30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں
حضرت ذوالکفل عَلَیْہِ السَّلَام
قرآن مجید میں حضرت ذوالکفل عَلَیْہِ السَّلَام کے نام اور اجمالی اوصاف کے سوا ہمیں مزید کچھ بیان نہیں ملتا، اسی طرح حدیثوں میں بھی آپ کا کوئی تذکرہ منقول نہیں ہے۔ آپ عَلَیْہِ السَّلَام کی سیرت پاک کا مختصر تذکرہ 1 باب میں بیان کیا گیاہے جس کی تفصیل ذیلی سطور میں ملاحظہ ہو۔
باب: 1
حضرت ذوالکفل عَلَیْہِ السَّلَام کے ذکر کے قرآنی مقامات
قرآنِ کریم میں حضرت ذوالکفل عَلَیْہِ السَّلَام کا ذکر خیردو سورتوں میں کیا گیا ہے:
(1) سورۂ انبیاء ،آیت:85،86۔ (2) سورۂ صٓ ،آیت:48۔ان دونوں سورتوں میں آپ کا نام اور اوصاف مذکور ہیں۔ ان کے علاوہ آپ کے حالات کا مجمل یا مفصل کوئی تذکرہ نہیں ہے۔
نام و لقب:
علامہ عبدالمصطفیٰ اعظمی فرماتے ہیں:قرآن و حدیث کی روشنی میں اس سے زیادہ نہیں کہا جا سکتا کہ ذوالکفل عَلَیْہِ السَّلَام خدا کے برگزیدہ نبی اور پیغمبر تھے جو کسی قوم کی ہدایت کے لئے مبعوث ہوئے تھے۔
البتہ حضرت شاہ عبدالقادر صاحب دہلوی() ارشاد فرماتے ہیں کہ’’ حضرت ذوالکفل عَلَیْہِ السَّلَام حضرت ایوب عَلَیْہِ السَّلَام کے فرزند ہیں اور انہوں نے خالصاً لِوَجْہِ اللہ (یعنی رضائے الٰہی کے لیے) کسی کی ضمانت کرلی تھی۔ جس کی وجہ سے ان کو کئی برس قید کی تکلیف برداشت کرنی پڑی۔ (موضح القرآن،)
اور بعض مفسرین نے تحریر فرمایا کہ حضرت ذوالکفل عَلَیْہِ السَّلَام درحقیقت حضرت حزقیل عَلَیْہِ السَّلَام کا لقب ہے۔
اور زمانہ حال کے کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ ذوالکفل ’’گوتم بدھ‘‘ کا لقب ہے،مگر ’’گوتم بدھ‘‘ کی موجود تعلیمات کو سامنے رکھیں تو محض ایک خیالی تُک بندی ہی لگتی ہے، حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔(1)
اوصاف اور احسانِ الٰہی:
آپ عَلَیْہِ السَّلَام صبر کرنے والے، اللہ تعالیٰ کےقربِ خاص کے لائق بندوں اور بہترین لوگوں میں سے تھے، نیز اللہ تعالیٰ نے آپ عَلَیْہِ السَّلَام کو اپنی خاص رحمت میں داخل فرمایا :
فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
وَ اِسْمٰعِیْلَ وَ اِدْرِیْسَ وَ ذَا الْكِفْلِؕ-كُلٌّ مِّنَ الصّٰبِرِیْنَۚۖ(۸۵) وَ اَدْخَلْنٰهُمْ فِیْ رَحْمَتِنَاؕ-اِنَّهُمْ مِّنَ الصّٰلِحِیْنَ(۸۶) (2)
ترجمہ :اور اسماعیل اور ادریس اور ذوالکفل کو (یاد کرو) وہ سب صبر کرنے والے تھے۔ اور انہیں ہم نے اپنی رحمت میں داخل فرمایا، بیشک وہ ہمارے قربِ خاص کے لائق لوگوں میں سے ہیں۔
ارشاد ِ باری تعالیٰ ہے:
وَ اذْكُرْ اِسْمٰعِیْلَ وَ الْیَسَعَ وَ ذَا الْكِفْلِؕ-وَ كُلٌّ مِّنَ الْاَخْیَارِؕ(۴۸) (3)
ترجمہ :اور اسماعیل اور یسع اور ذو الکفل کو یاد کرو اور سب بہترین لوگ ہیں۔
حضرت یونس عَلَیْہِ السَّلَام
آپ عَلَیْہِ السَّلَام کا نام یونس بن متٰی جبکہ لقب ذوالنون اور صاحِبُ الْحُوْت (یعنی مچھلی والے) ہے۔ آپ عَلَیْہِ السَّلَام حضرت ہود عَلَیْہِ السَّلَام کی اولاد میں سے ہیں۔آپ بستی نِیْنَوٰی کے نبی تھے جو مُوصَل کے علاقہ میں دجلہ کے کنارے پر واقع تھی۔آپ عَلَیْہِ السَّلَام نے چالیس سال لوگوں کو بت پرستی چھوڑنے اورتوحید کی دعوت دی لیکن انہوں نے آپ عَلَیْہِ السَّلَام کو جھٹلایا اور اپنے شرک سے باز نہ آئے، تب آپ عَلَیْہِ السَّلَام نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے انہیں عذاب کی خبردی اور خود علاقے سے باہر تشریف لے گئے۔قوم نے علاماتِ عذاب کا مشاہدہ کر کے بارگاہِ الٰہی میں سچی توبہ کر لی تو ان سے عذاب اٹھا لیا گیا۔مزید تفصیل اگلے ابواب میں ملاحظہ فرمائیں۔یہاں آپ عَلَیْہِ السَّلَام کی سیرت مبارکہ کو 4ابواب میں بیان کیا گیا ہے جن کی تفصیل درج ذیل ہے:
باب: 1
حضرت یونس عَلَیْہِ السَّلَام کے واقعات کے قرآنی مقامات
حضرت یونس عَلَیْہِ السَّلَام کااجمالی ذکرِ خیر سورۂ نساء ،آیت:163 اور سورۂ اَنعام ،آیت:86 میں ہے ، جبکہ تفصیلی تذکرہ درج ذیل4 سورتوں میں ہے:
