Null
دعوت اسلامی کی دینی خدمات دیگر ممالک میں بھی دیکھئے
ہسٹری

مخصوص سرچ

30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں

Seerat ul Anbiya | سیرتُ الانبیاء

book_icon
سیرتُ الانبیاء
            

صندوق کی فرعون کے گھر میں آمد:

اس دریا سے ایک بڑی نہر نکل کر فرعون کے محل میں سے گزرتی تھی ۔ فرعون اپنی بیوی آسیہ کے ساتھ نہر کے کنارے بیٹھا تھا ، اس نے نہر میں صندوق آتا دیکھ کر غلاموں اور کنیزوں کو اسے نکالنے کا حکم دیا ۔ وہ صندوق نکال کر سامنے لایا گیا اور جب اسے کھولا تو اس میں ایک نورانی شکل کا فرزند جس کی پیشانی سے وجاہت و اِقبال کے آثار نمودار تھے نظر آیا،اسے دیکھتے ہی فرعون کے دل میں اس بچے کی محبت پیدا ہوئی۔(1) قرآنِ پاک میں ہے: فَالْتَقَطَهٗۤ اٰلُ فِرْعَوْنَ لِیَكُوْنَ لَهُمْ عَدُوًّا وَّ حَزَنًاؕ-اِنَّ فِرْعَوْنَ وَ هَامٰنَ وَ جُنُوْدَهُمَا كَانُوْا خٰطِـٕیْنَ(۸) (2) ترجمہ : تو اسے فرعون کے گھر والوں نے اٹھالیا تاکہ وہ ان کیلئے دشمن اور غم بنے، بیشک فرعون اور ہامان اور ان کے لشکر خطا کار تھے۔

حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام کی غیبی حفاظت :

فرعون کی قوم کے لوگوں نے اسے ورغلایا کہ کہیں یہ وہی بچہ نہ ہو جس کے متعلق خواب دیکھا تھا۔ ان باتوں میں آکر فرعون نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام کو قتل کرنے کا ارادہ کر لیالیکن فرعون کی بیوی نے کہا: یہ بچہ میری اور تیری آنکھوں کی ٹھنڈک بنے گا،تم اسے قتل نہ کرو، ہوسکتا ہے کہ یہ ہمیں نفع دے یا ہم اسے بیٹا بنالیں ۔ فرعون کی بیوی آسیہ بہت نیک خاتون تھیں، انبیاء کرام عَلَیْہِمُ السَّلَام کی نسل سے تھیں، غریبوں اور مسکینوں پر رحم و کرم کرتی تھیں، انہوں نے فرعون سے یہ بھی کہا کہ یہ بچہ سال بھر سے زیادہ عمر کا معلوم ہوتا ہے اور تو نے اس سال کے اندر پیدا ہونے والے بچوں کے قتل کا حکم دیا ہے ،اس کے علاوہ معلوم نہیں یہ بچہ دریا میں کس سرزمین سے یہاں آیا ہے اور تجھے جس بچے سے اندیشہ ہے وہ اسی ملک کے بنی اسرائیل سے بتایا گیا ہے، لہذا تم اسے قتل نہ کرو۔ آسیہ کی یہ بات ان لوگوں نے مان لی اور قتل سے باز آگئے۔(3) قرآنِ کریم میں ہے: وَ قَالَتِ امْرَاَتُ فِرْعَوْنَ قُرَّتُ عَیْنٍ لِّیْ وَ لَكَؕ-لَا تَقْتُلُوْهُ ﳓ عَسٰۤى اَنْ یَّنْفَعَنَاۤ اَوْ نَتَّخِذَهٗ وَلَدًا وَّ هُمْ لَا یَشْعُرُوْنَ(۹) (4) ترجمہ : اور فرعون کی بیوی نے کہا: یہ بچہ میری اور تیری آنکھوں کی ٹھنڈک ہے، اسے قتل نہ کرو شاید یہ ہمیں نفع دے یا ہم اسے بیٹا بنالیں اور وہ بے خبرتھے۔

حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام کی والدہ کی بےقراری:

جب حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام کی والدہ نے سنا کہ ان کے فرزند فرعون کے ہاتھ میں پہنچ گئے ہیں تو یہ سن کر آپ کا دل بے قرار ہوگیا اور قریب تھا کہ وہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام کے متعلق ظاہر کردیتی کہ یہ میرا بیٹاہے لیکن اللہ تعالیٰ نے انہیں یہ الہام کر کے ان کا دل مضبوط رکھا کہ وہ ہمارے اس وعدے پر یقین رکھے کہ تیرے اس فرزند کو تجھے واپس لوٹائیں گے ۔(5) قرآنِ پاک میں ہے: وَ اَصْبَحَ فُؤَادُ اُمِّ مُوْسٰى فٰرِغًاؕ-اِنْ كَادَتْ لَتُبْدِیْ بِهٖ لَوْ لَاۤ اَنْ رَّبَطْنَا عَلٰى قَلْبِهَا لِتَكُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ(۱۰) (6) ترجمہ : اور صبح کے وقت موسیٰ کی ماں کا دل بے قرار ہوگیا، بیشک قریب تھا کہ وہ اسے ظاہر کردیتی اگر ہم اس کے دل کو مضبوط نہ کرتے کہ وہ (ہمارے وعدے پر) یقین رکھنے والوں میں سے رہے۔

حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام کی اپنی والدہ کے پاس واپسی:

اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام کواپنی قدرت سے روک دیا کہ وہ اپنی والدہ کے علاوہ کسی اور کا دودھ نہ پئیں، چنانچہ جس قدر دائیاں حاضر کی گئیں ان میں سے کسی کی چھاتی آپ عَلَیْہِ السَّلَام نے منہ میں نہ لی، اس سے ان لوگوں کو بہت فکر ہوئی کہ کہیں سے کوئی ایسی دائی میسر آئے جس کا دودھ آپ پی لیں۔ دائیوں کے ساتھ آپ عَلَیْہِ السَّلَام کی ہمشیرہ بھی یہ حال دیکھنے چلی گئی تھیں اور صورتِ حال دیکھ کر انہوں نے کہا :کیا میں تمہیں ایسے گھرکے متعلق بتاؤں جو اس بچے کی ذمہ داری لے لیں اور وہ اس کے خیر خواہ بھی ہوں؟ فرعونیوں نے یہ بات منظور کر لی تو آپ اپنی والدہ کو بلانے چلی گئیں ۔ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام فرعون کی گود میں تھے اور دودھ کے لئے رورہے تھے اورفرعون آپ عَلَیْہِ السَّلَام کو شفقت کے ساتھ بہلارہا تھا۔ جب آپ کی والدہ تشریف لائیں اور آپ نے اُن کی خوشبو پائی تو آپ کو قرار آگیا اور آپ نے ان کا دودھ نوش فرما لیا۔فرعون نے کہا :تم اس بچے کی کیا لگتی ہو کہ اُس نے تیرے سوا کسی کے دودھ کو منہ بھی نہ لگایا؟ انہوں نے کہا :میں ایک عورت ہوں ،پاک صاف رہتی ہوں،میرا دودھ خوشگوار ہے، جسم طیب ہے، اس لئے جن بچوں کے مزاج میں نفاست ہوتی ہے وہ اور عورتوں کا دودھ نہیں لیتے جبکہ میرا دودھ پی لیتے ہیں۔ فرعون نے بچہ انہیں دیا اور دودھ پلانے پر انہیں مقرر کرکے فرزند کو اپنے گھرلے جانے کی اجازت دی، چنانچہ آپ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام کواپنے مکان پر لے آئیں۔یوں اللہ تعالیٰ کا وعدہ پورا ہوا اور انہیں اطمینان کامل ہوگیا کہ یہ فرزند ضرور نبی بنے گا۔(7) سورۂ قصص میں ہے: وَ حَرَّمْنَا عَلَیْهِ الْمَرَاضِعَ مِنْ قَبْلُ فَقَالَتْ هَلْ اَدُلُّكُمْ عَلٰۤى اَهْلِ بَیْتٍ یَّكْفُلُوْنَهٗ لَكُمْ وَ هُمْ لَهٗ نٰصِحُوْنَ(۱۲) فَرَدَدْنٰهُ اِلٰۤى اُمِّهٖ كَیْ تَقَرَّ عَیْنُهَا وَ لَا تَحْزَنَ وَ لِتَعْلَمَ اَنَّ وَعْدَ اللّٰهِ حَقٌّ وَّ لٰكِنَّ اَكْثَرَهُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ۠(۱۳) (8) ترجمہ : اور ہم نے پہلے ہی سب دائیاں اس پر حرام کردی تھیں تو موسیٰ کی بہن نے کہا: کیا میں تمہیں ایسے گھر والے بتادوں جو تمہارے اس بچہ کی ذمہ داری لے لیں اور وہ اس کے خیر خواہ بھی ہوں؟ تو ہم نے اسے اس کی ماں کی طرف لوٹا دیا تا کہ ماں کی آنکھ ٹھنڈی ہو اور وہ غم نہ کھائے اور جان لے کہ اللہ کا وعدہ سچا ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔ اور سورۂ طٰہٰ میں ہے: اِذْ تَمْشِیْۤ اُخْتُكَ فَتَقُوْلُ هَلْ اَدُلُّكُمْ عَلٰى مَنْ یَّكْفُلُهٗؕ-فَرَجَعْنٰكَ اِلٰۤى اُمِّكَ كَیْ تَقَرَّ عَیْنُهَا وَ لَا تَحْزَنَ۬ؕ- (9) ترجمہ : جب تیری بہن چلتی جارہی تھی پھر وہ کہنے لگی: کیا میں تمہیں ایسی عورت کی طرف رہنمائی کروں جو اس بچہ کی دیکھ بھال کرے تو ہم تجھے تیری ماں کے پاس پھیر لائے تاکہ اس کی آنکھ ٹھنڈی ہو اور وہ غمگین نہ ہو۔ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام اپنی والدہ کے پاس دودھ پینے کے زمانہ تک رہے اور اس عرصے میں فرعون انہیں ایک اشرفی روز دیتا رہا۔ دودھ چھوٹنے کے بعد والدہ آپ عَلَیْہِ السَّلَام کو فرعون کے پاس لے آئیں اوراس کے بعد آپ وہاں پرورش پاتے رہے۔(10)

