ جیسے انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ السَّلَام کی تدفین کی جاتی ہےاوران کے قریب سے جو مال ملا ہے اسے بیت المال میں جمع کرادو۔ چنانچہ حضرت ابو موسیٰ اشعری رَضِیَ اللہُ عَنْہ نے ویسا ہی کیا جیسا انہیں حکم دیا گیا۔(17)
آپ عَلَیْہِ السَّلَام کے جسدِ اطہر کے پاس جو مال ملا اس کے متعلق حضرت قتادہ رَضِیَ اللہُ عَنْہ فرماتے ہیں:حضرت دانیال عَلَیْہِ السَّلَام نے دعا مانگی تھی کہ اس مال کے وارث مسلمان ہوں۔یہ دعا یوں قبول ہوئی کہ اللہ تعالیٰ نے آپ عَلَیْہِ السَّلَام کے جسد اطہر کو حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ عَنْہ کے زمانے میں حضرت ابو موسیٰ اشعری رَضِیَ اللہُ عَنْہ کے سامنے ظاہر کردیا، جنہوں نے آپ عَلَیْہِ السَّلَام کے جسد اطہر کو دوبارہ غسل وکفن دیااور مسلمان آپ کے جسد اطہر کے پاس موجود مال کے وارث بن گئے۔(18)
باب:2
احادیث میں حضرت دانیال عَلَیْہِ السَّلَام کا تذکرہ
علمِ رمل کی ممانعت:
مسلم شریف کی حدیث پاک میں ہے ،حضرت معاویہ بن حکم رَضِیَ اللہُ عَنْہ نے عرض کی :ہم میں سے بعض لوگ
خط کھینچتے ہیں (یعنی علم رمل کے طریقہ سے خطوط کھینچ کر غیبی خبریں معلوم کرتے ہیں، ان کا یہ عمل اسلامی شریعت کی رو سے جائز ہے یا نہیں؟)ارشاد فرمایا: انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ السَّلَام میں سے ایک نبی خط کھینچتے تھے تو جس کی لکیر ان کے خط کے موافق ہو تو وہ درست ہے۔(19)
اس حدیث پاک میں جن نبی عَلَیْہِ السَّلَام کا ذکرہے ان سے متعلق شارحین کا ایک قول یہ ہے کہ ان سے مراد حضرت ادریس عَلَیْہِ السَّلَام ہیں اور ایک قول یہ ہے کہ ان سے مراد حضرت دانیال عَلَیْہِ السَّلَام ہیں ۔(20) نیز علم رمل اور اس کے شرعی حکم سے متعلق تفصیل صفحہ151 پر ملاحظہ فرمائیں۔
درندوں کے شر سے بچنے کا وظیفہ:
حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہُ وَجْہَہُ الْکَرِیْم فرماتے ہیں :جب تم ایسی وادی میں ہو جہاں تمہیں درندوں کا ڈر ہو تو یوں کہو:’’ اَعُوْذُ بِرَبِّ دَانْيَالَ وَالْجُبِّ مِنْ شَرِّ الْاَسَدِ ‘‘میں حضرت دانیال عَلَیْہِ السَّلَام اور کنویں کے رب کی پناہ مانگتا ہوں شیر کے شر سے۔ (21)
1…البدایة والنھایة،باب ذکر جماعة من انبیاء بنی اسرائیل…الخ، ومنھم ارمیا بن حلقیا…الخ، ۱/۴۸۴.
2… موسوعة ابن ابی الدنیا،کتاب الاولیاء، ۲/۴۲۱، حدیث:۱۰۶.
3… الانس الجلیل بتاریخ القدس والخلیل،قصة ارمیا علیه السلام، ۱/۲۶۲.
4… البدایة والنھایة،باب ذکر جماعة، من انبیاء بنی اسرائیل…الخ، ذکر خراب بیت المقدس، ۱/۴۸۹، ۴۹۰، ملتقطًا.
5… البدایة والنهایة، ذکر شیء من خبر دانیال عليه السلام، ۱/۴۹۳.
6… البدایة والنهایة، ذکر شیء من خبر دانیال عليه السلام، ۱/۴۹۳، ملتقطاً.
7… در منثور،معارج،تحت الاٰیة:۲۲، ۲۳، ۸/۲۸۴.
8…پ۱۵،بنی اسرائیل:۴.
9…پ۱۵،بنی اسرائیل:۵.
10… موسوعة ابن ابی الدنیا،کتاب الشکر لله عزوجل،الجزء الثانی ، ۱/۵۲۲، حدیث:۱۷۳.
11… موسوعة ابن ابی الدنیا،کتاب القناعة والتعفف، باب انزال الحاجة بالله تعالٰی…الخ ، ۲/۲۸۴، حدیث:۱۴۷.
12…عہد نامہ قدیم ،ص۸۷۲،۸۷۱،ملخصاً۔
13…پ۱۵،بنی اسرائیل:۶، ۷.
14… بیضاوی،بنی اسرائیل ،تحت الاٰیة:۶، ۷، ۳/۴۳۲، ۴۳۳،ملخصاً.
15… البدایة والنهایة، ذکر شیء من خبر دانیال عليه السلام، ۱/۴۹۲.
16… مصنف ابن ابی شیبه،کتاب التاریخ، ما ذکر فی تستر،۸/۳۱،حدیث:۷.
17…کنز العمال،کتاب الفضائل، فضائل الانبیاء،دانیال علیه السلام،۶/۲۱۷، حدیث:۳۵۵۷۸ ، الجزء الثانی عشر.
18… کنز العمال،کتاب الفضائل، فضائل الانبیاء،دانیال علیه السلام،۶/۲۱۷، حدیث:۳۵۵۷۶ ، الجزء الثانی عشر.
19… مسلم،کتاب المساجد ومواضع الصلاة، باب تحریم الکلام فی الصلاة…الخ،حدیث:(۱۱۹۹)۳۳،ص۲۱۵، ۲۱۶.
20…مرقاة المفاتیح،کتاب الطب والرقی، باب الکھانة،تحت الحدیث:۴۵۹۲ ،۸/۳۵۸، ۳۵۹.
21…کنز العمال،کتاب الاذکار، باب ادعیة الھم والخوف، ۱/۲۷۷، حدیث:۴۹۹۴، الجزء الثانی.
کتاب کا موضوع
کتاب کا موضوع