(1) سورۂ یونس ،آیت:98۔ (2) سورۂ انبیاء ،آیت:87،88۔ (3) سورۂ صافات ،آیت:139تا148۔
(4) سورۂ قلم ،آیت:48تا50۔
باب: 2
حضرت یونس عَلَیْہِ السَّلَام کا تعارف
نام و لقب:1
آپ عَلَیْہِ السَّلَام کا نامِ پاک یونس بن متٰی ہے اور چونکہ آپ عَلَیْہِ السَّلَام مچھلی کے پیٹ میں تشریف لے گئے تھے اس وجہ سے آپ کو’’ذوالنون ‘‘اور’’ صاحِبُ الْحُوْت ‘‘(یعنی مچھلی والے) بھی کہا جاتا ہے اور یہ دونوں آپ کے القاب ہیں۔
نزولِ احکام:
آپ عَلَیْہِ السَّلَام پرجداگانہ کوئی کتاب یا صحیفہ نازل نہیں ہوا،البتہ وحی کے ذریعے آپ عَلَیْہِ السَّلَام پر بعض احکام نازل ہوئے، جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
اِنَّاۤ اَوْحَیْنَاۤ اِلَیْكَ كَمَاۤ اَوْحَیْنَاۤ اِلٰى نُوْحٍ وَّ النَّبِیّٖنَ مِنْۢ بَعْدِهٖۚ-وَ اَوْحَیْنَاۤ اِلٰۤى اِبْرٰهِیْمَ وَ اِسْمٰعِیْلَ وَ اِسْحٰقَ وَ یَعْقُوْبَ وَ الْاَسْبَاطِ وَ عِیْسٰى وَ اَیُّوْبَ وَ یُوْنُسَ وَ هٰرُوْنَ وَ سُلَیْمٰنَ (4)
ترجمہ : بیشک اے حبیب! ہم نے تمہاری طرف وحی بھیجی جیسے ہم نے نوح اور اس کے بعد پیغمبروں کی طرف بھیجی اور ہم نے ابراہیم اور اسمٰعیل اور اسحاق اور یعقوب اور ان کے بیٹوں اور عیسیٰ اور ایوب اور یونس اور ہارون اور سلیمان کی طرف وحی فرمائی۔
انعاماتِ الٰہی:
اللہ تعالیٰ نے آپ عَلَیْہِ السَّلَام پر بہت سے انعامات فرمائے جن میں سے چند یہ ہیں کہ
اللہ تعالیٰ نے آپ عَلَیْہِ السَّلَام کی دعاقبول فرمائی، آپ کا رجوع بھی قبول فرمایا۔مچھلی کے پیٹ میں بھی تَوَجّہ اِلَی اللہ ، رضا بالقضاء اور ذکر ِ الٰہی کی توفیق بخشی۔ خاص فضل فرماکرمچھلی کے پیٹ سے نجات دی۔آپ عَلَیْہِ السَّلَام کو اپنے منتخب بندوں میں شامل فرمایا اور صالحین کے گروہ میں اعلیٰ درجہ عطا فرمایا۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
فَاصْبِرْ لِحُكْمِ رَبِّكَ وَ لَا تَكُنْ كَصَاحِبِ الْحُوْتِۘ-اِذْ نَادٰى وَ هُوَ مَكْظُوْمٌؕ(۴۸) لَوْ لَاۤ اَنْ تَدٰرَكَهٗ نِعْمَةٌ مِّنْ رَّبِّهٖ لَنُبِذَ بِالْعَرَآءِ وَ هُوَ مَذْمُوْمٌ(۴۹) فَاجْتَبٰىهُ رَبُّهٗ فَجَعَلَهٗ مِنَ الصّٰلِحِیْنَ(۵۰) (5)
ترجمہ : تو تم اپنے رب کے حکم تک صبرکر و اور مچھلی والے کی طرح نہ ہونا جب اس نے اس حال میں پکارا کہ وہ بہت غمگین تھا۔ اگر اس کے رب کی نعمت اسے نہ پالیتی تو وہ ضرور چٹیل میدان میں پھینک دیا جاتااور وہ ملامت کیا ہوا ہوتا۔تو اسے اس کے رب نے چن لیا اور اپنے قربِ خاص کے حقداروں میں کرلیا۔
باب: 3
سیرتِ یونس عَلَیْہِ السَّلَام کے اہم واقعات
اس باب میں حضرت یونس عَلَیْہِ السَّلَام کی سیرتِ مبارکہ کے اہم واقعات کا بیان ہے، تفصیل ذیلی سطور میں ملاحظہ ہو :
حضرت یونس عَلَیْہِ السَّلَام اور ان کی قوم:
حضرت یونس عَلَیْہِ السَّلَام کی قوم کا واقعہ یہ ہے کہ یہ لوگ موصل کے علاقے نینوٰی میں رہتے تھے اور کفر و شرک میں مبتلا تھے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت یونس عَلَیْہِ السَّلَام ان کی طرف رسول بنا کربھیجے۔ آپ نے انہیں ایک عرصے تک بت پرستی چھوڑنے اور ایمان لانے کا حکم دیا، لیکن یہ لوگ دعوت قبول کرنے سے انکار اور حضرت یونس عَلَیْہِ السَّلَام کی تکذیب کی راہ پر ہی گامزن رہے۔ طویل عرصے تک پوری کوشش کے باوجود جب لوگ راہِ راست پر نہ آئے تو آپ عَلَیْہِ السَّلَام نےبارگاہِ الٰہی میں دعا کی :اے اللہ !قوم مجھے جھٹلانے پر ہی قائم ہے،پس تو ان پر اپنا عذاب نازل کر دے ۔اس پر ان سے فرمایا گیا:آپ انہیں خبر دے دیں کہ تین دن بعد صبح کے وقت ان پر عذاب نازل ہو جائے گا۔چنانچہ آپ عَلَیْہِ السَّلَام نے قوم کو نزولِ عذاب کی خبر دےدی۔(6)
قوم یونس کی توبہ اور رفعِ عذاب:
نزولِ عذاب کی خبر سن کرلوگوں نے آپس میں کہا : حضرت یونس عَلَیْہِ السَّلَام نے کبھی کوئی بات غلط نہیں کہی ہے، دیکھو اگر وہ رات کو یہاں رہے جب تو کوئی اندیشہ نہیں اور اگر انہوں نے رات یہاں نہ گزاری تو سمجھ لینا چاہیے کہ عذاب آئے گا۔ جب رات ہوئی توحضرت یونس عَلَیْہِ السَّلَام وہاں سے تشریف لے گئے اور صبح کے وقت عذاب کے آثار نمودار ہوگئے ، آسمان پر سیاہ رنگ کا ہیبت ناک بادل آیا ، بہت سارا دھواں جمع ہوا اور تمام شہر پر چھا گیا۔ یہ دیکھ کر انہیں یقین ہوگیا کہ عذاب آنے والا ہے ، انہوں نے حضرت یونس عَلَیْہِ السَّلَام کو تلاش کیالیکن آپ کو نہ پایا، اب انہیں اور زیادہ اندیشہ ہوا ۔ یہ سب دیکھ کر وہ لوگ اپنی عورتوں ، بچوں اور جانوروں کے ساتھ جنگل کی طرف نکل گئے، موٹے کپڑے پہن کر توبہ و اسلام کا اظہار کیا، شوہر سے بیوی اور ماں سے بچے جدا ہوگئے اور سب نے بارگاہِ الٰہی میں گریہ و زاری شروع کر دی اور عرض کرنے لگے کہ جودین حضرت یونس عَلَیْہِ السَّلَام لائے ہیں ہم اس پر ایمان لاتے ہیں۔ چنانچہ انہوں نے سچی توبہ کی اور جو جَرائم ان سے ہوئے تھے انہیں دور کیا، پرائے مال واپس کئے حتّٰی کہ اگر دوسرے کا ایک پتھرکسی کی بنیاد میں لگ گیا تھا تو بنیاد اکھاڑ کر وہ پتھر نکال دیا اور واپس کردیا ۔ اللہ تعالیٰ سے اخلاص کے ساتھ مغفرت کی دعائیں کیں توپروردگارِ عالَم نے ان پر رحم کیا، دعا قبول فرمائی اور عذاب اٹھا دیا گیا۔(7)
قرآنِ کریم میں ہے:
فَلَوْ لَا كَانَتْ قَرْیَةٌ اٰمَنَتْ فَنَفَعَهَاۤ اِیْمَانُهَاۤ اِلَّا قَوْمَ یُوْنُسَؕ-لَمَّاۤ اٰمَنُوْا كَشَفْنَا عَنْهُمْ عَذَابَ الْخِزْیِ فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا وَ مَتَّعْنٰهُمْ اِلٰى حِیْنٍ(۹۸) (8)
ترجمہ :تو کیوں ایسا نہ ہوا کہ کوئی قوم ایمان لے آتی تاکہ اس کا ایمان اسے نفع دیتا لیکن یونس کی قوم جب ایمان لائی توہم نے ان سے دنیا کی زندگی میں رسوائی کا عذاب ہٹادیا اور ایک وقت تک انہیں فائدہ اٹھانے دیا۔
اس مقام پر ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ قرآنِ پاک میں اللہ تعالیٰ نے فرعون کے بارے میں ذکر فرمایا کہ اس نے آخری وقت توبہ کی لیکن اس کی توبہ قبول نہ ہوئی جبکہ حضرت یونس عَلَیْہِ السَّلَام کی قوم کے بارے میں ذکر فرمایا کہ انہوں نے توبہ کی تو اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول فرما لی، دونوں کی توبہ میں کیا فرق ہے؟ امام فخر الدین رازی اس کے جواب میں فرماتے ہیں کہ فرعون کی توبہ اور حضرت یونس عَلَیْہِ السَّلَام کی قوم کی توبہ میں واضح فرق ہے وہ یہ کہ فرعون نے عذاب کا مشاہدہ کرنے کے بعد توبہ کی تھی جبکہ حضرت یونس عَلَیْہِ السَّلَام کی قوم پر جب وہ نشانیاں ظاہر ہوئیں جو عذاب کے قریب ہونے پر دلالت کرتی ہیں تو انہوں نے عذاب کا مشاہدہ کرنے سے پہلے اسی وقت ہی توبہ کر لی تھی۔ (9)
اس کا مطلب یہ نکلا کہ نزولِ عذاب کے بعد توبہ قبول نہیں البتہ نزولِ عذاب سے پہلے صرف علاماتِ عذاب کے ظہور کے بعد توبہ قبول ہوسکتی ہے۔
حضرت یونس عَلَیْہِ السَّلَام کا دریائی سفر اور مچھلی کا نگلنا:
دوسری طرف حضرت یونس عَلَیْہِ السَّلَام اپنی قوم کی توبہ سے باخبر نہیں تھے اور جب انہوں نے دیکھا کہ قوم کو عذاب آ نے کی جو خبر دی تھی اس میں تاخیر ہوگئی ہے تو آپ عَلَیْہِ السَّلَام اپنی قوم کے کفر و نافرمانی پر غضبناک ہو کر اللہ تعالیٰ کی طرف سے اجازت نازل ہوئے بغیر ہی ہجرت کے ارادے سے چل دئیے اور آپ عَلَیْہِ السَّلَام نے یہ خیال کیاکہ اللہ تعالیٰ مجھ پرکوئی تنگی نہیں کرے گااورنہ ہی اس فعل پرمجھ سے کوئی بازپرس ہوگی۔حضرت یونس عَلَیْہِ السَّلَام کے ہجرت کرنے اور غضبناک ہونے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ وہ لوگ اس شخص کو قتل کر دیتے تھے جس کا جھوٹاہونا ثابت ہو جائے، آپ عَلَیْہِ السَّلَام یقینی طور پر سچے تھے کہ آپ عَلَیْہِ السَّلَام نے وحی الٰہی سے ہی انہیں بتایا کہ اگر تم نے میری بات نہ مانی تو تم پر اللہ عَزَّ وَجَلَّ کا عذاب آئے گا لیکن چونکہ فی الحال عذاب آیا نہیں تھا تو قوم کی نظر میں آپ کا کہنا واقع کے خلاف تھا اس لیے آپ قتل کے اندیشے سے وہاں سے چل دئیے حالانکہ آپ عَلَیْہِ السَّلَام نے عذاب کا تو فرمایا تھا لیکن انہیں کوئی متعین وقت نہیں بتایا تھا کہ جس پر آپ عَلَیْہِ السَّلَام کو معاذ اللہ آپ کی قوم جھوٹا کہہ سکتی۔