فرعون کے منہ پر طمانچہ:

بچپن میں ایک دن فرعون نے آپ کواٹھایا تو آپ نے اس کی داڑھی پکڑ کر زور سے اس کے منہ پر طمانچہ مار دیا، اِس پر اُسے غصہ آیا اور اُس نے آپ عَلَیْہِ السَّلَام کو قتل کرنے کا ارادہ کرلیا، یہ دیکھ کر آسیہ نے کہا: اے بادشاہ! یہ ابھی بچہ ہے اسے کیا سمجھ؟ اگر تو تجربہ کرنا چاہے تو تجربہ کرلے۔چنانچہ اس تجربہ کے لئے ایک طشت میں آگ کے انگارےاور ایک طشت میں سرخ یاقوت آپ عَلَیْہِ السَّلَام کے سامنے پیش کئے گئے۔ آپ عَلَیْہِ السَّلَام نے یاقوت لینا چاہا مگر فرشتے نے آپ عَلَیْہِ السَّلَام کا ہاتھ انگارہ پر رکھ دیا اور وہ انگارہ آپ عَلَیْہِ السَّلَام کے منہ میں دے دیا جس سے زبان مبارک جل گئی اور لکنت پیدا ہوگئی۔(11)

جوانی میں عطائے علم و حکمت:

جب آپ عَلَیْہِ السَّلَام کی عمرشریف 30سال سے زیادہ ہوگئی تو اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے آپ عَلَیْہِ السَّلَام کوعلم وحکمت سے نوازا۔قرآن مجید میں ہے: وَ لَمَّا بَلَغَ اَشُدَّهٗ وَ اسْتَوٰۤى اٰتَیْنٰهُ حُكْمًا وَّ عِلْمًاؕ-وَ كَذٰلِكَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَ(۱۴) (12) ترجمہ : اور جب موسیٰ اپنی جوانی کو پہنچے اور بھرپور ہوگئے تو ہم نے اسے حکمت اور علم عطا فرمایا اور ہم نیکوں کو ایسا ہی صلہ دیتے ہیں۔ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام کو علم لدنی ملاتھا جواستاد کے واسطے کے بغیر آپ کو عطا ہوا ،جیسا کہ’’ اٰتَیْنَاہ ‘‘ فرمانے سے معلوم ہوا اوریہ علم آپ عَلَیْہِ السَّلَام کو نبوت عطا کئے جانے سے پہلے دیا گیا، اور یہ بھی یاد رہے کہ یہاں حکم اورعلم سے مراد نبوت نہیں کیونکہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام کو نبوت تو مدین سے مصر آتے ہوئے راستہ میں عطا ہوئی ۔ نیز حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام شروع سے ہی صالح،نیک، متقی، پرہیزگار تھے۔

ایک قبطی کی اتفاقی ہلاکت:

جوانی میں ہی حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام نے حق کا بیان اور فرعون اور فرعونیوں کی گمراہی کا رَد شروع کر دیااور فرعونیوں کے دین سے منع کرنے لگے ۔ بنی اسرائیل کے لوگ آپ کی بات سنتے اور آپ کی پیروی کیا کرتے تھے۔آہستہ آہستہ اس بات کا چرچا ہوا اور فرعونیوں نے آپ عَلَیْہِ السَّلَام کی تلاش شرع کر دی ،اس لئے آپ جس بستی میں داخل ہوتے تو ایسے وقت داخل ہوتے جب وہاں کے لوگ غفلت میں ہوں۔ (13) ایک دن آپ عَلَیْہِ السَّلَام شہر( مَنْف ،یاحابین ،یا عینِ شمس)میں داخل ہوئے اوریہاں آپ نے دو مردوں کو لڑتے ہوئے پایا۔ ان میں سے ایک کا تعلق بنی اسرائیل میں سے تھا اور دوسرا فرعون کی قوم ’’قبط‘‘ سے تعلق رکھتا تھا ۔یہ اسرائیلی پر جبر کر رہا تھا تاکہ وہ اس پر لکڑیوں کا انبار لاد کر فرعون کے کچن میں لے جائے ۔ اسرائیلی نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام کو دیکھا تو ان سے قبطی کے خلاف مددمانگی،جس پر آپ عَلَیْہِ السَّلَام نے پہلے اس قبطی سے کہا :تو اسرائیلی پر ظلم نہ کر اور اسے چھوڑ دے ۔لیکن وہ باز نہ آیا اور بدزبانی کرنے لگا تو حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام نے اسےاس ظلم سے روکنے کے لئے ایک گھونسا مارا۔وہ گھونسا کھاتے ہی مر گیا حالانکہ آپ کا ارادہ اسے قتل کرنے کا نہیں تھا۔ آپ عَلَیْہِ السَّلَام نے اسے ریت میں دفن کر دیا اورکہا: هٰذَا مِنْ عَمَلِ الشَّیْطٰنِؕ-اِنَّهٗ عَدُوٌّ مُّضِلٌّ مُّبِیْنٌ(۱۵) (14) ترجمہ : یہ شیطان کی طرف سے ہواہے۔ بیشک وہ کھلا گمراہ کرنے والا دشمن ہے۔ یہاں’’ ھٰذَا ‘‘سے مراد یہ ہے کہ اس قبطی کا اسرائیلی پر ظلم کرنا جو اس کی ہلاکت کا باعث ہوا،یہ کام شیطان کی طرف سے ہواہے ۔ایک قول یہ بھی ہے کہ یہاں’’ ھٰذَا ‘‘سے اس قتل کی طرف اشارہ ہے جو حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام سے بلا ارادہ ہوا ، یعنی قبطی کو قتل کرنے کاکام (بظاہر) شیطان کے وسوسے سے ہوا۔(15)

حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام کی بارگاہِ الٰہی میں عاجزی و انکساری:

پھرآپ عَلَیْہِ السَّلَام نے بارگاہِ الٰہی میں عرض کی: رَبِّ اِنِّیْ ظَلَمْتُ نَفْسِیْ فَاغْفِرْ لِیْ فَغَفَرَ لَهٗؕ-اِنَّهٗ هُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ(۱۶) (16) ترجمہ : اے میرے رب!میں نے اپنی جان پر زیادتی کی تو تومجھے بخش دے تو اللہ نے اسے بخش دیا بیشک وہی بخشنے والا مہربان ہے۔ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام کایہ کلام عاجزی اور ا نکساری کے طور پر ہے کیونکہ آپ عَلَیْہِ السَّلَام سے کوئی معصیت سرزد نہیں ہوئی ۔یاد رہے کہ انبیاء کرام عَلَیْہِمُ السَّلَام معصوم ہیں، ان سے گناہ نہیں ہوتے اور حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام کا قبطی کو مارنا در اصل ظلم دور کرنا اور مظلوم کی امداد کرنا تھا اور یہ کسی دین میں بھی گناہ نہیں ،پھر بھی اپنی طرف تقصیر کی نسبت کرنا اور استغفار چاہنا یہ اللہ تعالیٰ کے مقرب بندوں کا دستور ہے۔