حضرت عبداللہ بن عباس اور حضرت وہب رَضِیَ اللہُ عَنْہُمَا کا قول ہے کہ حضرت یونس عَلَیْہِ السَّلَام نے اپنی قوم سے عذاب کا وعدہ کیا تھا،جب اس میں تاخیر ہوئی تو(قتل سے بچنے کے لئے ) آپ عَلَیْہِ السَّلَام اُن سے چھپ کر نکل گئے ، آپ عَلَیْہِ السَّلَام نے دریائی سفر کا قصد کیا اور بھری کشتی پر سوار ہوگئے، جب کشتی دریا کے درمیان پہنچی تو ٹھہر گئی اور اس کے ٹھہرنے کا کوئی ظاہری سبب موجود نہ تھا۔ملاحوں نے کہا: اس کشتی میں اپنے مولا سے بھاگا ہوا کوئی غلام ہے ،قرعہ اندازی کرنے سے ظاہر ہوجائے گا کہ وہ کون ہے۔ چنانچہ قرعہ اندازی کی گئی توا س میں آپ عَلَیْہِ السَّلَام ہی کانام نکلا،اس پر آپ عَلَیْہِ السَّلَام نے فرمایا کہ میں ہی وہ غلام ہوں۔اس کے بعد آپ عَلَیْہِ السَّلَام پانی میں ڈال دیئے گئے کیونکہ ان لوگوں کادستور یہی تھا کہ جب تک بھاگا ہوا غلام دریا میں غرق نہ کردیاجائے اس وقت تک کشتی چلتی نہ تھی۔(10)
جب حضرت یونس عَلَیْہِ السَّلَام دریا میں ڈال دئیے گئے تو انہیں ایک بڑی مچھلی نے نگل لیا اور اس وقت آپ عَلَیْہِ السَّلَام کا حال یہ تھا کہ آپ خودکو ا س بات پر ملامت کررہے تھے کہ نکلنے میں جلدی کیوں کی اور قوم سے جدا ہونے میں اللہ تعالیٰ کے حکم کا انتظار کیوں نہ کیا۔ مروی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مچھلی کوالہام فرمایا :میں نے حضرت یونس عَلَیْہِ السَّلَام کو تیرے لئے غذا نہیں بنایا بلکہ تیرے پیٹ کو اس کے لئے قید خانہ بنایا ہے لہذا تم نہ تو ان کی کوئی ہڈی توڑنا اور نہ ہی ان کے گوشت کو کاٹنا۔(11)
قرآنِ کریم میں ہے:
وَ اِنَّ یُوْنُسَ لَمِنَ الْمُرْسَلِیْنَؕ(۱۳۹) اِذْ اَبَقَ اِلَى الْفُلْكِ الْمَشْحُوْنِۙ(۱۴۰) فَسَاهَمَ فَكَانَ مِنَ الْمُدْحَضِیْنَۚ(۱۴۱) فَالْتَقَمَهُ الْحُوْتُ وَ هُوَ مُلِیْمٌ(۱۴۲) (12)
ترجمہ :اور بیشک یونس ضرور رسولوں میں سے ہے۔ جب وہ بھری کشتی کی طرف نکل گیا۔ تو کشتی والے نے قرعہ ڈالا تو یونس دھکیلے جانے والوں میں سے ہوگئے۔ پھر انہیں مچھلی نے نگل لیا اور وہ اپنے آپ کو ملامت کررہے تھے۔
یہاں ایک اہم بات قابلِ توجہ ہے ،علامہ احمد صاوی فرماتے ہیں: حضرت یونس عَلَیْہِ السَّلَام اپنے اجتہاد کی وجہ سے کشتی میں سوار ہوئے تھے کیونکہ جب عذاب میں تاخیر ہوئی تو حضرت یونس عَلَیْہِ السَّلَام کو یہ گمان ہوا کہ اگر وہ اپنی قوم میں ٹھہرے رہے تو وہ انہیں شہید کر دیں گے کیونکہ ان لوگوں کا دستوریہ تھا کہ جس کا جھوٹاہونا ثابت ہو جائے تو وہ اسے قتل کر دیتے تھے، لہذا حضرت یونس عَلَیْہِ السَّلَام کا کشتی میں سوار ہونا اللہ تعالیٰ کی نافرمانی نہیں اور نہ ہی کوئی کبیرہ یا صغیرہ گنا ہ تھا اور مچھلی کے پیٹ میں قید کر کے ان کا جو مؤاخذہ ہوا وہ اَولی کام کی مخالفت کی بنا پر ہوا کیونکہ ان کے لئے اَولیٰ یہی تھا کہ آپ اللہ تعالیٰ کے حکم کا انتظار کرتے۔ (13)
حضرت یونس عَلَیْہِ السَّلَام کی دعا:
جب حضرت یونس عَلَیْہِ السَّلَام مچھلی کے پیٹ میں تشریف لائے تو انہیں کئی قسم کی تاریکیوں کا سامنا ہوا، جیسے دریا کی تاریکی ، رات کی تاریکی اور مچھلی کے پیٹ کی تاریکی ، ان اندھیروں میں حضرت یونس عَلَیْہِ السَّلَام نے اپنے پروردگار عَزَّ وَجَلَّ سے اس طرح دعا کی : اے میرے رب! عَزَّ وَجَلَّ ، تیرے سوا کوئی معبود نہیں اور تو ہرعیب سے پاک ہے، بیشک مجھ سے بے جا ہوا کہ میں اپنی قوم سے تیرا اِذن اور اجازت پانے سے پہلے ہی جدا ہو گیا۔ (14)
قرآن پاک میں ہے:
وَ ذَا النُّوْنِ اِذْ ذَّهَبَ مُغَاضِبًا فَظَنَّ اَنْ لَّنْ نَّقْدِرَ عَلَیْهِ فَنَادٰى فِی الظُّلُمٰتِ اَنْ لَّاۤ اِلٰهَ اِلَّاۤ اَنْتَ سُبْحٰنَكَ ﳓ اِنِّیْ كُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِیْنَۚۖ(۸۷) (15)
ترجمہ : اور ذوالنون کو (یاد کرو) جب وہ غضبناک ہوکر چل پڑے تواس نے گمان کیا کہ ہم اس پر تنگی نہ کریں گے تو اس نے اندھیروں میں پکاراکہ تیرے سوا کوئی معبود نہیں تو ہرعیب سے پاک ہے ، بیشک مجھ سے بے جا ہوا ۔
یہاں آیت کے ان الفاظ’’اَنْ لَّنْ نَّقْدِر ‘‘سے متعلق ایک اہم بات ملاحظہ ہو۔ عربی لغت کے اعتبار سے یہاں لفظ’’ نَّقْدِر ‘‘میں ایک احتمال یہ ہے کہ یہ مصدر’’قدرت‘‘سے بنا ہے،اس صورت میں’’ فَظَنَّ اَنْ لَّنْ نَّقْدِرَ عَلَیْهِ ‘‘ کا معنی یہ ہو گا کہ انہوں نے یہ گمان کر لیا کہ ہم ان پر قدرت نہ پا سکیں گے۔یہاں یہ احتمال ہر گز درست نہیں کہ یہ بات نبی عَلَیْہِ السَّلَام تو کیا کسی عام مسلمان کی طرف بھی منسوب نہیں کر سکتے کیونکہ اس میں اللہ تعالیٰ کو عاجز گمان کیا گیا ہے جو کہ کفر ہے اور نبی عَلَیْہِ السَّلَام کفر و گناہ سے معصوم ہوتے ہیں ۔ دوسرا احتمال یہ ہے کہ لفظ’’ نَّقْدِر ‘‘ مصدر ’’ قدر ‘‘سے بنا ہے جس کے معنی ہیں’’تنگی کرنا‘‘اور یہاں یہی معنی درست ہے ۔امام فخر الدین رازی فرماتے ہیں:’’جس شخص نے یہ گمان کیا کہ اللہ تعالیٰ عاجز ہے وہ کافر ہے، اور یہ ایسی بات ہے کہ کسی عام مومن کی طرف بھی اس کی نسبت کرنا جائز نہیں تو انبیاءِکرام عَلَیْہِمُ السَّلَام کی طرف یہ بات منسوب کرنا کس طرح جائز ہو گا (کہ وہ اللہ تعالیٰ کو عاجز گمان کرتے ہیں۔ لہٰذا اس آیت کا یہ معنی ہر گز نہیں کہ حضرت یونس عَلَیْہِ السَّلَام نے یہ گمان کیا کہ اللہ تعالیٰ انہیں پکڑنے پر قادر نہیں بلکہ ) اس آیت کا معنی یہ ہے کہ’’حضرت یونس عَلَیْہِ السَّلَام نے گمان کیا کہ اللہ تعالیٰ ان پر تنگی نہیں فرمائے گا۔ (16)
امام فخر الدین رازی کے علاوہ دیگر معتبر مفسرین نے بھی اس آیت کا یہ معنی بیان کیا ہے ،اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان نے بھی اسی معنی کو اختیار کیا ہے اور ہم نے بھی اعلیٰ حضرت اور دیگر معتبر مفسرین کی پیروی کرتے ہوئے اس آیت میں لفظ’’ لَنْ نَّقْدِرَ ‘‘ کا ترجمہ ’’ہم تنگی نہ کریں گے‘‘ کیا ہے۔
حضرت یونس عَلَیْہِ السَّلَام کی دعا کی قبولیت:
اللہ تعالیٰ نے حضرت یونس عَلَیْہِ السَّلَام کی پکار سن لی اور ان کی دعا کو شرف قبولیت سے نوازا، چنانچہ انہیں تنہائی اور وحشت کے غم سے نجات بخشی اور مچھلی کو حکم دیا تو اس نے حضرت یونس عَلَیْہِ السَّلَام کو دریا کے کنارے آکر اپنے پیٹ سے نکال دیا۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
فَاسْتَجَبْنَا لَهٗۙ-وَ نَجَّیْنٰهُ مِنَ الْغَمِّؕ-وَ كَذٰلِكَ نُـْۨجِی الْمُؤْمِنِیْنَ(۸۸) (17)
ترجمہ :تو ہم نے اس کی پکار سن لی اور اسے غم سے نجات بخشی اور ہم ایمان والوں کو ایسے ہی نجات دیتے ہیں۔
یاد رہے کہ حضرت یونس عَلَیْہِ السَّلَام کی دعا کے الفاظ مقبول دعائیہ کلمات میں سے ہیں ،چنانچہ حضرت سعد رَضِیَ اللہُ عَنْہ سے روایت ہے ،رسول کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا:’’حضرت یونس نے مچھلی کے پیٹ میں جب دعا مانگی تو یہ کلمات کہے’’ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّاۤ اَنْتَ سُبْحٰنَكَ ﳓ اِنِّیْ كُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِیْنَ ‘‘جو مسلمان ان کلمات کے ساتھ کسی مقصد کے لئے دعا مانگے تو اللہ تعالیٰ اسے قبول فرماتا ہے۔ (18)
ذکرِ الٰہی اور تسبیح کی برکت:
مچھلی کے پیٹ میں حضرت یونس عَلَیْہِ السَّلَام نے ذکر الٰہی کی کثرت کی اور یہ پڑھا’’ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّاۤ اَنْتَ سُبْحٰنَكَ ﳓ اِنِّیْ كُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِیْنَ ‘‘اس کی برکت سے انہیں نجات ملی، اگر وہ ایسا نہ کرتے تو ضرورقیامت کے دن تک اس مچھلی کے پیٹ میں رہتے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
فَلَوْ لَاۤ اَنَّهٗ كَانَ مِنَ الْمُسَبِّحِیْنَۙ(۱۴۳) لَلَبِثَ فِیْ بَطْنِهٖۤ اِلٰى یَوْمِ یُبْعَثُوْنَۚ(۱۴۴) (19)
ترجمہ : تو اگر وہ تسبیح کرنے والا نہ ہوتا۔ توضرور اس دن تک اس مچھلی کے پیٹ میں رہتا جس دن لوگ اٹھائے جائیں گے۔