مجرموں کی صحبت سے بچنے کی دعا:

تقصیر کی بخشش کا مژدہ سن کر آپ عَلَیْہِ السَّلَام نے بارگاہِ الٰہی میں دعا کی: رَبِّ بِمَاۤ اَنْعَمْتَ عَلَیَّ فَلَنْ اَكُوْنَ ظَهِیْرًا لِّلْمُجْرِمِیْنَ(۱۷) (17) ترجمہ : اے میرے رب!تو نے میرے اوپر جو احسان کیا ہے اس کی قسم کہ اب ہرگز میں مجرموں کا مددگار نہ ہوں گا۔ یعنی اے میرے رب! عَزَّ وَجَلَّ ، جیساکہ میری تقصیر کی بخشش فرما کرتو نے میرے اوپر احسان کیا ہے تو اب مجھ پر یہ کرم بھی فرما کہ مجھے فرعون کی صحبت اور اس کے یہاں رہنے سے بھی بچا کیونکہ اس کے ہمراہ رہنے والوں میں شمار کیا جانا بھی ایک طرح کا مدد گار ہونا ہے اور میں ہرگز میں مجرموں کا مددگار نہ ہوں گا۔(18)

دوسرے دن کی صورت حال:

دعا مانگنے کے بعدحضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام نے شہر میں ڈرتے ہوئے اور ا س انتظار میں صبح کی کہ خدا جانے اس قبطی کے مارے جانے کا کیا نتیجہ نکلے اور اس کی قوم کے لوگ کیا کریں ۔دوسری طرف لوگوں نے فرعون کو اطلاع دی کہ بنی اسرائیل کے کسی شخص نے ہمارا ایک آدمی مار ڈالا ہے۔ اس پر فرعون نے کہا کہ قاتل اور گواہوں کو تلاش کرو۔ چنانچہ فرعونی گشت کرتے رہے لیکن انہیں کوئی ثبوت نہ ملا۔دوسرے دن جب حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام کو پھر ایسا اتفاق پیش آیا کہ بنی اسرائیل کا وہی مرد جس نے پہلے دن ان سے مدد چاہی تھی آج پھر ایک فرعونی سے لڑ رہا ہے۔وہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام کو دیکھ کر ان سے فریاد کرنے لگا ۔تب آپ عَلَیْہِ السَّلَام نے اس سے فرمایا: اِنَّكَ لَغَوِیٌّ مُّبِیْنٌ(۱۸) (19) ترجمہ : بیشک تو ضرورکھلا گمراہ ہے ۔ اس سے آپ عَلَیْہِ السَّلَام کی مراد یہ تھی کہ تو روز لوگوں سے لڑتا ہے، اپنے آپ کو بھی مصیبت و پریشانی میں ڈالتا ہے اور اپنے مددگاروں کو بھی،تو کیوں ایسے موقعوں سے نہیں بچتا اور کیوں احتیاط نہیں کرتا۔ پھر حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام کو رحم آیا اور آپ نے چاہا کہ اسے فرعونی کے پنجہ ِظلم سے رہائی دلائیں ۔ جب آپ عَلَیْہِ السَّلَام فرعونی کو پکڑنے لگے تو اسرائیلی مردغلطی سے یہ سمجھا کہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام مجھ سے خفا ہیں اور مجھے پکڑنا چاہتے ہیں ،یہ سمجھ کروہ بولا : یٰمُوْسٰۤى اَتُرِیْدُ اَنْ تَقْتُلَنِیْ كَمَا قَتَلْتَ نَفْسًۢا بِالْاَمْسِ ﳓ اِنْ تُرِیْدُ اِلَّاۤ اَنْ تَكُوْنَ جَبَّارًا فِی الْاَرْضِ وَ مَا تُرِیْدُ اَنْ تَكُوْنَ مِنَ الْمُصْلِحِیْنَ(۱۹) (20) ترجمہ : اے موسیٰ! کیا تم مجھے ویسا ہی قتل کرنا چاہتے ہو جیسا تم نے کل ایک شخص کو قتل کردیا تم تو یہی چاہتے ہو کہ زمین میں زبردستی کرنے والے بن جاؤ اورتم اصلاح کرنے والوں میں سے نہیں ہونا چاہتے۔ فرعونی نے یہ بات سنی اور جا کر فرعون کو اطلاع دی کہ کل کے فرعونی مقتول کے قاتل حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام ہیں۔فرعون نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام کے قتل کا حکم دیا اور لوگ آپ عَلَیْہِ السَّلَام کو ڈھونڈنے نکل گئے۔(21)

حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام کی ہجرت:

یہ خبر سن کر ایک شخص جسے اٰل فرعون کا مومن کہتے ہیں ، دوڑ تا ہواآیا اور ا س نے کہا: یٰمُوْسٰۤى اِنَّ الْمَلَاَ یَاْتَمِرُوْنَ بِكَ لِیَقْتُلُوْكَ فَاخْرُ جْ اِنِّیْ لَكَ مِنَ النّٰصِحِیْنَ(۲۰) (22) ترجمہ : اے موسیٰ!بیشک درباروالے آپ کے بارے میں مشورہ کررہے ہیں کہ آپ کوقتل کردیں تو آپ نکل جائیں۔بیشک میں آپ کے خیرخواہوں میں سے ہوں۔ صورت حال کاعلم ہونے پرآپ عَلَیْہِ السَّلَام نے اس شہر سے ہجرت کرنے کاارادہ کرلیااور یہاں سے مدین کی طرف رخت سفرباندھاکیونکہ مدین ایساعلاقہ تھاجوفرعون کی مملکت سے باہرتھااوراس کے علاوہ آبادبھی تھااورقریب بھی تھا۔آپ عَلَیْہِ السَّلَام نے دعا فرمائی: رَبِّ نَجِّنِیْ مِنَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ۠(۲۱) (23) ترجمہ : اے میرے رب!مجھے ظالموں سے نجات دیدے۔ اس واقعہ سے معلوم ہوا کہ خطرناک جگہ سے نکل جانا اور جان بچانے کی تدبیر کرنا ،جائز ہے۔اسباب پر عمل کرنا اور تدبیراختیار کرنا توکل کے خلاف نہیں۔حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام کی مار سے قبطی کا مر جانا ایسافعل نہیں تھا جس کی وجہ سے قصاص لازم ہوتا اور اگر وہ صورت ایسی ہوتی جس میں قصاص لازم ہوتاتو حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام شہر سے نکلنے کی بجائے خود اپنے آپ کو قصاص کے لئے پیش فرمادیتے ۔ اس واقعہ میں یہ بھی درس ہے کہ کبھی مصیبت بندے کو فائدے اور خیر کی طرف لے جاتی ہے۔ جیسے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام بظاہر فرعون کی وجہ سے شہر چھوڑ رہے تھے مگر درحقیقت اللہ تعالیٰ کی طرف جا رہے تھے۔آپ کا یہ سفر بہت سی بھلائیوں کا پیش خیمہ ثابت ہوا،حضرت شعیب عَلَیْہِ السَّلَام کی صحبت ، نیک بیوی اور نبوت کا عطا ہونا سب اسی سفر میں آپ عَلَیْہِ السَّلَام کو مرحمت ہوا۔ قصہ مختصر حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام نے مدین کا راستہ بھی نہ دیکھا تھا ،نہ کوئی سواری ساتھ تھی، نہ توشہ نہ کوئی ہمراہی ،راستے میں درختوں کے پتوں اور زمین کے سبزے کے سوا خوراک کی اور کوئی چیز نہ ملتی تھی۔ جب حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام نے مدین کی طرف جانے کا ارادہ کیا تویوں کہا : عَسٰى رَبِّیْۤ اَنْ یَّهْدِیَنِیْ سَوَآءَ السَّبِیْلِ(۲۲) (24) ترجمہ : عنقریب میرا رب مجھے سیدھا راستہ بتائے گا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ایک فرشتہ بھیجا جو آپ عَلَیْہِ السَّلَام کو مدین تک لے گیا۔(25)

حضرت شعیب عَلَیْہِ السَّلَام کی بکریوں کو پانی پلانا:

جب حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام مدین پہنچے تو شہر کے کنارے پر موجود ایک کنوئیں پر تشریف لائے جس سے وہاں کے لوگ پانی لیتے اور اپنے جانوروں کو سیراب کرتے تھے ۔وہاں آپ عَلَیْہِ السَّلَام نے لوگوں کا ایک گروہ دیکھا کہ وہ اپنے جانوروں کو پانی پلارہے ہیں اور ان لوگوں سے علیحدہ دوسری طرف دو عورتیں کھڑی ہیں جو اپنے جانوروں کواس انتظار میں روک رہی ہیں کہ لوگ پانی پلا کرفارغ ہو جائیں اور کنواں خالی ہو کیونکہ کنوئیں کو مضبوط اورطاقتور لوگوں نے گھیر رکھا تھا اوران کے ہجوم میں عورتوں سے ممکن نہ تھا کہ وہ اپنے جانوروں کو پانی پلا سکیں۔حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام نے ان سے فرمایا:تم دونوں اپنے جانوروں کو پانی کیوں نہیں پلاتیں ؟ انہوں نے کہا: جب تک سب چرواہے اپنے جانوروں کو پانی پلاکر واپس نہیں لے جاتے تب تک ہم پانی نہیں پلاتیں کیونکہ نہ ہم مردوں کے مجمع میں جا سکتی ہیں اورنہ پانی کھینچ سکتی ہیں لہٰذاجب یہ لوگ اپنے جانوروں کو پانی پلا کر واپس چلے جاتے ہیں تو حوض میں بچ جانے والا پانی اپنے جانوروں کو پلا لیتی ہیں ۔ ہمارے باپ بہت ضعیف ہیں،وہ خود یہ کام نہیں کر سکتے اس لئے جانوروں کو پانی پلانے کی ضرورت ہمیں پیش آئی۔ ان کی باتیں سن کرحضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام کو رحم آیا اور وہیں اس کے قریب دوسرا کنواں جس پر ایک بہت بھاری پتھر رکھاہوا تھا اور اسے بہت سے آدمی مل کر ہی ہٹا سکتے تھے، آپ نے تنہا اسے ہٹا یا اور ان دونوں خواتین کے جانوروں کو پانی پلا دیا۔اس وقت دھوپ اور گرمی کی شدت تھی اور آپ عَلَیْہِ السَّلَام نے کئی روز سے کھانا نہیں کھایا تھا جس کی وجہ سے بھوک کا غلبہ تھا، اس لئے جانوروں کو پانی پلانے کے بعد آرام حاصل کرنے کی غرض سے ایک درخت کے سائے میں بیٹھ گئے اور اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں عرض کی: رَبِّ اِنِّیْ لِمَاۤ اَنْزَلْتَ اِلَیَّ مِنْ خَیْرٍ فَقِیْرٌ(۲۴) (26) ترجمہ : اے میرے رب!میں اس خیر(کھانے )کی طرف محتاج ہوں جو تو میرے لیے اتارے۔

حضرت شعیب عَلَیْہِ السَّلَام کے پاس آمد:

حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام کو باقاعدہ کھانا تناول فرمائے پورا ہفتہ گزر چکا تھا، اس عرصے میں کھانے کاایک لقمہ تک نہ کھایا اورشکم مبارک پُشْتِ اقدس سے مل گیا تھا، اس حالت میں آپ عَلَیْہِ السَّلَام نے اپنے ربّ عَزَّ وَجَلَّ سے غذا طلب کی اور اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں نہایت قرب و منزلت رکھنے کے باوجود انتہائی عاجزی اور انکساری کے ساتھ روٹی کا ایک ٹکڑا طلب کیا اور جب وہ دونوں صاحب زادیاں اس دن بہت جلد اپنے مکان پر واپس تشریف لے آئیں تو ان کے والد ماجد نے فرمایا: آج اس قدر جلد واپس آ جانے کا کیا سبب ہوا؟ انہوں نے عرض کی: ہم نے کنویں کے پاس ایک نیک مرد پایا، اس نے ہم پر رحم کیا اور ہمارے جانوروں کو سیراب کر دیا۔ اس پر ان کے والد صاحب نے ایک صاحبزادی سے فرمایا کہ جاؤ اور اس نیک مرد کو میرے پاس بلا لاؤ ۔ چنانچہ ان دونوں میں سے ایک صاحب زادی حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام کے پاس اپنا چہرہ آستین سے ڈھانپے، جسم چھپائے،شرم سے چلتی ہوئی آئی ۔ یہ بڑی صاحب زادی تھیں ،ان کا نام صفوراء ہے اور ایک قول یہ ہے کہ وہ چھوٹی صاحبزادی تھیں ۔حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام کے پاس پہنچ کر انہوں نے کہا: اِنَّ اَبِیْ یَدْعُوْكَ لِیَجْزِیَكَ اَجْرَ مَا سَقَیْتَ لَنَا (27) ترجمہ : میرے والد آپ کو بلارہے ہیں تاکہ آپ کو اس کا م کی مزدوری دیں جوآپ نے ہمارے جانوروں کو پانی پلایا ہے۔ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام اجرت لینے پر تو راضی نہ ہوئے لیکن حضرت شعیب عَلَیْہِ السَّلَام کی زیارت اور ان سے ملاقات کرنے کے ارادے سے چلے اور ان صاحب زادی صاحبہ سے فرمایا: آپ میرے پیچھے رہ کر راستہ بتاتی جائیں۔ یہ آپ عَلَیْہِ السَّلَام نے پردے کے اہتمام کے لئے فرمایا تھا ۔جب حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام حضرت شعیب عَلَیْہِ السَّلَام کے پاس پہنچے تو کھانا حاضر تھا،آپ عَلَیْہِ السَّلَام نے فرمایا:بیٹھئے کھانا کھائیے۔ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام نے ان کی یہ بات منظور نہ کی اور فرمایا:میں اللہ تعالیٰ کی پناہ چاہتا ہوں۔ حضرت شعیب عَلَیْہِ السَّلَام نے فرمایا :کھانا نہ کھانے کی کیا وجہ ہے، کیا آپ کو بھوک نہیں ہے ؟ موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام نے فرمایا: مجھے اس بات کا اندیشہ ہے کہ یہ کھانا میرے اُس عمل کا عوض نہ ہو جائے جو میں نے آپ کے جانوروں کو پانی پلا کر انجام دیا ہے، کیونکہ ہم وہ لوگ ہیں جو نیک عمل پر عوض لینا قبول نہیں کرتے۔ حضرت شعیب عَلَیْہِ السَّلَام نے فرمایا: اے جوان! ایسا نہیں ہے، یہ کھانا آپ کے عمل کا عوض نہیں بلکہ میری اور میرے آباؤ اجداد کی عادت ہے کہ ہم مہمان نوازی کرتے اور کھانا کھلاتے ہیں۔یہ سن کر حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام بیٹھ گئے اور کھانا تناول فرمایا۔ا س کے بعد تمام واقعات و احوال جو فرعون کے ساتھ گزرے تھے، اپنی ولادت شریف سے لے کر قبطی کے قتل اور فرعونیوں کے آپ کے درپے جان ہونے تک ، سب حضرت شعیب عَلَیْہِ السَّلَام سے بیان کر دیئے ۔ حضرت شعیب عَلَیْہِ السَّلَام نے فرمایا: لَا تَخَفْٙ- نَجَوْتَ مِنَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ(۲۵) (28) ترجمہ : ڈرو نہیں، آپ ظالموں سے نجات پاچکے ہو۔

8 سال ملازمت کی شرط پر نکاح کا وعدہ:

گفتگو ختم ہونے کے بعدحضرت شعیب عَلَیْہِ السَّلَام کی ایک صاحب زادی نے عرض کی:اباجان آپ انہیں اجرت پر ملازم رکھ لیں کہ یہ ہماری بکریاں چرایا کریں اور یہ کام ہمیں نہ کرنا پڑے، یقیناً اچھاملازم وہی ہوتاہے جو طاقتور بھی ہو اورامانتداربھی ۔اس پرحضرت شعیب عَلَیْہِ السَّلَام نے اپنی صاحب زادی سے دریافت کیا کہ تمہیں ان کی قوت و امانت کا کیسے علم ہوا؟ صاحب زادی نے عرض کی : قوت تو اس سے ظاہر ہے کہ اُنہوں نے تنہا کنوئیں پر سے وہ پتھر اُٹھالیا جسے دس سے کم آدمی نہیں اُٹھا سکتے اور امانت اس سے ظاہر ہے کہ اُنہوں نے ہمیں دیکھ کر سرجھکالیا اور نظر نہ اُٹھائی اور ہم سے کہا کہ تم میرے پیچھے چلو ۔ یہ سن کر حضرت شعیب عَلَیْہِ السَّلَام نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام سے فرمایا: اِنِّیْۤ اُرِیْدُ اَنْ اُنْكِحَكَ اِحْدَى ابْنَتَیَّ هٰتَیْنِ عَلٰۤى اَنْ تَاْجُرَنِیْ ثَمٰنِیَ حِجَجٍۚ-فَاِنْ اَتْمَمْتَ عَشْرًا فَمِنْ عِنْدِكَۚ-وَ مَاۤ اُرِیْدُ اَنْ اَشُقَّ عَلَیْكَؕ-سَتَجِدُنِیْۤ اِنْ شَآءَ اللّٰهُ مِنَ الصّٰلِحِیْنَ(۲۷) (29) ترجمہ : میں چاہتا ہوں کہ اپنی دونوں بیٹیوں میں سے ایک کے ساتھ اس مہر پرتمہارا نکاح کردوں کہ تم آٹھ سال تک میری ملازمت کرو پھر اگر تم دس سال پورے کردو تووہ (اضافہ) تمہاری طرف سے ہوگا اور میں تمہیں مشقت میں ڈالنا نہیں چاہتا ۔ اِنْ شَآءَ اللہ عنقریب تم مجھے نیکوں میں سے پاؤ گے۔ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام نے جواب دیا: ذٰلِكَ بَیْنِیْ وَ بَیْنَكَؕ-اَیَّمَا الْاَجَلَیْنِ قَضَیْتُ فَلَا عُدْوَانَ عَلَیَّؕ-وَ اللّٰهُ عَلٰى مَا نَقُوْلُ وَكِیْلٌ۠(۲۸) (30) ترجمہ : یہ میرے اور آپ کے درمیان (معاہدہ طے)ہے۔ میں ان دونوں میں سے جو بھی مدت پوری کردوں تو مجھ پر کوئی زیادتی نہیں ہوگی اور ہماری اس گفتگو پر اللہ نگہبان ہے۔ اس سے معلوم ہو اکہ اگرچہ سنت یہ ہے کہ پیغام نکاح لڑکے کی طرف سے ہو لیکن یہ بھی جائز ہے کہ لڑکی والوں کی طرف سے ہو۔ مزید یہ کہ لڑکی کے لئے مالدار لڑکا تلاش کرنے کی بجائے دیندار اور شریف لڑکا تلاش کیا جائے۔ جیسے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام مسافر تھے، مالدار نہ تھے، مگر آپ کی دین داری اور شرافت ملاحظہ فرما کر حضرت شعیب عَلَیْہِ السَّلَام نے اپنی صاحب زادی کا نکاح آپ سے کردیا۔ صوفیاء کرام فرماتے ہیں کہ بظاہر حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام سے بکریاں چروانا تھا ، مگر درحقیقت ان کو اپنی صحبتِ پاک میں رکھ کر کلیم اللہ بننے کی صلاحیت پیدا کرنا تھا،لہٰذا یہ آیت صوفیاء کرام کے مجاہدہ و ریاضت اور مرشد کے گھر رہ کر ان کی خدمت کرنے کی بڑی دلیل ہے۔

حضرت شعیب عَلَیْہِ السَّلَام کی بکریوں کی نگہبانی:

جب معاہدہ مکمل ہوچکا تو حضرت شعیب عَلَیْہِ السَّلَام نے اپنی صاحب زادی کو حکم دیا کہ وہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام کو ایک عصا دیں جس سے وہ بکریوں کی نگہبانی کریں اور درندوں کو ان سے دور کریں۔ حضرت شعیب عَلَیْہِ السَّلَام کے پاس انبیاء کرام عَلَیْہِمُ السَّلَام کے کئی عصا موجودتھے ،صاحب زادی کا ہاتھ حضرت آدم عَلَیْہِ السَّلَام کے عصاء پر پڑا جو آپ جنت سے لائے تھے اور انبیاء کرام عَلَیْہِمُ السَّلَام اس کے وارث ہوتے چلے آئے تھے ، یہاں تک کہ وہ حضرت شعیب عَلَیْہِ السَّلَام کے پاس پہنچا تھا۔ حضرت شعیب عَلَیْہِ السَّلَام نے یہ عصا حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام کو دے دیا۔(31)

حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام کا نکاح اور سفر مصر:

جب حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام نے ملازمت کی مدت پوری کر دی تو حضرت شعیب عَلَیْہِ السَّلَام نے آپ کا نکاح اپنی بڑی صاحب زادی صفوراء سے کردیا ۔ پھرآپ نے حضرت شعیب عَلَیْہِ السَّلَام سے مصر کی طرف واپس جانے کی اجازت چاہی تو آپ عَلَیْہِ السَّلَام نے اجازت دےدی ،چنانچہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام اپنی زوجہ کو لے کر مصر کی طرف چلے۔سفر کے دوران جب آپ ایک جنگل میں تھے، اندھیری رات تھی ، سردی شدت کی پڑ رہی تھی اور راستہ گم ہو گیا تھا تو اس وقت آپ نے کوہِ طور کی طرف ایک آگ دیکھی ،اسے دیکھ کر آپ نے اپنی گھر والی سے فرمایا: اُمْكُثُوْۤا اِنِّیْۤ اٰنَسْتُ نَارًا لَّعَلِّیْۤ اٰتِیْكُمْ مِّنْهَا بِخَبَرٍ اَوْ جَذْوَةٍ مِّنَ النَّارِ لَعَلَّكُمْ تَصْطَلُوْنَ(۲۹) (32) ترجمہ : تم ٹھہرو ، بیشک میں نے ایک آگ دیکھی ہے، شاید میں وہاں سے کچھ خبر لاؤ ں یا تمہارے لیے کوئی آگ کی چنگاری لاؤں تاکہ تم گرمی حاصل کرو۔

کوہِ طور پر حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام کو ندائے الٰہی:

جب حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام اپنی زوجہ محترمہ کو اس جگہ چھوڑ کر آگ کے پاس آئے تو برکت والی جگہ میں میدان کے اس کنارے سے جو حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام کے دائیں ہاتھ کی طرف تھا، ایک درخت سے انہیں ندا کی گئی : یٰمُوْسٰۤى اِنِّیْۤ اَنَا اللّٰهُ رَبُّ الْعٰلَمِیْنَۙ(۳۰) (33) ترجمہ : اے موسیٰ!بیشک میں ہی اللہ ہوں، سارے جہانوں کاپالنے والاہوں۔ جب حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام نے سرسبز درخت میں آ گ دیکھی تو جان لیا کہ اللہ تعالیٰ کے سوا یہ کسی کی قدرت نہیں اور یقیناً جو کلام انہوں نے سنا ہے اس کا متکلم اللہ تعالیٰ ہی ہے ۔ یہ بھی منقول ہے کہ یہ کلام حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام نے صرف اپنے مبارک کانوں ہی سے نہیں بلکہ اپنے جسمِ اقدس کے ہر ہر جزو سے سنا ،اور جس درخت سے انہیں ندا کی گئی وہ عناب کا درخت تھا یا عوسج کا( جو کہ ایک خاردار درخت ہے اور اکثر جنگلوں میں ہوتا ہے۔)(34)

حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام کو عطائے رسالت اور وحیِ الٰہی :

سورۂ طٰہٰ میں ہے: فَلَمَّاۤ اَتٰىهَا نُوْدِیَ یٰمُوْسٰىؕ(۱۱) اِنِّیْۤ اَنَا رَبُّكَ فَاخْلَعْ نَعْلَیْكَۚ-اِنَّكَ بِالْوَادِ الْمُقَدَّسِ طُوًىؕ(۱۲) وَ اَنَا اخْتَرْتُكَ فَاسْتَمِعْ لِمَا یُوْحٰى(۱۳) اِنَّنِیْۤ اَنَا اللّٰهُ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّاۤ اَنَا فَاعْبُدْنِیْۙ-وَ اَقِمِ الصَّلٰوةَ لِذِكْرِیْ(۱۴) اِنَّ السَّاعَةَ اٰتِیَةٌ اَكَادُ اُخْفِیْهَا لِتُجْزٰى كُلُّ نَفْسٍۭ بِمَا تَسْعٰى(۱۵) فَلَا یَصُدَّنَّكَ عَنْهَا مَنْ لَّا یُؤْمِنُ بِهَا وَ اتَّبَعَ هَوٰىهُ فَتَرْدٰى(۱۶) (35) ترجمہ : پھر وہ جب آگ کے پاس آئے تو ندا فرمائی گئی کہ اے موسیٰ۔ بیشک میں تیرا رب ہوں تو تو اپنے جوتے اتار دے بیشک تو پاک وادی طویٰ میں ہے۔ اور میں نے تجھے پسند کیا تواب اسے غور سے سن جو وحی کی جاتی ہے۔بیشک میں ہی اللہ ہوں ،میرے سوا کوئی معبود نہیں تو میری عبادت کر اور میری یاد کے لیے نماز قائم رکھ۔ بیشک قیامت آنے والی ہے ۔ قریب ہے کہ میں اسے چھپارکھوں تاکہ ہر جان کو اس کی کوشش کا بدلہ دیا جائے۔ تو قیامت پر ایمان نہ لانے والا اور اپنی خواہش کی پیروی کرنے والا ہرگز تجھے اس کے ماننے سے باز نہ رکھے ورنہ تو ہلاک ہوجائے گا۔ یہاں آخری آیت میں خطاب بظاہر حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام سے ہے اور اس سے مراد آپ عَلَیْہِ السَّلَام کی اُمت ہے۔ یعنی گویا کہ ارشاد فرمایاکہ اے امتِ موسیٰ! قیامت کا منکر اور خواہش کا بندہ تجھے قیامت پر ایمان سے باز نہ رکھے ورنہ تو ہلاک ہوجائے گا۔(36)

حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام سے سوال اور ان کا جواب:

اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام سے فرمایا: وَ مَا تِلْكَ بِیَمِیْنِكَ یٰمُوْسٰى(۱۷) (37) ترجمہ : اور اے موسیٰ! یہ تمہارے دائیں ہاتھ میں کیا ہے؟ اس سوال کی حکمت یہ ہے کہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام اپنے عصا کو دیکھ لیں اور یہ بات دل میں خوب راسخ ہوجائے کہ یہ عصا ہے تاکہ جس وقت وہ سانپ کی شکل میں ہو تو آپ کے خاطر مبارک پر کوئی پریشانی نہ ہو، یا یہ حکمت ہے کہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام کو مانوس کیا جائے تاکہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ سے کلام کی ہیبت کا اثر کم ہو۔(38)معلوم ہوا کہ سوال ہمیشہ پوچھنے والے کی لا علمی کی بنا پر نہیں ہوتا بلکہ اس میں کچھ اور بھی حکمتیں ہوتی ہیں۔اسی لئے حضور پُرنور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا کسی سے کچھ پوچھنا حضور انور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے بے خبر ہونے کی دلیل نہیں۔ آپ عَلَیْہِ السَّلَام نے عرض کی: هِیَ عَصَایَۚ-اَتَوَكَّؤُا عَلَیْهَا وَ اَهُشُّ بِهَا عَلٰى غَنَمِیْ وَ لِیَ فِیْهَا مَاٰرِبُ اُخْرٰى(۱۸) (39) ترجمہ : یہ میرا عصا ہے میں اس پر تکیہ لگاتا ہوں اور اس سے اپنی بکریوں پر پتے جھاڑتا ہوں اور میری اس میں اور بھی کئی ضرورتیں ہیں۔ یاد رہے کہ سوال کے جواب میں حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام کا اپنے عصا کے فوائد بھی بیان کرنا اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کے شکر کے طور پر تھا۔(40)

حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام کو عطائے معجزات:

اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام سے ارشاد فرمایا:اے موسیٰ !اس عصا کو زمین پر ڈال دو تاکہ تم اس کی شان دیکھ سکو۔ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام نے عصا زمین پر ڈال دیا تووہ اچانک سانپ بن کر تیزی سے دوڑنے لگا اور اپنے راستے میں آنے والی ہر چیز کو کھانے لگا۔ یہ حال دیکھ کر حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام کو (طبعی طور پر) خوف ہوا تو اللہ تعالیٰ نے ان سے ارشاد فرمایا: اسے پکڑ لو اور ڈرو نہیں، ہم اسے دوبارہ پہلی حالت پر لوٹا دیں گے۔ یہ سنتے ہی حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام کا خوف جاتا رہا، حتّٰی کہ آپ عَلَیْہِ السَّلَام نے اپنا دستِ مبارک اس کے منہ میں ڈال دیا اور وہ آپ عَلَیْہِ السَّلَام کے ہاتھ لگاتے ہی پہلے کی طرح عصا بن گیا۔(41) سورۂ طٰہٰ میں ہے: قَالَ اَلْقِهَا یٰمُوْسٰى(۱۹) فَاَلْقٰىهَا فَاِذَا هِیَ حَیَّةٌ تَسْعٰى(۲۰) قَالَ خُذْهَا وَ لَا تَخَفْٙ-سَنُعِیْدُهَا سِیْرَتَهَا الْاُوْلٰى(۲۱) (42) ترجمہ : فرمایا: اے موسیٰ اسے ڈال دو۔ تو موسیٰ نے اسے (نیچے) ڈال دیا تو اچانک وہ سانپ بن گیا جو دوڑ رہا تھا۔ ( اللہ نے) فرمایا: اسے پکڑ لو اور ڈرو نہیں، ہم اسے دوبارہ اس کی پہلی حالت پر لوٹادیں گے۔ سورۂ قصص میں ہے: وَ اَنْ اَلْقِ عَصَاكَؕ-فَلَمَّا رَاٰهَا تَهْتَزُّ كَاَنَّهَا جَآنٌّ وَّلّٰى مُدْبِرًا وَّ لَمْ یُعَقِّبْؕ-یٰمُوْسٰۤى اَقْبِلْ وَ لَا تَخَفْ- اِنَّكَ مِنَ الْاٰمِنِیْنَ(۳۱) (43) ترجمہ : اور یہ کہ تم اپنا عصا ڈال دو تو جب اسے لہراتا ہوا دیکھا گویا کہ سانپ ہے تو حضرت موسیٰ پیٹھ پھیر کر چلے اور مڑ کر نہ دیکھا۔(ہم نے فرمایا:) اے موسیٰ! سامنے آؤ اورنہ ڈرو ،بیشک تم امن والوں میں سے ہو۔ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام سے مزید فرمایا گیا : اپنا ہاتھ اپنی قمیص کے گریبان میں ڈال کر نکالو تووہ کسی مرض کے بغیر سفید اور چمکتا ہوا نکلے گا۔چنانچہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام نے اپنا دست ِمبارک گریبان میں ڈال کر نکالا توویسا ہی چمک دار نکلا۔اس کے بعد ارشاد فرمایا: اور خوف دور کرنے کےلئے اپنا ہاتھ اپنے ساتھ ملالو تاکہ ہاتھ اپنی اصلی حالت پر آئے اور خوف دور ہو جائے۔ سورۂ طٰہٰ میں ہے: وَ اضْمُمْ یَدَكَ اِلٰى جَنَاحِكَ تَخْرُ جْ بَیْضَآءَ مِنْ غَیْرِ سُوْٓءٍ اٰیَةً اُخْرٰىۙ(۲۲) لِنُرِیَكَ مِنْ اٰیٰتِنَا الْكُبْرٰىۚ(۲۳) (44) ترجمہ : اور اپنے ہاتھ کو اپنے بازو سے ملاؤ، بغیر کسی مرض کے خوب سفید ہوکر، ایک اور معجزہ بن کرنکلے گا۔تاکہ ہم تجھے اپنی بڑی بڑی نشانیاں دکھائیں۔ اور سورۂ قصص میں ہے: اُسْلُكْ یَدَكَ فِیْ جَیْبِكَ تَخْرُ جْ بَیْضَآءَ مِنْ غَیْرِ سُوْٓءٍ٘-وَّ اضْمُمْ اِلَیْكَ جَنَاحَكَ مِنَ الرَّهْبِ فَذٰنِكَ بُرْهَانٰنِ مِنْ رَّبِّكَ اِلٰى فِرْعَوْنَ وَ مَلَاۡىٕهٖؕ-اِنَّهُمْ كَانُوْا قَوْمًا فٰسِقِیْنَ(۳۲) (45) ترجمہ : اپنا ہاتھ گریبان میں ڈالو تووہ بغیر کسی مرض کے سفید چمکتا ہوا نکلے گا اور خوف دور کرنے کیلئے اپنا ہاتھ اپنے ساتھ ملالو تو تیرے رب کی طرف سے فرعون اور اس کے درباریوں کی طرف یہ دو بڑی دلیلیں ہیں، بیشک وہ نافرمان لوگ ہیں۔ یہاں جس خوف کا ذکر ہوا اس کے سبب کے بارے میں ایک قول یہ ہے کہ ہاتھ کی چمک دیکھ کر حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام کے دل میں خوف پیدا ہوا اور اس خوف کو دور کرنے کے لئے یہ طریقہ ارشاد فرمایا گیا ۔ دوسرا قول یہ ہے کہ اس سے وہی خوف مراد ہے جو سانپ کو دیکھنے سے پیدا ہو اتھا،اسے آیت میں بیان کئے گئے طریقے سے دور کیا گیا۔