مفسرین فرماتے ہیں:’’تم آسانی کے وقت اللہ تعالیٰ کا ذکر کرو تو وہ تمہیں تمہاری سختی اور مصیبت کے وقت یاد کرے گا کیونکہ حضرت یونس عَلَیْہِ السَّلَام اللہ تعالیٰ کے نیک بندے اور اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے والے تھے،جب وہ مچھلی کے پیٹ میں گئے تو اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے میں فرمایا:
فَلَوْ لَاۤ اَنَّهٗ كَانَ مِنَ الْمُسَبِّحِیْنَۙ(۱۴۳) لَلَبِثَ فِیْ بَطْنِهٖۤ اِلٰى یَوْمِ یُبْعَثُوْنَۚ(۱۴۴) (20)
ترجمہ : تو اگر وہ تسبیح کرنے والا نہ ہوتا۔ توضرور اس دن تک اس مچھلی کے پیٹ میں رہتا جس دن لوگ اٹھائے جائیں گے۔
اس کے برعکس فرعون ساری زندگی تو سرکش، نافرمان اور اللہ تعالیٰ کو بھولا رہا لیکن جب وہ ڈوبنے لگا توخدا کو یاد کرکے کہنے لگا:
اٰمَنْتُ اَنَّهٗ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا الَّذِیْۤ اٰمَنَتْ بِهٖ بَنُوْۤا اِسْرَآءِیْل (21)
ترجمہ : میں اِس بات پر ایمان لایا کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے ہیں۔
تو اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
ﰰ لْــٴٰـنَ وَ قَدْ عَصَیْتَ قَبْل (22)
ترجمہ : (اُسے کہا گیا)کیا اب (ایمان لاتے ہو؟) حالانکہ اس سے پہلے تو نافرمان رہا۔ (23)
مچھلی کے پیٹ سے باہر تشریف آوری:
جب حضرت یونس عَلَیْہِ السَّلَام نے دعا مانگی تو اللہ تعالیٰ نے انہیں مچھلی کے پیٹ سے نکال کر میدان میں ڈال دیا اور مچھلی کے پیٹ میں رہنے کی وجہ سے آپ ایسے کمزور،دبلے پتلے اور نازک ہوگئے تھے جیسے بچہ پیدائش کے وقت ہوتا ہے،آپ عَلَیْہِ السَّلَام کے جسم کی کھال نرم ہوگئی تھی اوربدن پر کوئی بال باقی نہ رہا تھا۔ (24)
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
فَنَبَذْنٰهُ بِالْعَرَآءِ وَ هُوَ سَقِیْمٌۚ(۱۴۵) (25)
ترجمہ : پھر ہم نے اسے میدان میں ڈال دیا اور وہ بیمار تھا۔
مچھلی کے پیٹ میں رہنے کی مدت:
حضرت یونس عَلَیْہِ السَّلَام کے مچھلی کے پیٹ میں رہنے کی مدت کے بارے میں مختلف اقوال ہیں۔اُسی دن یا3دن یا7دن یا20دن یا40دن کے بعد آپ مچھلی کے پیٹ سے نکالے گئے ۔(26)
حضرت یونس عَلَیْہِ السَّلَام کے لیے سائے اور غذا کا قدرتی انتظام:
جس جگہ حضرت یونس عَلَیْہِ السَّلَام مچھلی کے پیٹ سے باہرتشریف لائے وہاں کوئی سایہ نہ تھا تو اللہ تعالیٰ نے ان پر سایہ کرنے اور انہیں مکھیوں سے محفوظ رکھنے کے لئے کدو کا پیڑ اگا دیا اور اللہ تعالیٰ کے حکم سے روزانہ ایک بکری آتی اور اپنا تھن حضرت یونس عَلَیْہِ السَّلَام کے دہنِ مبارک میں دے کر آپ عَلَیْہِ السَّلَام کو صبح و شام دودھ پلا جاتی یہاں تک کہ جسم مبارک کی جلد شریف یعنی کھال مضبوط ہوئی اور اپنے مقام سے بال اگ آئے اور جسم میں توانائی آئی۔ (27)
قرآنِ پاک میں ہے:
وَ اَنْۢبَتْنَا عَلَیْهِ شَجَرَةً مِّنْ یَّقْطِیْنٍۚ(۱۴۶) (28)
ترجمہ : اور ہم نے اس پرکدو کا پیڑ اگادیا۔
یاد رہے کہ کدو کی بیل ہوتی ہے جو زمین پر پھیلتی ہے مگر یہ آپ عَلَیْہِ السَّلَام کا معجزہ تھا کہ یہ کدو کا درخت قد والے درختوں کی طرح شاخ رکھتا تھا اور اس کے بڑے بڑے پتوں کے سائے میں آپ عَلَیْہِ السَّلَام آرام کرتے تھے۔ (29)
حضرت یونس عَلَیْہِ السَّلَام کی قوم میں تشریف آوری:
اللہ تعالیٰ نے حضرت یونس عَلَیْہِ السَّلَام کوپہلے کی طرح موصل کی سرزمین میں قوم نِینَویٰ کے ایک لاکھ اوراس سے کچھ زیادہ آدمیوں کی طرف انتہائی عزت واحترام کے ساتھ بھیجا،انہوں نے عذاب کے آثار دیکھ کر توبہ کر لی تھی ، پھر حضرت یونس عَلَیْہِ السَّلَام کے دوبارہ تشریف لانے پر باقاعدہ آپ عَلَیْہِ السَّلَام پر ایمان لائےاور اللہ تعالیٰ نے قوم کو ان کی آخری عمر تک آسائش کے ساتھ رکھا۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَ اَرْسَلْنٰهُ اِلٰى مِائَةِ اَلْفٍ اَوْ یَزِیْدُوْنَۚ(۱۴۷) فَاٰمَنُوْا فَمَتَّعْنٰهُمْ اِلٰى حِیْنٍؕ(۱۴۸) (30)
ترجمہ : اور ہم نے اسے ایک لاکھ بلکہ زیادہ آدمیوں کی طرف بھیجا۔ تو وہ ایمان لے آئے تو ہم نے انہیں ایک وقت تک فائدہ اٹھانے دیا۔
درس و نصیحت
بندگانِ خدا کی آزمائش اور ان کا صبر:علامہ عبد المصطفیٰ اعظمی رَحْمَۃُ اللہُ عَلَیْہِ فرماتے ہیں:حضرت یونس عَلَیْہِ السَّلَام کی دل ہلا دینے والی مصیبت اور مشکلات سے یہ ہدایت ملتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے خاص بندوں کو کس کس طرح امتحان میں ڈالتا ہے۔ لیکن جب بندے امتحان میں پڑ کر صبر وا ستقامت کا دامن نہیں چھوڑتے اور عین بلاؤں کے طوفان میں بھی خدا کی یاد سے غافل نہیں ہوتے تو اَرْحَمُ الرّٰحِمِین اپنے بندوں کی نجات کا غیب سے ایسا انتظام فرما دیتا ہے کہ کوئی اس کو سوچ بھی نہیں سکتا۔ غور کیجئے کہ حضرت یونس عَلَیْہِ السَّلَام کو جب کشتی والوں نے سمندر میں پھینک دیا تو ان کی زندگی اور سلامتی کا کون سا ذریعہ باقی رہ گیا تھا؟ پھر انہیں مچھلی نے نگل لیا تو اب بھلا ان کی حیات کا کون سا سہارا رہ گیا تھا؟ مگر اسی حالت میں آپ نے جب آیتِ کریمہ کا وظیفہ پڑھا تو اللہ تعالیٰ نے انہیں مچھلی کے پیٹ میں بھی زندہ و سلامت رکھا اور مچھلی کے پیٹ سے انہیں ایک میدان میں پہنچا دیا اور پھر انہیں تندرستی و سلامتی کے ساتھ اُن کی قوم اور وطن میں پہنچا دیا۔ اور ان کی تبلیغ کی بدولت ایک لاکھ سے زائد آدمیوں کو ہدایت مل گئی۔(31)
باب: 4
احادیث میں حضرت یونس عَلَیْہِ السَّلَام کا تذکرہ
حضرت یونس عَلَیْہِ السَّلَام سے خود کو افضل کہنے کی ممانعت:
حضرت عبداللہرَضِیَ اللہُ عَنْہ سے روایت ہے، حضور اکرم صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا:تم میں سےکوئی ہرگز یہ نہ کہے کہ میں حضرت یونس عَلَیْہِ السَّلَام سے افضل ہوں۔(32)
یہاں لفظ ’’مَیں‘‘میں دو احتمال ہیں: (1)اس سے مراد نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی ذات مبارکہ ہے۔اس صورت میں حدیث پاک کے تین محمل ہیں(1)یہ فرمان اس وقت کا ہے جب آپ صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو حضرت یونس عَلَیْہِ السَّلَام سے اپنے افضل ہونے کا علم نہ تھا اور جب معلوم ہوا تو اس وقت فرمایا:میں اولادِ آدم کا سردار ہوں۔(2)یہاں یہ نہیں فرمایا کہ حضرت یونس عَلَیْہِ السَّلَام ان سے یا دیگر انبیاء عَلَیْہِمُ السَّلَام سے افضل ہیں(بلکہ خود کوان سے افضل کہنے سے منع کیااور یہ حضور اکرم صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی عاجزی و انکساری کی دلیل ہے نہ کہ حضرت یونس عَلَیْہِ السَّلَام کے حضور صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے افضل ہونے کی۔)(3)آپ صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے یہ بات ا س لیے فرمائی تاکہ قرآن کریم میں حضرت یونس عَلَیْہِ السَّلَام کے بیان کردہ واقعہ کو بنیا دبنا کرکوئی جاہل آپ عَلَیْہِ السَّلَام کا مرتبہ کم ہونے کا خیال نہ کرے۔ علماء فرماتے ہیں :حضرت یونس عَلَیْہِ السَّلَام نے جو کیا اور جو کچھ ان کے ساتھ ہوا اس کی وجہ سے آپ عَلَیْہِ السَّلَام ذرہ بھر بھی مرتبہ نبوت سے نیچے نہیں آئے۔ (2)لفظ ’’مَیں ‘‘ سے مراد ہر کہنے والا ہے۔اس صورت میں حدیث پاک کا مطلب یہ ہو گا کہ کوئی امتی عبادت ،علم اوران کے علاوہ دیگر فضائل میں اگرچہ کتنے ہی بڑے مرتبے تک پہنچ جائے لیکن وہ درجۂ نبوت کو نہیں پا سکتا اس لیے کوئی بندہ خو د کو حضرت یونس عَلَیْہِ السَّلَام سے افضل نہ کہے کیونکہ وہ نبی ہیں اور تو نبی نہیں ہے۔(33)اس کی تائید اس حدیث پاک سے بھی ہوتی ہے جس میں ارشاد فرمایا:کسی بندے کو لائق نہیں کہ وہ کہے:میں حضرت یونس بن متّٰی سے افضل ہوں ۔(34)
حضرت یونس عَلَیْہِ السَّلَام کی دعامسلمانوں کے لیے بھی ہے:
حضرت سعد بن مالک رَضِیَ اللہُ عَنْہ سے روایت ہے ، رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا:’’ کیا میں تمہاری اللہ تعالیٰ کے اس اسمِ اعظم کی طرف رہنمائی نہ کروں جس کے ساتھ جب بھی دعاکی جائے تو وہ قبول ہوجائے اورجب سوال کیاجائے توعطاہوجائے، وہ حضرت یونس عَلَیْہِ السَّلَام کی دعا’’ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّاۤ اَنْتَ سُبْحٰنَكَ ﳓ اِنِّیْ كُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِیْنَ ‘‘ہے جو انہوں نے اندھیروں میں تین بار کی تھی۔ ایک شخص نے عرض کی: یارسولَ اللہ ! صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ، یہ حضرت یونس عَلَیْہِ السَّلَام کے ساتھ خاص تھی یاتمام مسلمانوں کے لیے ہے ؟ آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا:’’کیاتم نے اللہ تعالیٰ کا یہ ارشادنہیں سنا:’’ وَ نَجَّیْنٰهُ مِنَ الْغَمِّؕ-وَ كَذٰلِكَ نُـْۨجِی الْمُؤْمِنِیْنَ ‘‘اور اسے غم سے نجات بخشی اور ہم ایمان والوں کو ایسے ہی نجات دیتے ہیں۔(35)مراد یہ ہے کہ یہ دعا حضرت یونس عَلَیْہِ السَّلَام کے لیے خاص نہیں مسلمانوں کے لیے بھی ہے، جب وہ ان الفاظ کے ساتھ دعامانگیں گے تو ان کی دعا بھی قبول ہو گی۔
دعا قبول ہونے کا وظیفہ:
حضرت سعد رَضِیَ اللہُ عَنْہ سے روایت ہے،نبی اکرم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا:مچھلی کے پیٹ میں حضرت یونس عَلَیْہِ السَّلَام نے یہ دعا مانگی’’ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّاۤ اَنْتَ سُبْحٰنَكَ ﳓ اِنِّیْ كُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِیْنَ ‘‘اور جو مسلمان اس کے ذریعے اللہ تعالیٰ سے دعا مانگے گا تو اس کی دعا قبول کی جائے گی۔(36)
حضور اکرم صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی پسندیدہ سبزی اور ا س کی ایک وجہ:
ایک مرتبہ کسی نے عرض کی: یارسولَ اللہ ! صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ،آپ کدّو شریف بہت پسند فرماتے ہیں۔ رسولِ کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشادفرمایا:ہاں،یہ میرے بھائی حضرت یونس عَلَیْہِ السَّلَام کا درخت ہے۔(37)
1…عجائب القرآن مع غرائب القرآن،ص۳۴۳، ۳۴۴،ملخصاً.
2…پ۱۷،الانبیاء:۸۵، ۸۶.
3…پ۲۳،صٓ:۴۸.
4…پ۶، النساء:۱۶۳.
5… پ۲۹،القلم:۴۸- ۵۰.
6… خازن،یونس،تحت الاٰية:۹۸، ۲/۳۳۵، روح البیان،یونس،تحت الاٰية:۹۸،۴/۸۲، ملتقطاً.
7… خازن،یونس،تحت الاٰية:۹۸، ۲/۳۳۵- ۳۳۶، ملتقطاً.
8…پ۱۱،یونس:۹۸.
9…تفسیر کبیر،یونس،تحت الاٰية:۹۸، ۶/۳۰۳.
10… خازن،والصافات،تحت الاٰية:۱۴۰، ۴/۲۶، مدارک،الصافات،تحت الاٰية:۱۴۰، ص۱۰۰۹، ملتقطاً.
11… روح البیان،الصافات،تحت الاٰية:۱۴۲، ۷/۴۸۷، ملخصاً.
12…پ۲۳،الصافات:۱۳۹-۱۴۲.
13… صاوی،الصافات،تحت الاٰية:۱۴۰، ۵/۱۷۵۲، ملخصاً.
14… مدارک،الانبیاء،تحت الاٰية:۸۷، ص۷۲۴.
15…پ۱۷،الانبیاء:۸۷.
16… تفسیر کبیر،الانبیاء، تحت الاٰیة:۸۷، ۸/۱۸۰.
17…پ۱۷،الانبیاء:۸۸.
18… ترمذی،کتاب الدعوات،۸۱-باب، ۵/۳۰۲، حدیث:۳۵۱۶.
19… پ۲۳،الصافات:۱۴۳، ۱۴۴.
20…پ۲۳،الصافات:۱۴۳، ۱۴۴.
21… پ۱۱،یونس:۹۰.
22… پ۱۱،یونس:۹۱.
23… تفسیر کبیر،الصافات،تحت الاٰية:۱۴۳، ۱۴۴، ۹/۳۵۷.
24…روح البیان،الصافات،تحت الاٰية:۱۴۵، ۷/۴۸۸.
25… پ۲۳،الصافات: ۱۴۵.
26… جلالین،الصافات،تحت الاٰية:۱۴۵، ص۳۷۸.
27… خازن،والصافات،تحت الاٰية:۱۴۶، ۴/۲۷.
28…پ۲۳،الصافات:۱۴۶.
29… روح البیان،الصافات،تحت الاٰية:۱۴۶، ۷/۴۸۹.
30…پ۲۳،الصافات:۱۴۷، ۱۴۸.
31…عجائب القرآن مع غرائب القرآن،ص۱۲۶، ۱۲۷.
32… بخاری،کتاب احادیث الانبیاء، باب قول الله تعالٰی:وان یونس لمن المرسلین…الخ،۲/۴۴۶،حدیث۳۴۱۲.
33…شرح النووی علی المسلم،کتاب الفضائل، فضائل موسیٰ علیه السلام،۸/۱۳۲، ۱۳۳،الجزءالخامس عشر.
34… بخاری،کتاب احادیث الانبیاء، باب قول الله تعالٰی:وان یونس لمن المرسلین…الخ،۲/۴۴۶،حدیث۳۴۱۳.
35… مستدرک حاکم،کتاب الدعاء والتکبیر والتھلیل...الخ،ایما مسلم دعا بدعوة یونس علیه السلام …الخ ، ۲/۱۸۳، الحدیث:۱۹۰۸.
36…تاریخ ابن عساکر،حرف السین فی اٰبائھم، ۵۲۱۳-عمر بن سعد بن ابی وقاص…الخ، ۴۵/۳۸.
37… بیضاوی،الصافات،تحت الاٰية:۱۴۶، ۵/۲۷.
کتاب کا موضوع
کتاب کا موضوع