فرعون کی طرف جانے کا حکم :

عطائے معجزات کے بعد اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام سے ارشاد فرمایا: اِذْهَبْ اِلٰى فِرْعَوْنَ اِنَّهٗ طَغٰى۠(۲۴) (46) ترجمہ : فرعون کے پاس جاؤ، بیشک وہ سرکش ہوگیا ہے۔ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا: اِذْهَبْ اَنْتَ وَ اَخُوْكَ بِاٰیٰتِیْ وَ لَا تَنِیَا فِیْ ذِكْرِیْۚ(۴۲) اِذْهَبَاۤ اِلٰى فِرْعَوْنَ اِنَّهٗ طَغٰىۚۖ(۴۳) (47) ترجمہ : تم اور تمہارا بھائی دونوں میری نشانیاں لے کر جاؤ اور میری یاد میں سستی نہ کرنا۔ دونوں فرعون کی طرف جاؤ بیشک اس نے سرکشی کی ہے۔ یہاں ایک اہم بات قابل توجہ ہے کہ حقیقت میں تو حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام کو فرعون اور اس کے تمام ماننے والوں کی طرف بھیجا گیا تھاالبتہ فرعون کے خاص ذکر کی وجہ یہ ہے کہ اس نے خدا ہونے کادعویٰ کیا تھا اور کفر میں حد سے گزر گیا تھا۔(48)

فرعون کو تبلیغ میں نرمی کی ہدایت:

مزید نرمی کے ساتھ نصیحت کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: فَقُوْلَا لَهٗ قَوْلًا لَّیِّنًا لَّعَلَّهٗ یَتَذَكَّرُ اَوْ یَخْشٰى(۴۴) (49) ترجمہ : توتم اس سے نرم بات کہنا اس امید پر کہ شاید وہ نصیحت قبول کرلے یا ڈرجائے۔ بعض مفسرین کے نزدیک فرعون کے ساتھ نرمی کا حکم اس لئے تھا کہ اس نے بچپن میں حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام کی خدمت کی تھی اور بعض مفسرین نے فرمایا کہ نرمی سے مراد یہ ہے کہ آپ اس سے وعدہ کریں کہ اگر وہ ایمان قبول کرے گا تو تمام عمر جوان رہے گا کبھی بڑھاپا نہ آئے گا ، مرتے دم تک اس کی سلطنت باقی رہے گی ، کھانے پینے اور نکاح کی لذتیں تادمِ مرگ باقی رہیں گی ا ور مرنے کے بعد جنت میں داخلہ نصیب ہو گا ۔ (50)

حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام کی درخواست :

جب حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام کو سر کش فرعون کی طرف جانے کا حکم دیا گیا اور آپ عَلَیْہِ السَّلَام جان گئے کہ انہیں ایک ایسے عظیم کا م کا پابند کیا گیا ہے جس کے لئے سینہ کشادہ ہونے کی حاجت ہے تو آپ عَلَیْہِ السَّلَام نے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں عرض کی: رَبِّ اشْرَحْ لِیْ صَدْرِیْۙ(۲۵) وَ یَسِّرْ لِیْۤ اَمْرِیْۙ(۲۶) وَ احْلُلْ عُقْدَةً مِّنْ لِّسَانِیْۙ(۲۷) یَفْقَهُوْا قَوْلِیْ۪(۲۸) (51) ترجمہ : اے میرے رب! میرے لیے میرا سینہ کھول دے ۔اور میرے لیے میرا کام آسان فرما دے۔ اور میری زبان کی گرہ کھول دے۔تاکہ وہ میری بات سمجھیں۔ مزید عرض کی: وَ اجْعَلْ لِّیْ وَزِیْرًا مِّنْ اَهْلِیْۙ(۲۹) هٰرُوْنَ اَخِیۙ(۳۰) اشْدُدْ بِهٖۤ اَزْرِیْۙ(۳۱) وَ اَشْرِكْهُ فِیْۤ اَمْرِیْۙ(۳۲) كَیْ نُسَبِّحَكَ كَثِیْرًاۙ(۳۳) وَّ نَذْكُرَكَ كَثِیْرًاؕ(۳۴) اِنَّكَ كُنْتَ بِنَا بَصِیْرًا(۳۵) (52) ترجمہ : اور میرے لیے میرے گھر والوں میں سے ایک وزیر کردے۔ میرے بھائی ہارون کو ۔ اس کے ذریعے میری کمر مضبوط فرما۔ اور اسے میرے کام میں شریک کردے۔ تاکہ ہم بکثرت تیری پاکی بیان کریں۔ اور بکثرت تیرا ذکر کریں ۔ بیشک تو ہمیں دیکھ رہا ہے ۔

حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام کی درخواست کی قبولیت:

حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام کی اس درخواست پر اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: قَدْ اُوْتِیْتَ سُؤْلَكَ یٰمُوْسٰى(۳۶) (53) ترجمہ : اے موسیٰ! تیرا سوال تجھے عطا کردیا گیا۔

بارگاہِ الٰہی میں مزید عرض:

حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام نے مزیدعرض کی: رَبِّ اِنِّیْ قَتَلْتُ مِنْهُمْ نَفْسًا فَاَخَافُ اَنْ یَّقْتُلُوْنِ(۳۳) وَ اَخِیْ هٰرُوْنُ هُوَ اَفْصَحُ مِنِّیْ لِسَانًا فَاَرْسِلْهُ مَعِیَ رِدْاً یُّصَدِّقُنِیْۤ٘-اِنِّیْۤ اَخَافُ اَنْ یُّكَذِّبُوْنِ(۳۴) (54) ترجمہ : اے میرے رب!میں نے ان میں سے ایک شخص کو قتل کردیا تھا تو مجھے ڈر ہے کہ وہ مجھے قتل کردیں گے۔ اور میرا بھائی ہارون اس کی زبان مجھ سے زیادہ صاف ہے تو اسے میری مدد کے لیے رسول بنا تاکہ وہ میری تصدیق کرے ، بیشک مجھے ڈر ہے کہ وہ مجھے جھٹلائیں گے۔ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے بندوں کی مدد لینا انبیاء کرام عَلَیْہِمُ السَّلَام کی سنت ہے جیسے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام نے حضرت ہارون عَلَیْہِ السَّلَام کی مدد لی۔

عرض ِ موسیٰ کی قبولیت:

اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام کی عرض قبول کی اور ان سے ارشاد فرمایا: سَنَشُدُّ عَضُدَكَ بِاَخِیْكَ وَ نَجْعَلُ لَكُمَا سُلْطٰنًا فَلَا یَصِلُوْنَ اِلَیْكُمَاۚۛ-بِاٰیٰتِنَاۤۚۛ-اَنْتُمَا وَ مَنِ اتَّبَعَكُمَا الْغٰلِبُوْنَ(۳۵) (55) ترجمہ : عنقریب ہم تیرے بازو کو تیرے بھائی کے ذریعے قوت دیں گے اور تم دونوں کو غلبہ عطا فرمائیں گے تو وہ ہماری نشانیوں کے سبب تم دونوں کا کچھ نقصان نہ کرسکیں گے۔تم دونوں اور تمہاری پیروی کرنے والے غالب آئیں گے۔ اس سے معلوم ہو اکہ بزرگوں کی دعا کی بہت عظمت ہے جیسے حضرت ہارون عَلَیْہِ السَّلَام کی نبوت میں حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام کی دعا کا اثر بھی ہے۔البتہ یاد رہے کہ نبوت اللہ تعالیٰ کی عطا ہے اور وہ جسے چاہتا ہے عطافرماتا ہے اور یہ بھی یاد رہے کہ سید المرسلین صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی تشریف آوری کے بعد اب قیامت تک کسی کو نبوت نہیں مل سکتی کیونکہ آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم آخری نبی ہیں اور آپ کی آمد پر اللہ تعالیٰ نے نبوت کاسلسلہ ختم فرما دیا ہے ، البتہ اب بھی اللہ تعالیٰ کی بارگاہ کے مقرب بندوں کی دعا سے ولایت، علم ،اولاد اور سلطنت مل سکتی ہے۔ سورۂ شعراء میں مزید ہے: وَ اِذْ نَادٰى رَبُّكَ مُوْسٰۤى اَنِ ائْتِ الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَۙ(۱۰) قَوْمَ فِرْعَوْنَؕ-اَلَا یَتَّقُوْنَ(۱۱) قَالَ رَبِّ اِنِّیْۤ اَخَافُ اَنْ یُّكَذِّبُوْنِؕ(۱۲) وَ یَضِیْقُ صَدْرِیْ وَ لَا یَنْطَلِقُ لِسَانِیْ فَاَرْسِلْ اِلٰى هٰرُوْنَ(۱۳) وَ لَهُمْ عَلَیَّ ذَنْۢبٌ فَاَخَافُ اَنْ یَّقْتُلُوْنِۚ(۱۴) قَالَ كَلَّاۚ-فَاذْهَبَا بِاٰیٰتِنَاۤ اِنَّا مَعَكُمْ مُّسْتَمِعُوْنَ(۱۵) (56) ترجمہ : اور یاد کرو جب تمہارے رب نے موسیٰ کو ندا فرمائی کہ ظالم لوگوں کے پاس جاؤ۔ جو فرعون کی قوم ہے، کیا وہ نہیں ڈریں گے؟ عرض کی: اے میرے رب! میں اس بات سے ڈرتا ہوں کہ وہ مجھے جھٹلا ئیں گے۔ اور میرا سینہ تنگ ہوگا اور میری زبان نہیں چلتی تو تُو ہارون کو بھی رسول بنا دے۔اور ان کا مجھ پر ایک الزام ہے تو میں ڈرتا ہو ں کہ کہیں وہ مجھے قتل نہ کر دیں۔ ( اللہ نے)فرما یا: ہرگز نہیں، تم دونوں ہمارے معجزات لے کر جا ؤ، ہم تمہارے ساتھ ہیں، خوب سننے والے ہیں۔ اسی طرح یہ واقعہ سورۂ نمل ،آیت7 تا 14 میں بھی بیان کیا گیا ہے۔

درس و نصیحت

عورت کا اصلی حسن شرم و حیا ہے: اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام کو بلانے کے لیے آنے والی دختر ِ شعیب کی شرم و حیا کا بطور خاص ذکر فرمایا ،کیونکہ شرم و حیا اورپردے کا خیال رکھنا پچھلے زمانوں میں بھی شریف لوگوں کی خاص علامت رہا ہے ۔قرآن مجید کے اس درس ِ حیا میں ان عورتوں کےلئے نصیحت ہے جو بے پردہ، سڑکوں، بازاروں اور دوکانوں پر پھرتی ہیں،سج دھج کردفتروں میں مردوں کے ساتھ کام کرتی ہیں۔ یاد رکھیں کہ قرآن و حدیث کی تعلیم شرم و حیاہے۔ دین کی تبلیغ میں نرمی چاہئے : اللہ تعالیٰ نے سرکش فرعون کی طرف حضرت موسیٰ و ہارون عَلَیْہِمَا السَّلَام کو بھیجتے وقت انہیں نرمی کے ساتھ تبلیغ کرنے کی ہدایت فرمائی،اس سے معلوم ہو اکہ دین کی تبلیغ نرمی کے ساتھ کرنی چاہیے اور تبلیغ کرنے والے کوچاہیے کہ وہ پیار محبت سے نصیحت کرے کیونکہ اس طریقے سے کی گئی نصیحت سے یہ امید ہوتی ہے کہ سامنے والا نصیحت قبول کر لے اور اپنے معاملے میں اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرے۔
1… خازن،طٰهٰ،تحت الاٰية:۳۹، ۳/۲۵۳. 2…پ۲۰،القصص:۸. 3…خازن،القصص،تحت الاٰية:۹،۳/۴۲۵،ملتقطاً. 4…پ۲۰،القصص:۹. 5… خازن،القصص،تحت الاٰية:۱۰، ۳/۴۲۵-۴۲۶، مدارک،القصص،تحت الاٰية:۱۰، ص۸۶۲، ملتقطاً. 6…پ۲۰،القصص:۱۰. 7… خازن،القصص،تحت الاٰية:۱۲، ۳/۴۲۶، ملتقطاً. 8…پ۲۰،القصص:۱۲، ۱۳. 9…پ۱۶،طٰہٰ:۴۰. 10…جلالین،القصص،تحت الاٰية:۱۳، ص۳۲۷. 11… بغوی،طہ،تحت الاٰية:۲۷، ۳/۱۸۲. 12…پ۲۰،القصص:۱۴. 13… مدارک،القصص،تحت الاٰية:۱۵، ص۸۶۴، خازن،القصص،تحت الاٰية:۱۵، ۳/۴۲۷، ملتقطاً. 14…پ۲۰،القصص:۱۵. 15…خازن،القصص،تحت الاٰية:۱۵، ۳/۴۲۷، مدارک،القصص،تحت الاٰية:۱۵، ص۸۶۴. 16…پ۲۰،القصص:۱۶. 17…پ۲۰،القصص:۱۷. 18… مدارک،القصص،تحت الاٰية:۱۷، ص۸۶۴. 19… پ۲۰،القصص:۱۸. 20…پ۲۰،القصص:۱۹. 21… خازن،القصص،تحت الاٰية:۱۸-۱۹، ۳/۴۲۸، مدارک،القصص،تحت الاٰية:۱۸-۱۹، ص۸۶۴-۸۶۵، ملتقطاً. 22…پ۲۰،القصص: ۲۰. 23…پ۲۰،القصص:۲۱. 24… پ۲۰،القصص:۲۲. 25… جلالین،القصص،تحت الاٰية:۲۲، ص۳۲۸، خازن،القصص،تحت الاٰية:۲۲، ۳/۴۲۸-۴۲۹، ملتقطاً. 26…پ۲۰،القصص:۲۴. 27…پ۲۰،القصص: ۲۵. 28… پ۲۰،القصص: ۲۵. 29…پ۲۰،القصص:۲۷. 30… پ۲۰،القصص: ۲۸. 31… خازن،القصص،تحت الاٰية:۲۸، ۳/۴۳۱، جلالین،القصص،تحت الاٰية:۲۸، ص۳۲۹، ملتقطاً. 32…پ۲۰،القصص:۲۹. 33…پ۲۰،القصص:۳۰. 34… خازن،القصص،تحت الاٰية:۳۰، ۳/۴۳۱-۴۳۲، ملتقطاً. 35… پ۱۶،طٰہٰ:۱۱-۱۶. 36… مدارک،طہ،تحت الاٰية:۱۶، ص۶۸۸. 37…پ۱۶،طٰہٰ:۱۷. 3… مدارک،طہ،تحت الاٰية:۱۷، ص۶۸۸. 38…پ۱۶،طٰہٰ:۱۸. 39…پ۱۶،طٰہٰ:۱۸. 40…مدارک،طہ،تحت الاٰية:۱۸، ص۶۸۸. 41… خازن،طہ،تحت الاٰية:۱۹-۲۱، ۳/۲۵۱-۲۵۲، مدارک،طہ،تحت الاٰية:۱۹-۲۱، ص۶۸۹، ملتقطاً. 42…پ۱۶،طٰہٰ:۱۹-۲۱. 43…پ۲۰،القصص:۳۱. 44…پ۱۶،طٰہٰ:۲۲، ۲۳. 45… پ۲۰،القصص:۳۲. 46… پ۱۶،طٰہٰ:۲۴. 47…پ۱۶،طٰہٰ:۴۲، ۴۳. 48… خازن،طہ،تحت الاٰية:۲۴، ۳/۲۵۲. 49… پ۱۶،طٰہٰ:۴۴. 50… خازن،طہ،تحت الاٰية:۴۴، ۳/۲۵۴. 51…پ۱۶،طٰہٰ:۲۵-۲۸. 52… پ۱۶،طٰہٰ:۲۹-۳۵. 53… پ۱۶،طٰہٰ:۳۶. 54… پ۲۰،القصص:۳۳، ۳۴. 55…پ۲۰،القصص:۳۵. 56…پ۱۹،الشعراء:۱۰-۱۵.

کتاب کا موضوع

کتاب کا موضوع

Sirat-ul-Jinan

صراط الجنان

موبائل ایپلیکیشن

Marfatul Quran

معرفۃ القرآن

موبائل ایپلیکیشن

Faizan-e-Hadees

فیضانِ حدیث

موبائل ایپلیکیشن

Prayer Time

پریئر ٹائمز

موبائل ایپلیکیشن

Read and Listen

ریڈ اینڈ لسن

موبائل ایپلیکیشن

Islamic EBooks

اسلامک ای بک لائبریری

موبائل ایپلیکیشن

Naat Collection

نعت کلیکشن

موبائل ایپلیکیشن

Bahar-e-Shariyat

بہار شریعت

موبائل ایپلیکیشن